قومی فلسطین کانفرنس کا اعلامیہ

(خورشید ندیم)
فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کے علما اور مذہبی تنظیموں کا مؤقف ایک کانفرنس کے اعلامیے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کانفرنس کا اہتمام ‘مجلس اتحادِ امت‘ نے کیا تھا۔
یہ ایک اہم دستاویز ہے۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت احتیاط کے ساتھ لکھی گئی تحریر ہے۔ کانفرنس میں تقریروں کے لہجے اور مقررین کے شعلہ بیانی کے علی الرغم اس اعلامیہ میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ کوئی غیرمحتاط اور غیرعملی بات اس دستاویز کا حصہ نہ بنے۔ اس اعلامیے کی سطور اور بین السطور میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں ایک طرف حالاتِ حاضرہ کا تجزیہ کیا گیا ہے اور دوسری طرف یہ بتایا گیا کہ درپیشِ مسئلے کے باب میں دینی حوالے سے حکمرانوں‘ علما اور مسلم عوام کی ذمہ داری کیا ہے۔
یہ اعلامیہ علما کی طرف سے انذار ہے۔ انہوں نے سماج کے مختلف طبقات کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا ہے۔ مسلم حکومتوں کے بارے میں ان علما اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کا مؤقف یہ ہے کہ ”ایسی صورتحال میں شرعاً ‘الاقرب فالاقرب‘ کے اصول پر تمام مسلم حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی نصرت امتِ مسلمہ پر واجب ہو چکی ہے … مسلم حکمران اور پوری امت اس کے لیے عند اللہ جوابدہ ہو گی اور اللہ کریم کے ہاں اس حوالے سے کوئی عذر قابلِ قبول نہیں ہو گا‘‘۔
اگر مسلم حکمران اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوں تو پھر کیا کیا جائے؟ کیا انہیں بزور ہٹا دیا جائے؟ یہ اعلامیہ اس کا جواب بھی دیتا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے: ”یہ واضح رہے کہ اہلِ فلسطین کی مدد کے نام پر مسلم ممالک میں اصلاح احوال اور تبدیلی کے لیے حکومتوں کے خلاف مسلح جد وجہد فساد فی الارض اورغیرشرعی‘ غیرآئینی اور غیرقانونی فعل ہے اور بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی کارروائیوں کا نتیجہ ہمیشہ امت میں تفریق اور زوال کا باعث بنا ہے‘‘۔
ایک مسئلہ اور بھی ہے اور یہ بین الاقوامی معاہدات ہیں۔ اگر مسلمانوں کی مملکت کا کسی دوسری ریاست کے ساتھ معاہدہ ہے تو اس کی موجودگی میں جنگ نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت تمام مسلم ممالک ایسے معاہدوں میں بندھے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیا کِیا جائے؟ یہ اعلامیہ اس کے جواب میں یہ کہتا ہے کہ اسرائیل اور اس کے پشتیبان ممالک فلسطین کے معاملے میں بارہا اقوامِ متحدہ کے فیصلوں اور احکام کو ماننے سے بالفعل انکار کر چکے ہیں‘ یوں ان کی طرف سے معاہدوں کی خلاف ورزی ہو چکی۔ اس خلاف ورزی کے بعد مسلمان کسی معاہدے کے پابند نہیں رہے‘ اس لیے اعلانِ جہاد کر سکتے ہیں۔
مسلمانوں پر جس جہاد کی فرضیت کا فتویٰ دیا گیا ہے اس کے لیے ‘الاقرب فالاقرب‘ کی شرط بیان کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو فلسطین سے جتنا زیادہ قریب ہے اس پر اس جہاد کی فرضیت اتنی ہی زیادہ ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ جہاد سب سے پہلے اور سب سے زیادہ عربوں پر فرض ہے۔ پاکستان چونکہ دور ہے‘ اس لیے اس کے لیے فرضیت بھی نسبتاً کم ہے۔ اس جہاد کی نوعیت کیا ہو گی؟ کیا اس سے مراد قتال ہے؟ یہ اعلامیہ اس سوال کے جواب میں بھی خاموش نہیں ہے۔ یہ اعلامیہ جہاد کے لیے مسلم حکومتوں اور عوام کے لیے چند اقدامات تجویز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جن مسلم ممالک کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات ہیں‘ وہ غیرمشروط جنگ بندی تک اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کریں۔ یہاں مستقل تعلقات ختم کرنے کی بات نہیں ہو رہی۔ اسی طرح یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ جو عالمی ادارے اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے‘ مسلم ممالک عارضی طر پر ان کی رکنیت سے دستبردار ہو جائیں۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس فوری طور پرطلب کیا جائے۔ پاکستان چونکہ ان دنوں اس کا عارضی رکن ہے‘ اس لیے یہ مطالبہ پاکستان کی طرف سے ہونا چاہیے۔ او آئی سی کے لیے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی امداد کے لیے فنڈ قائم کرے۔
علما کے نزدیک امتِ مسلمہ کی ترجمانی اصولاً مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ جب تک وہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوتے‘ امتِ مسلمہ یعنی مسلم عوام فلسطینیوں کی مالی مدد کریں۔ اپنی پیشہ ورانہ خدمات پیش کریں۔ جو تجارتی ادارے اسرائیل کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں‘ ان کی مصنوعات کا پُرامن بائیکاٹ کریں۔ جو کاروباری ادارے اپنے سٹور وغیرہ سے ان کی مصنوعات کو نہ ہٹائیں‘ ان کے مالکان کا بھی پُرامن طریقے سے بائیکاٹ کیا جائے۔ اعلامیے کے آخر میں اس مؤقف کو دہرایا گیا ہے کہ اسرائیل سمیت یہ تمام علاقہ فلسطینیوں کا وطن ہے اور اس پر ان ہی کا حق ہے۔
یہ اعلامیہ بڑا واضح ہے۔ اس میں مسلم حکومتوں کو کسی ایسی مشقت میں ڈالا گیا ہے نہ مسلم عوام کو جسے اٹھانے کی ان میں سکت نہ ہو۔ پاکستان کے لیے کوئی مشکل نہیں‘ اگر وہ سلامتی کونسل کا اجلا س بلانے کی درخواست کر دے۔ ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے۔ او آئی سی فنڈ بھی قائم کر سکتی ہے۔ اس اعلامیے میں جہاد کی بات کی گئی‘ قتال کی نہیں۔ اس لیے مسلم حکمرانوں سے قتال کے لیے نہیں کہا گیا۔ یہ مجوزہ جہاد بھی سفارتی ہے جس کی نوعیت تجاویز کی صورت میں واضح کر دی گئی ہے۔ گویا اس وقت مسلم حکومتوں کو یہی جہاد کرنا ہے۔ ‘الاقرب فالاقرب‘ کے اصول پر تو پاکستان اور افغانستان کی باری آخر میں آتی ہے۔ اعلامیے میں غیر ریاستی جہاد کی تائید بھی شامل نہیں ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رکنیت سے دستبردار ہونا البتہ مشکل ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ اعلامیہ اس کا براہِ راست مطالبہ نہیں کر رہا۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ اگر پاکستان سلامتی کونسل کا رکن نہیں رہے گا تو اجلاس بلانے کا جہاد کیسے کر سکتا ہے؟ اسی طرح ترکیہ جیسے مسلمان ممالک سے یہ نہیں کہا جا رہا کہ وہ اسرائیل سے مستقلاً سفارتی تعلقات ختم کر یں بلکہ یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جنگ بندی تک معطل کر دیں۔ یہ بھی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ اس اعلامیے میں کہیں حماس کا ذکر ہے اور نہ اس کی حکمتِ عملی کی تائید کی گئی ہے۔
یہ اعلامیہ موجودہ حالات میں متوازن اور حقیقت پسندانہ ہے۔ اس میں فلسطینیوں کے درد کو محسوس کیا جا رہا ہے لیکن اس بات کا ادراک بھی ہے کہ مسلم دنیا وسائل کے اعتبار سے کہاں کھڑی ہے اور قتال جیسی سرگرمی کی کتنی متحمل ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ فتنے کے اس دروازے کو بھی بند کر دیا گیا ہے جو اس مسئلے کی آڑ میں مسلم ممالک کو سیاسی خلفشار اور فساد میں مبتلا کر سکتا ہے۔ جس مؤقف کو مغرب نواز کہہ کر مطعون کیا جا رہا ہے‘ وہ بھی کم و بیش یہی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس اعلامیے کے بعد ساری امتِ مسلمہ جہادی گروہوں کے استثنا کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ ‘یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے‘۔
جذبات حقیقت ہیں اور ان کا اظہار ممنوع نہیں۔ اسرائیل کے مظالم اور اہلِ فلسطین کی مظلومیت سے کس صاحبِ دل کو انکار ہو سکتا ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب اس ظلم کے خاتمے کے لیے ہم کوئی حکمتِ عملی بنانا چاہتے ہیں۔ یہ حکمتِ عملی زمینی حقائق کے تابع ہوتی ہے۔ یہ کبھی محض صبر ہوتی ہے اور کبھی محض سفارتی جہاد‘ جیسے اس اعلامیے میں تجویز کیا گیا ہے۔ جو لوگ زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہوئے اہلِ اسلام کو ایک ایسی آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں جس کا واضح انجام سوختہ سامانی کے سوا کچھ نہیں‘ انہیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ انہیں مسلمانوں کے خیر خواہوں میں شامل کیا جائے یا بدخواہوں میں؟