کالم

کشمیر اور فلسطین کی اُمت

(امیر حمزہ)
اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں ‘ملتِ ابراہیم‘ کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے؛ چنانچہ حضرت ابراہیم اورآپ کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام نے کعبہ کی بنیادوں کو کھڑا کیا اور اللہ کے حضور دعا کی کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے ایسی امت بنا جو آپ کی فرمانبردار ہو‘‘( البقرہ: 128)۔ دونوں باپ بیٹے کی اگلی دعا اگلی ہی آیت میں بیان ہوئی جو ایک رسول مانگنے کی دعا ہے۔ یہ رسول آخری رسول حضرت محمد کریم ختم المرسلینﷺ ہیں۔ اس کے بعد آخری امت کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے واضح پیغام دے دیا کہ ”یہ تمہاری امت ایک ہی ہے‘‘ (الانبیاء:92)۔ جس امت کا حصہ سنی ہیں اسی امت کا حصہ شیعہ ہیں اور ان دونوں سے متعلق تمام مسالک بھی اسی امت کا حصہ ہیں لہٰذا اُمت ایک ہی امت ہے اور اس کا نام اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اُمتِ مسلمہ رکھا ہے۔ امت کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جس طرح ماں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان فرق نہیں کرتی اسی طرح امت کے ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ امت کے ہر حصے کے ساتھ یکساں محبت کریں اور ان کی حفاظت کا بندوبست بھی برابری کی سطح پر کریں۔
عربی زبان میں امت کا یہ مطلب بھی ہے کہ یہ انسانوں کی ایک ایسی جماعت‘ جو تمام انسانوں کو متعین سمت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ یعنی امت مسلمہ کے ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ تمام غیر مسلم انسانیت کو امن اور عدل کی طرف لے کر جائیں۔ ظلم کے سارے راستوں کو بند کرنے کا بندوبست کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اپنے فرائض میں کوتاہی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔عربی زبان میں اس کا ایک اور بھی مفہوم ہے کہ امت ایسے لوگوں کا مجموعہ ہے جو ایک پیغام کو اٹھائے ہوئے ہوں اور اس پیغام کو باقی انسانوں تک پہنچانے کا بندوبست کر رہے ہوں۔ یاد رہے اسی کا نام لیڈر شپ ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کو ایک امت قرار دیا ہے۔ اب چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اہلِ اسلام کا باپ کہا ہے؛ چنانچہ لیڈر وہ ہے جو امت کو اس انداز سے لیڈ کرے جیسے باپ اپنی اولاد کی رہنمائی کیلئے دن رات ایک کر دیتا ہے۔ ایسی لیڈر شپ مل جائے تو اس کی قیادت میں خوش نصیب امت قرآن کے الفاظ میں ” امتِ خیر ‘‘اور ”امتِ وسط‘‘ بن جاتی ہے۔بھلائی کی حامل عظیم الشان امت بن جاتی ہے۔
9اپریل 2025ء کو میرپور‘ آزاد کشمیر میں ملی یکجہتی کونسل کا اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس حضرت میاں میر رحمۃ اللہ کے روحانی وارث حضرت پیر سید ہارون علی گیلانی کی صدارت میں ہوا۔ حضرت پیر صاحب اور راقم ایک دن قبل ہی میر پور میں موجود تھے۔ جموں و آزاد کشمیر کے صدر جناب بیرسٹر سلطان محمود چودھری سے ہمارے میزبان جناب افضل جٹ صاحب نے ملاقات کا وقت لے رکھا تھا؛ چنانچہ ہمارا وفد جس میں سید عبدالوحید شاہ صاحب بھی موجود تھے‘نے جہاں کشمیر اور فلسطین پر امت کے ذمہ داران کی ذمہ داریوں پر گفتگو کی‘ وہیں صدر محترم کی عیادت بھی کی اور نیک تمنائوں کے اظہار کے ساتھ گلدستہ بھی پیش کیا جبکہ رات کو چودھری نثار اور چودھری فاروق صاحب کے آستانے پر کشمیر اور فلسطین کے موضوع پر خطابات کئے۔ اگلے دن ملی یکجہتی کونسل کا بھرپور اجلاس ہوا جس میں جموں و کشمیر کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے ممتاز رہنمائوں نے شرکت کی۔ ملی یکجہتی کونسل کا مذکورہ اجلاس میرپور میں اس لیے رکھا گیا کیونکہ آزاد جموں و کشمیر کے علاوہ گلگت ‘ بلتستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام میں اس بات پر زبردست تشویش پائی جا تی ہے کہ بھارت کی لوک سبھا میں وقف املاک کے بارے میں ایک بل پاس کیاگیا ہے جسے وقف ترمیمی بل 2025ء کا نام دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت میں سب سے زیادہ وقف املاک مسلمانوں کی ہیں۔ اس بل کے تحت حیلوں بہانوں سے نریندر مودی کی حکومت مسلمانوں کی املاک کو چھیننا چاہتی ہے۔ بھارت بھر میں مسیحی اور سکھ برادری بھی اس بل کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہو گئی ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کی دشمن بی جے پی سرکارکی معاندانہ کارروائیوں پر گہری نگاہ رکھنے والے دانشور جناب افتخار صاحب نے بتایا کہ بی جے پی کی مدر پارٹی آر ایس ایس کے تربیت یافتہ جنگجو جو فسادات میں اقلیتوں پر حملے کرتے ہیں‘ ان کی تعداد 2014ء میں 90 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔یہ تعداد 2025ء میں ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے؛ چنانچہ حالیہ بل پیش کئے جانے کے موقع پر بی جے پی رہنما پر یم شکلا نے کہا ہے کہ دنیا کے دو سو ملکوں میں سے پچاس ممالک کا جس قدر رقبہ ہے اس سے زیادہ زمین پر وقف بورڈ کا قبضہ ہے۔ پریم شکلا نے اس وقف جائیداد کو ” جہاد لینڈ‘‘ کا نام دیا اور واضح کیا کہ مذکورہ بل اس جہاد لینڈ کو روکنے میں مددگار ہوگا۔ بی جے پی کے دیگر رہنما بھی اپنے مذموم ارادوں کو ظاہر کر رہے ہیں۔ تشویش اور خدشہ یہ ہے کہ انہوں نے 30 ہزار مساجد کی بات کرنا شروع کردی ہے کہ ان مسجدوں کی املاک کا جائزہ لیا جائے۔وقت آ گیا ہے کہ حکومت پاکستان انڈین حکومت کے ساتھ اس ایگریمنٹ کے تحت مذاکرات کرے جو آٹھ اپریل 1950ء کو وزیراعظم پاکستان جناب لیاقت علی خان شہید اور وزیراعظم جواہر لال نہرو کے درمیان طے پایا تھا۔ معاہدہ یہ تھا کہ دونوں ملک اپنے ہاں کی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے‘ جس ملک میں ان حقوق کو پامال کیا جائے گا دوسرا ملک اس پر آواز اٹھائے گا۔ اس معاہدے کو ‘دہلی پیکٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی‘ بابری مسجد اور اس کے بعد درجنوں مساجد شہید کر دیں‘ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت کے خلاف وہ تمام ثبوت اکٹھے کرکے عالمی عدالت میں جایا جائے اور اسے وہاں سے سزا دلوائی جائے۔ پاکستان کی سیاسی اور دینی جماعتوں کو اپنے ملک میں پُرامن احتجاج کے ذریعے ہندوتوا کی دہشت گردی سے اپنے عوام کو ہی نہیں‘ دنیا بھر کو نام نہاد جمہوریہ کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہندوتوا کا انٹیلی جنس ونگ بدنام زمانہ ‘را‘ کے ساتھ مل کر امریکہ‘ کینیڈا اور برطانیہ میں سکھ کمیونٹی کے لوگوں کو قتل تک کر چکا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ مشق جاری ہے۔ یہ ریاستی دہشت گردی ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اس پر آواز اٹھانی چاہیے۔
اللہ کے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کے مبارک زمانے میں مکہ کے مشرکین اور خیبر کے یہود اکٹھے مل کر ریاست مدینہ کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ یہ سلسلہ تاریخ کے تسلسل کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ آج یہ مذموم سلسلہ پاکستان کے خلاف جاری ہے۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں اس کے پیچھے یہی ہندو اور یہود لابی دکھائی دیتی ہے۔ غزہ میں جو ظلم ہو رہا ہے‘ یہود کے اس ظلم میں ہندوتوا کے جنگجو شریک ہیں۔ جو مارے گئے ہیں ان کی لاشیں بھارت میں لائی گئی ہیں۔ ریاست مدینہ کا جب دس ہزار کے لشکر کے ساتھ گھیرائو کیا گیا تھا تو حیی بن اخطب یہودی سردار خیبر سے مکہ گیا تھا اور وہاں ابو سفیان سے مل کر مدینے کی ریاست کو ختم کرنے کا پلان بنایا تھا۔ مکہ کے بت پرستوں نے یہودی وفد سے کہا: یہ بتائو کہ محمد(ﷺ) کا دین اعلیٰ ہے یا ہمارا؟ اس پر یہود کے علما اور لیڈروں نے کہا کہ تم اعلیٰ ہو۔ اس پر مکہ والوں نے کہا: ہم بہتر ہیں تو تم لوگ اپنے اخلاص کا یقین ہمیں یوں دلائو کہ ہمارے بتوں کو سجدہ کرو۔ تب ان لوگوں نے بتوں کے سامنے سجدہ کیا اور پھر ابو سفیان لشکر لے کر مدینے کے محاصرے کو روانہ ہوا۔ اسلام دشمنی میں آج بھی ان سب کا منہج وہی ہے۔ ہم اہلِ پاکستان کو چاہیے کہ اپنے پاک وطن کے تحفظ کی خاطر ہنود و یہود کی سازشوں کو باہمی اتحاد سے ناکام بنا دیں۔ امتِ مسلمہ کے نظریے کا یہی تقاضا ہے۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button