اسرائیل، امریکہ،ایران :خطرناک مثلث
(جاوید حفیظ)
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات شروع سے ہی بہت اچھے ہیں۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ مڈل ایسٹ میں اسرائیل ا س کے مفادات کا محافظ ہے ۔اقتصادی امداد ہو یا اسلحے کی فروخت اسرائیل ہمیشہ امریکہ کی اولین ترجیح رہا ہے۔ غزہ پر وحشیانہ بمباری پھر سے شرع ہو گئی ہے۔ مغربی کنارے پر نئی یہودی بستیاں آباد ہو رہی ہیں۔ امریکہ کی سپورٹ کے بغیر یہ دونوں کام ناممکن ہوتے۔ صدر ٹرمپ کے موجودہ دور میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں نئی گرمجوشی نظر آ رہی ہے۔ صدر بائیڈن کے عہد تک دو ریاستی فارمولا کی بھی بات کبھی کبھی امریکہ کرتا تھا۔ غزہ کی جنگ بندی میں بھی امریکہ کا رول تھا مگر اب امن و آشتی کی بجائے غزہ کو فلسطینی آبادی سے خالی کرانا امریکی مقصود ہے؛ چنانچہ ٹرمپ کی شہ سے اسرائیل اور بھی بے باک ہو گیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم ایک بار پھر امریکہ یاترا پر ہے۔ دو ماہ میں یہ اُس کا دوسرا امریکی دورہ ہے۔ اس اچانک دورے پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مڈل ایسٹ کی صورتحال پر بات ضرور ہو گی۔ تجارتی ٹیرف بھی زیر بحث آئے گا لیکن اسرائیلی وزیراعظم کے دورے کا بڑا مقصد امریکہ کو ایران پر حملے میں شریک کرنا ہے۔ یہ بات اسرائیل ایک عرصے سے کر رہا ہے لیکن امریکہ نے مثبت جواب نہیں دیا۔ آیئے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکہ نے اسرائیلی خواہش کو اب تک قبولیت کیوں نہیں بخشی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایران پر حملے سے وسیع تر جنگ چھڑ جائے گی یعنی یہ غزہ کی طرح محدود جنگ نہیں ہوگی۔ ایران نے متعدد بار عندیہ دیا ہے کہ ایسی صورت میں خلیجی ممالک میں قائم امریکی عسکری اڈے اس کا ہدف ہوں گے۔ اگر امریکہ کے چند سو فوجی بھی اس جنگ میں مارے گئے تو امریکی حکومت کیلئے یہ بہت بڑا سیاسی مسئلہ بن سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے متعدد بار یہ بھی کہا ہے کہ وہ جنگوں کو بڑھانے کے بجائے مختلف حساس مقامات پر جنگ بندی کے حق میں ہیں ‘اس کی ایک مثال روس یوکرین جنگ ہے۔ اگرچہ ایران پہلے کے مقابلے میں کمزور ہے لیکن خلیج سے تیل اور گیس کی برآمد کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آبنائے ہرمز کو بند کر سکتا ہے ‘ ایسی صورت میں دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی اور انٹرنیشنل اکانومی کو شدید جھٹکے لگیں گے۔ عالمی کساد بازاری کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔
امریکہ کی ایران پر جنگ مسلط نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران کے مزید کمزور ہونے سے خطے میں طاقت کا توازن بالکل ہی ڈسٹرب ہو جائے گا۔ عرب خلیجی ممالک امریکی اسلحہ کے اہم خریدار ہیں۔ اگر ایران کی عسکری صلاحیت بہت کمزور ہو جائے تو خطے میں امریکی اسلحہ کی ڈیمانڈ کم ہو جائے گی‘ لہٰذا ایک حد سے زیادہ کمزور ایران امریکہ کو سوٹ نہیں کرتا۔اور اگر ایران خدانخواستہ مزید کمزور ہو تا ہے تو پورے مڈل ایسٹ میں اسرائیل کا مد مقابل کوئی نہیں ہوگا۔ یہ صورتحال خود پاکستان کیلئے تشویش کا سبب بن سکتی ہے۔ اس صورت میں فلسطینی حقوق قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ مزید مستحکم ہو جائے گا۔ امریکہ اپنا سفارتخانہ پہلے ہی تل ابیب سے القدس (یروشلم) شفٹ کر چکا ہے۔ امریکہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو سرکاری طور پر تسلیم کر چکا ہے۔ ہم ایسے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جہاں بھینس اسی کی ہے جس کی لاٹھی ہے اور سپرپاور بھی اس ظالمانہ رویے کی حمایت کر رہی ہے۔
جیسے جیسے ایران پر دبائو بڑھایا جا رہا ہے کہ ایٹمی پروگرام کو ترک کر دو‘ ویسے ویسے وہاں اس پروگرام کو تیز تر کرنے کیلئے عوامی آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے 2015ء میں صدر اوباما کے عہد میں ایرانی ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کیلئے ایک جامع بین الاقوامی معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے پر ایران اور چھ اہم عالمی طاقتوں نے دستخط کئے تھے جن میں یو این سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن اور جرمنی شامل تھے۔ ایران نے اس معاہدے پر اس لیے دستخط کئے کہ شروع سے اس کا مؤقف تھا کہ ہمارا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہے۔ دوسرا ہدف اقتصادی پابندیوں سے رہائی کا تھا جن کی وجہ سے ایرانی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ اس معاہدے پر عمل درآمد 2016ء سے شروع ہوا۔ اسرائیل شروع سے ہی اس معاہدے کا سب سے بڑا ناقد تھا۔ بڑی وجہ ایک کلاز تھی جس کے مطابق ایران نے یورینیم کی افزودگی کو 3.67فیصد تک محدود رکھنے کا پندرہ سالہ وعدہ کیا تھا جبکہ اسرائیل کی یہ دلی خواہش ہے کہ ایران تا قیامت ایٹمی قوت نہ بن پائے۔2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو اسرائیل نے ایران ایٹمی معاہدے کی منسوخی کیلئے پریشر بڑھانا شروع کر دیا۔ یہ کام کوئی زیادہ مشکل بھی نہ تھا۔ ایرانی ایٹمی پروگرام کے بارے میں ٹرمپ کی سوچ صدر اوباما سے بالکل مختلف تھی۔ صدر ٹرمپ کے الفاظ تھے ”یہ ایک یکطرفہ ڈیل ہے جو کبھی نہیں کرنی چاہئے تھی‘ اس کی وجہ سے نہ امن آیا اور نہ کبھی آ سکتا ہے‘‘۔2018ء میں صدر ٹرمپ نے اعلان کر دیا کہ امریکہ ایران ایٹمی معاہدے سے الگ ہو رہا ہے۔ اب اسرائیل کی خوشی قابلِ دید تھی۔چند سال پہلے تک اسرائیل اور ایران ایک دوسرے سے خائف تھے۔ طاقت کا توازن قائم تھا۔ پچھلے سال ایران نے دو مرتبہ اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کئے لیکن اسرائیل کا کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں ہوا۔ دوسری جانب اسرائیل نے ایران دوست حزب اللہ کی قیادت کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے سے بھی ایران کو خاصا بڑا سٹرٹیجک نقصان ہوا ہے۔ پچھلے ہفتے صدر ٹرمپ نے ایران کے روحانی لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو خط لکھا تھا کہ امریکہ ایران کے ساتھ براہ راست بات چیت کیلئے تیار ہے‘ ظاہر ہے کہ مذاکرات ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے اور اس کے عوض اقتصادی پابندیاں اٹھانے کے بارے میں ہوں گے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایران کے عوام کیلئے ایٹمی پروگرام قومی غیرت کی علامت بن چکا ہے اور امریکہ چاہے گا کہ اس مرتبہ ہونے والا معاہدہ 2015ء والے معاہدے سے سخت تر ہو۔ دوسری جانب اسرائیل امریکہ ایران مذاکرات کا سخت مخالف ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران اس وقت کمزور ہے اور اس کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کا یہ اچھا موقع ہے‘ لیکن امریکہ کو مشترکہ حملے کیلئے راضی کرنا بھی آسان نہیں ہوگا۔ ٹرمپ کی سوچ یہ ہے کہ ایران اس وقت کمزور حالت میں ہے اسے ڈرا دھمکا کر سخت شرطیں منوائی جا سکتی ہیں۔ صدر ٹرمپ ایران کا بازو مروڑنے اور اپنی پسند کی ڈیل پر مجبور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اسرائیل جنگ کے ذریعے ایرانی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے پر مُصر ہے۔
امریکہ میں موجود پاور فل اسرائیلی لابی بھی سخت ایران مخالف ہے۔ یہ لوگ کانگریس ‘مالیاتی اداروں اور میڈیا میں بڑا اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کو دل کھول کر چندہ دیتے ہیں اور ہر حکومت ان کی بات غور سے سنتی ہے‘ لیکن صدر ٹرمپ اسرائیلی لابی سے زیادہ مرعوب نظر آتے ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی جنگ کرنے والی بات نہ مانیں کیونکہ قرائن بتا رہے ہیں کہ امریکہ ایران مذاکرات جلد ہی سلطنت عمان کے توسط سے شروع ہونے والے ہیں لیکن ایک صورتحال یہ بھی ہے کہ اسرائیل اگر امریکہ کی شراکت کے بغیر ایران پر حملہ کرتا ہے تو کیا اسرائیلی لابی امریکہ پر جنگ میں شامل ہونے کیلئے پریشر نہیں ڈالے گی؟ خدا کرے کہ صدر ٹرمپ اسرائیلی کو انکار کرکے ڈٹے رہیں‘ اس لیے کہ یہ جنگ بہت تباہی لے کر آئے گی اور اس جنگ کے جھٹکے پاکستان میں بھی محسوس ہوں گے۔ ایران ہم سے سیاسی سپورٹ کی توقع کرے گا۔ عالم اسلام پہلے ہی غزہ کی صورتحال سے نڈھال ہے‘ ایران جیسے اہم اسلامی ملک کے خلاف امریکی جنگ مسلم دنیا کیلئے بہت بڑی ٹریجڈی ہو گی جس کا مداوا کرنے میں لمبا وقت لگے گا۔