بیلا روس دورے کے معاشی اثرات
(میاں عمران احمد)
میں نے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ امریکی صدر کی جانب سے ٹیرف کا اعلان جلد بازی میں اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے کیا گیا ہے۔ اب امریکی صدر کی جانب سے ٹیرف کے فیصلے کو معطل کرنے نے اس دعوے کو تصدیق ہوتی ہے۔ تقریباً 100 کے قریب ممالک سے غیر منصفانہ ٹیرف کافیصلہ 90 دن کے لیے مؤخر کر دیا گیا ہے۔ چونکہ یہ فیصلہ معطل نہیں بلکہ مؤخر ہوا ہے اس لیے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے۔ اس لیے ان فیصلوں نے سرمایہ کاروں کو مستقبل کے حوالے سے پریشان کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں سونے میں سرمایہ کاری سب سے زیادہ محفوظ سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی منڈیوں اور پاکستان میں بھی سونے کی قیمت میں تیزی سے اتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں بھی کالے دھن کو محفوظ رکھنے کے لیے سونے پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ وائٹ منی کو بھی گولڈ میں انویسٹ کرنے کا رجحان بڑھنے لگا ہے۔ توقع یہ کی جا رہی ہے کہ جب تک ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہیں‘ سرمایہ کاروں کی سب سے زیادہ دلچسپی سونے کی تجارت میں ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ میرے تجزیے کی بنا پر گولڈ میں سرمایہ کاری کریں۔ گولڈ میں سرمایہ کاری بہت محتاط رہ کر کی جاتی ہے۔ اس کے لیے تجربے اور مارکیٹ اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے۔ غیر یقینی صورتحال نے پاکستان سے زیادہ امریکہ کو متاثر کیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے یقینی کی کیفیت کے بعد اب امریکہ چین کو بھی ریلیف دینے پر غور کر رہا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ چند روز میں شاید بے معنی ہو جائے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی درآمدات پر اتنے زیادہ ٹیکس لگا دیے ہیں کہ اب ان کے درمیان تجارت‘ جو پہلے ہی بڑی حد تک متاثر ہو چکی ہے‘ شاید نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔ چینی صدر اس وقت دیگر ممالک کے مصروف ترین دوروں پر ہیں۔ شاید نئی تجارتی راہیں تلاش کرنے اور امریکی صدر کی پالیسیوں کے خلاف حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یورپ کے ساتھ گاڑیوں کی برآمد پر ٹیرف کم کرنے پر پیشرفت ہوئی ہے اس کے علاوہ ملائیشیا اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر چینی صدر اپنی مارکیٹ بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ امریکہ چین پر لگائے گئے ٹیرف کو واپس لینے کے بارے میں سوچنے لگا ہے۔ امریکہ نے چین سے موبائل اور کمپیوٹر سامان کی درآمدات پر ٹیرف ختم کر دیا ہے۔ امریکہ جنگی ہتھیار بنانے کے میدان میں بہتر ہو سکتا ہے لیکن کمپیو ٹر کی ہارڈ ڈرائیو اور پروسیسر سمیت کئی اشیا امریکہ میں بنتی ہی نہیں‘ اگر بنتی بھی ہیں تو ان کی لاگت چینی مصنوعات سے کئی گنا زیادہ ہے۔صدر ٹرمپ کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ امریکہ میں مقامی صنعت تیار کرنے کے لیے کئی سال درکار ہو سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس لحاظ سے بہتر صدر ہیں کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس جلد ہو جاتا ہے اور وہ اسے تسلیم کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اسے یوٹرن کہتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے خطے میں سکھایا جاتا ہے کہ فیصلہ لینے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں اور جب فیصلہ لے لیں تو اس پر کھڑے ہو جائیں کیونکہ انسان اپنے فیصلوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے خطے کی روایتوں کے مطابق صدر ٹرمپ سمجھدار اور وضعدار انسان نہیں ہیں۔ ہمارا یہ مؤقف اب امریکہ میں بھی ایکسپورٹ ہو چکا ہے۔ امریکہ چین ٹیرف جنگ کی وجہ سے چین میں پروڈکشن کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی ڈیمانڈ کم ہو رہی ہے۔ نتیجتاً پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید کم ہوئی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 15 سے 20 روپے فی لیٹر تک مزید کمی کا مارجن پیدا ہو گیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت سیاست مہنگی بجلی پر ہو رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے زیادہ تشویش نہیں ہے کیونکہ عوام نے خود کو پٹرول کی قیمت کے ساتھ ایڈجسٹ کر لیا ہے اور پاکستان میں پٹرول کی قیمت ہمسایہ ممالک کی نسبت کم ہے لیکن بجلی کی قیمت پوری دنیا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ حکومت ایک مرتبہ پھر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کو ترجیح دے سکتی ہے۔ اگر دس روپے پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا ریلیف 1.71 روپے ہے تو 15 سے 20 روپے کا ریلیف تقریباً تین روپے بنتا ہے۔ پٹرول کی قیمت 15 سے 20 روپے کم کرنے کے بجائے بجلی کی قیمت تقریباً تین روپے مزید کم ہو سکتی ہے جس سے عوام کو معاشی اور سرکار کو سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے۔
حکومت نے نیو کلیئر پاور پلانٹس اور سی پیک پلانٹس کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی ہے۔ قرض کے حصے کی ری شیڈولنگ کی گئی ہے‘ یعنی جو قرضے دس سال میں ادا کرنے تھے وہ اب پندرہ سال میں ادا ہوں گے جس سے مزید گنجائش مل سکتی ہے اور بجلی مزید سستی ہو سکتی ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں بجلی کی قیمت تقریباً سات سینٹ ہے، پاکستان میں یہ 18 سینٹس سے کم ہو کر 11 سینٹ تک آ گئی ہے۔ اگر سات سینٹ تک ریٹ آ جائے تو یہ آئیڈیل ہو سکتا ہے۔ اس سے ایکسپورٹ سیکٹر میں بہتری آ سکتی ہے۔ ملکی برآمدات میں بہتری کے لیے صرف بجلی کی قیمتیں دیگر ممالک کے برابر کر دی جائیں تو یہ سب سے بڑا ریلیف ہو سکتا ہے۔ ایکسپورٹرز کے لیے اس کے علاوہ تمام ریلیف ختم کر دینے چاہئیں۔
پاکستان میں ایکسپورٹس کے نام پر مراعات دینے کا سلسلہ بند کرنے کی ضرورت ہے۔ ایکسپورٹر بھی وزیراعظم کے سامنے کوئی سفارش اور درخواست لے جانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انہوں نے مقامی سطح پر تیار کردہ خام مال کی خریداری پر 18 فیصد سیلز ٹیکس ختم کرنے کی درخواست ڈال رکھی تھی جسے وزیراعظم نے منظور نہیں کیا۔ مقامی خام مال کی خریداری پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کے بجائے کچھ درآمدات پر سیلز ٹیکس عائد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدکنندگان اور مقامی مینوفیکچررز کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ اگر دھاگا امپورٹ کرنے پر کوئی ٹیکس نہ ہو اور مقامی سطح پر تیار کردہ دھاگے پر 18 فیصد ٹیکس لگا دیا جائے تو کون فیکٹریاں لگائے گا؟
وزیراعظم ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے کوششیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں بیلا روس کا دورہ بھی کیا گیا۔ امریکہ کی جانب سے ٹیرف کے نفاذ کے اعلان کے بعد پاکستان کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ نئی منڈیاں تلاش کرے۔ دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارتی حجم تقریباً 50 سے 60 ملین ڈالرز ہے۔ پاکستان بیلا روس کو سرجیکل سامان‘ چمڑا‘ اناج‘ پھل‘ جوتے اور فوٹو گرافی کے سامان سمیت بیسیوں اشیا برآمد کرتا ہے۔ پچھلے چھ سالوں میں بیلاروس کی برآمدات تقریباً 16 فیصد کم ہوئی ہیں لیکن یہ اب بھی پاکستانی برآمدات سے زیادہ ہیں۔ بیلا روس کی مارکیٹ میں پاکستانی گوشت اور سرجیکل سامان کی برآمدات بڑھانے کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کو سب سے زیادہ برآمدات ٹریکٹر اور اس کے سپیئر پارٹس کی ہے۔ وزیراعظم کے حالیہ دورے میں الیکٹرک بسوں اور ٹریکٹروں کی تیاری کی حوالے سے معاہدے کیے گئے۔ بیلا روس کے پاس بندرگاہ نہیں ہے‘ گوادر بندرگاہ سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ نومبر 2024ء میں بیلا روس کے صدر تقریباً 68 نمائندوں کے وفد کے ساتھ پاکستان آئے تھے جن میں اکثریت کاروباری طبقے کی تھی۔ 2025-27ء کے لیے روڈ میپ پر پہلے ہی اتفاق ہو چکا ہے۔ صرف پانچ ماہ بعد پاکستانی وزیراعظم کا دورہ دونوں ملکوں میں بہتر تعلقات کی نوید ہے۔ واضح رہے کہ نومبر میں شاہراہ قراقرم طرز کی سڑک بنانے پر بھی مذاکرات کیے گئے تھے۔ مستقبل قریب میں پاکستان اور بیلاروس میں بڑے تجارتی معاہدے سامنے آنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔