
(خصوصی تحریر:عبدالجبار سلفی)
جناب فواد چوہدری کی ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے جس پہ نہایت غیرسنجیدہ اور تمسخر آمیز تحریر درج ہے:
“آج جن مولوی صاحبان نے اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ہے وہ انتہائی صائب اور وقت کی ضرورت ہے، اس اعلیٰ و ارفع مقصد کیلئے میں نے قصد کیا ہے کہ سو بڑے مولوی صاحبان اور پاکستان کے بڑے علماء کو غزہ پہنچانے کے اخرجات میں اپنی جیب سے ادا کروں گا، امید ہے اس شاندار آفر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آج تقریریں کرنیوالے بزرگ کل ہی اپنے پاسپورٹ دیں اور عازم سفر ہوں گے! ان شاءاللہ”.
یہ زمانہ اپنے ساتھ عجیب و غریب خدوخال لے کر آیا ہے۔ ایک طرف امتِ مسلمہ کے زخموں سے خون رِس رہا ہے، اور دوسری جانب کچھ اہلِ زبان ایسے بھی ہیں جن کے الفاظ، مرہم کے بجائے نمک چھڑکنے کا کام دیتے ہیں۔فواد چوہدری صاحب کا حالیہ بیان، جسے وہ شاید بَذْلَہ سَنْجِی سمجھ بیٹھے ہیں، دراصل ایک گہری فکری پستی، دینی بیزاری اور ملی حمیت سے عاری ذہن کی ترجمانی ہے۔جب بیت المقدس کی فضاؤں میں چیخیں گونج رہی ہوں، جب غزہ کی گلیاں معصوم لاشوں سے اَٹی ہوں، جب مائیں اپنے بچوں کے لاشے اٹھائے صبر کا مجسمہ بنی ہوں، اُس وقت اگر کوئی مردِ مومن اپنی منبر سے آوازِ حق بلند کرے، جہاد کا اعلان کرے، اور اہلِ اسلام کو غیرت دلاتا نظر آئے، تو یہ اس کی ایمانی حمیت اور اسلامی اخلاص کا مظہر ہے۔ لیکن یہی عمل، فواد صاحب جیسے “روشن خیال” اذہان کو گراں گزرتا ہے، اور وہ طعن و تمسخر کے تیر برسانے لگتے ہیں۔
فواد صاحب! دین مذاق کا سامان نہیں، اور نہ ہی علماءِ ربانیہ وہ مخلوق ہیں جنہیں سیاسی اسٹیج کا “کامیڈی سکرپٹ٫ سمجھا جائے۔ یہ وہ مقدس لوگ ہیں جنہوں نے شب و روز قرآن و سنت کی تعلیمات کو سینے سے لگایا، امت کی فکری رہنمائی کی، اور ہر دور میں باطل کو للکارا۔ وہ جب جہاد کا اعلان کرتے ہیں تو یہ کوئی سستی شہرت کی خواہش نہیں ہوتی بلکہ دل کی گہرائی سے اُٹھنے والی وہ صدا ہوتی ہے جو تاریخ کے دھارے بدل دیا کرتی ہے۔ آپ نے طنز فرمایا کہ “اخراجات میں اپنی جیب سے ادا کروں گا۔” سبحان اللہ! کیا ستم ظریفی ہے کہ جو قوم آپ کی “سیاسی جیب خرچیوں” کا بوجھ برسوں سے اٹھا رہی ہے، آج آپ اُسی قوم کے فقیہان پر خرچ کرنے کا احسان جتانے لگے! جن علما کے کپڑوں میں سادگی، زبان میں درد، اور دل میں امت کی خیر خواہی ہو، وہ کسی دولت کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ اپنے اخلاص کے زادِ راہ سے غزہ تک بھی جا سکتے ہیں اور بیت المقدس کی فصیلوں پر اذانِ حق بھی بلند کر سکتے ہیں۔
فواد صاحب! آپ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آپ دین کو ایک تماشا سمجھ بیٹھے ہیں۔ “پاسپورٹ دیں اور کل روانہ ہوں”کہنا نہایت سوقیانہ طرزِ تخاطب ہے۔ کیا جہاد کے لیے ایمانی جذبے سے زیادہ سفری دستاویزات اہم ہیں؟ کیا فلسطین کی خاک پر صرف ویزا لگا کر قدم رکھا جا سکتا ہے یا دل کی صداقت اور آہِ سحرگاہی سے وہاں کی مٹی کو بوسہ دیا جا سکتا ہے؟ یہ طنز نہیں، یہ عیاں کرتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں مذہب، فقط تقریری زینت ہے اور علمائے دین، فقط ایک فقرہ بازی کا عنوان۔ آپ شاید بھول گئے کہ یہی بزرگ تاریخ میں وہ مینارِ نور ہیں جن کی راہنمائی میں قومیں سنورتی ہیں، جن کی دعاؤں سے بارانِ رحمت برستی ہے، اور جن کے سجدوں سے زمین کا غرور جھک جایا کرتا ہے۔ ہم اہلِ علم، اہلِ درد، اہلِ غیرت، یہ اعلان کرتے ہیں کہ:
ہم غزہ کی حمایت صرف زبان سے نہیں، دل و جان سے کرتے ہیں۔ ہم جہاد کو صرف تقریر نہیں، ایمان کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ ہم علما کی توہین کو صرف اختلاف نہیں، دین دشمنی گردانتے ہیں۔
فواد صاحب! آپ کا قلم اگر تمسخر اگلتا ہے تو ہمارا قلم تلوارِ یقین ہے۔ آپ کا جملہ اگر طنز کا نیزہ ہے تو ہمارا حرف دلیلِ ایمان ہے۔ وقت گزر جائے گا، لیکن آپ کے یہ جملے، تاریخ کے صفحات پر سیاہی کے دھبے بنے رہیں گے، اور علمائے حق کی یہ صدا، شہیدوں کی مٹی سے خوشبو بن کر اٹھتی رہے گی۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتا۔بَلْ أَحْیاَءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْن