انٹرٹینمنٹکالم

غزہ قتل عام، علماء کا فتویٰ اورفوادچودھری

(عابد محمود عزام)

غزہ کے مظلوم عوام آج جن حالات سے گزر رہے ہیں، وہ کسی بھی باشعور اور باکردار انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں۔ ایک طرف مظلوم لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائے انسانیت کا نوحہ پڑھ رہے اور انسانیت کو پکار رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاں کچھ ایسے “سیاسی نمونے” بھی موجود ہیں، جو مظلوموں کے حق میں بولنے والوں کا مذاق اڑا کر اپنے ذہنی افلاس اور اخلاقی زوال کا اعلان کر رہے ہیں۔
سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا حالیہ بیان، جس میں انہوں نے ازر۔ ایل کے خلاف جہا۔ د کی بات کرنے والے علمائے کرام پر طنز کرتے ہوئے انہیں “سرکس کے بزرگ” قرار دیا، یہ نہ صرف سطحی اور بیمار سوچ کا اظہار، بلکہ ملتِ اسلامیہ کے جذبات کی توہین اور بدذوقی کی انتہا ہے۔
فواد چوہدری نے طعنہ دیا ہے کہ “لڑنے کے لیے خود کیوں نہیں چلے جاتے؟” پہلی بات تو یہ ہے کہ خود جا کر لڑنا علما کا کام نہیں، نہ ان کے پاس اسلحہ ہے نہ فوج، نہ ریاستی اختیار۔ نظمِ اجتماعی میں یہ کام ریاستوں کا ہے اور یہی بات علما بار بار دہراتے ہیں۔ جہا۔ د کا اعلان اور اس پر عمل اسلامی ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔ یہی بات علما نے کی ہے۔
انہوں نے مسلم ریاستوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا فریضہ ادا کریں۔ اب اگر فواد چوہدری کے خیال میں نجی جہا۔ د شروع ہونا چاہیے اور وہ علمائے کرام کو بھیجنے اور ان کے اخراجات اٹھانے کو تیار ہیں تو کھل کر سامنے آئیں اور اعلان کریں کہ ہم نجی جہا۔ د چاہتے ہیں، لیکن موصوف میں اتنی ہمت نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جہاں بھی ظلم ہوا، علماء سب سے پہلے میدان میں اترے۔ تحریکِ آزادی ہند ہو یا قیامِ پاکستان، انگریزوں کی غلامی کے خلاف فتویٰ ہو یا تحریکِ ریشمی رومال، علماء نے ہر جگہ باطل کے خلاف سب سے پہلے صف بندی کی۔ جب انگریز بنگال سے پنجاب تک گماشتوں کو جاگیریں بانٹ رہا تھا تو یہی علمائے حق تھے جنہوں نے جانوں کے نذرانے دے کر مزاحمت کی۔ ان کے سامنے اقتدار نہ تھا، مفاد نہ تھا، صرف دین تھا، ملت کا درد تھا اور غیرتِ ایمانی تھی۔
یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ علماء کا فرض رہنمائی فراہم کرنا ہے اور یہی انہوں نے کیا۔ علمائے کرام کا یہ فتویٰ دراصل امت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش ہے۔ جب دنیا کے بیشتر حکمران ازر۔ ایل کے خلاف بولنے سے گریزاں ہیں، یہی علماء ہیں جو بے خوف و خطر قبلہ اول کے تحفظ کی آواز بلند کر رہے ہیں۔
یہی کردار فواد چوہدری جیسے لوگوں کو کھٹکتا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ علماء کا اثر آج بھی موجود ہے اور وہ رائے عامہ کو بیدار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ فواد چوہدری کا اپنا کردار کیا ہے؟ کیا ان کے پاس کوئی ایسی قربانی ہے جسے وہ قوم کے سامنے فخر سے پیش کر سکیں؟ کتنے شہداء کے لواحقین کی مدد کی؟ کتنے ہسپتال یا تعلیمی ادارے بنائے؟ اپنے ذاتی مال سے کتنے غریبوں کی خدمت کی؟ وہ تو ہمیشہ اقتدار کے ہر دسترخوان پر براجمان رہے۔ مفادات کی خاطر کبھی ایک پارٹی تو کبھی دوسری پارٹی۔ جیل کی چند دن کی ہوا کیا لگی، پارٹی ہی چھوڑ دی۔ ملک کی دولت کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کیا۔ امریکا اور ازر۔ اییل کے قصیدے پڑھ کر اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وہ اس
زر۔ ایل کو اپنا سرپرست مانتے ہیں، شاید اسی لیے اس کے خلاف جہاد کے فتویٰ سے انہیں تکلیف ہوئی ہے، کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اگر امت بیدار ہو گئی تو ان جیسے مفاد پرستوں کے لیے زمین تنگ ہو جائے گی۔
فواد چوہدری جیسے لوگ اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کا مذاق نہ اُڑائیں جو کچھ کر رہے ہیں، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ خاموش رہنے والوں کو نہیں، بولنے والوں کو یاد رکھا جاتا ہے۔ کل جب تاریخ لکھی جائے گی تو ان علمائے حق کا ذکر فخر سے ہوگا جنہوں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور ان جیسے لوگوں کو اس صف میں رکھا جائے گا جنہوں نے مظلوموں کا مذاق اڑایا اور ظالموں کے قصیدے پڑھے۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button