المیۂ فلسطین اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں
(مفتی منیب الرحمٰن)
سات اکتوبر 2023ء سے تقریبا ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے‘ امریکہ اور اہلِ مغرب کی مکمل اشیرباد‘ تائید وحمایت اور مادّی وعسکری امداد کے ساتھ اسرائیل غزہ کے فلسطینیوں پر اس صدی کے سب سے ہیبت ناک‘ المناک اور اذیتناک مظالم ڈھا رہا ہے۔ تقریباً پچپن ہزار مرد‘ خواتین‘ بچے اور بوڑھے جامِ شہادت نوش فرما چکے ہیں‘ دو لاکھ کے لگ بھگ شدید زخمی ہیں‘ ان کا شہری ڈھانچہ کارپیٹ بمباری کے ذریعے زمین بوس کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال‘ تعلیمی ادارے اور خیمہ بستیاں بھی محفوظ نہیں رہیں‘ حربی امداد تو دور کی بات ہے‘ خوراک اور طبی امداد کی ترسیل پر بھی پابندی عائد ہے۔ بچے بِلَک بِلَک کر اور تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ اہلِ مغرب کے منافقین جو آج تک دنیا کو حقوقِ انسانی‘ حقوقِ نسواں‘ حقوقِ اطفال‘ حقوقِ حیوانات‘ جنگلی حیات اور ماحولیاتی تطہیر کے درس دیتے رہے ہیں‘ یہ سب مظالم ان کی نظروں کے سامنے ہیں‘ لیکن اہلِ غزہ ان تمام حقوق سے محروم ہیں۔
اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے یا تو بے بس ہیں یا حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ انسانیت کا عالمی ضمیر مر چکا ہے اور نفرت ودرندگی کا مجسمہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مظلوم فلسطینیوں کو غزہ خالی کرنے کی کبھی دھمکی اور کبھی ترغیب دے رہا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو حالیہ صدیوں میں انسانیت کا سب سے بڑا قصاب بن کر دندنا رہا ہے اور امریکی صدر اسے ان مظالم پر داد وتحسین دے رہا ہے۔ ایسے حالات میں قرآنِ کریم نے امتِ مسلمہ پر بھاری ذمہ داری عائد کی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ”اور ( اے مسلمانو!) آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے‘ حالانکہ کمزور مرد‘ عورتیں اور بچے (پکار پکار کر) کہہ رہے ہیں‘ اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی کارساز بنا دے اور کسی کو اپنے پاس سے ہمارا مددگار بنا دے‘‘ (النسآء: 75)۔ غور کا مقام ہے کہ یہ کارساز اور مددگار کس نے بننا تھا‘ یہ تو اُمّتِ مسلمہ اور ملّتِ اسلامیہ نے بننا تھا۔ کم و بیش ستاون مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر موجود ہیں‘ نیز پونے دو‘ دو ارب مسلمان دنیا میں موجود ہیں‘ لیکن مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی کے لیے لبّیک کہنے والا اور آگے بڑھ کر مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
فلسطین کے اردگرد مسلم اور عرب ممالک ہیں‘ مگر وہ فلسطینیوں کی عملی مدد کے لیے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہیں۔ مسلم ممالک کی تنظیم ”او آئی سی‘‘ یقینا موجود ہے‘ مگر اس کی اعانت کا سارا اثاثہ چند بے جان اور قوتِ ایمانی سے عاری قراردادیں ہیں اور بس۔ احتجاج کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مسلم ممالک اتفاقِ رائے سے ان عالمی تنظیموں کی رکنیت سے باہر نکل آئیں یا ان کا بائیکاٹ کریں اور سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ اپنی تنظیم قائم کریں‘ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو مؤثر بنائیں‘ حادثات وسانحات اور مظالم کے سدباب کے لیے اپنا اجتماعی فنڈ قائم کریں۔ مسلم ممالک اپنے اجتماعی تحقیقی اور ایجاداتی ادارے قائم کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نَم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اسلامی تعلیمات کی رو سے عملی اعانت کی ذمہ داری بالترتیب ”الاقرب فالاقرب‘‘ پر عائد ہوتی ہے‘ لیکن قریب والے ہوں یا دور والے ہوں‘ دینی وملی بے حمیّتی میں سب برابر ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک ننھے سے پھول سے بچے کی تصویر دیکھی‘ اس پر عمارت کا ملبہ گرنے ہی والا تھا کہ ایک کتے نے اسے اپنے منہ میں پکڑا اور ملبے تلے دفن ہونے سے بچا لیا۔ کسی نے اس اندوہناک منظر کو دیکھ کر سوشل میڈیا پر یہ جملہ لکھا: ”اس دور کے مسلمانوں سے تو یہ کتا ہی بہتر ہے‘‘۔ بعض حضرات سوشل میڈیا پر گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے پوسٹیں لگا رہے ہیں‘ ارسال کر رہے ہیں‘ یقینا وہ یہ سمجھتے ہوں گے کہ دوسروں کے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر وہ اپنے فریضے سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں‘ لیکن مظلوموں کو تو عملی مدد کی ضرورت ہے۔ ایک جواں عمر عرب کو سنا: وہ علماء کو منافق گردان رہا تھا۔ اتفاق سے اس نے حکمرانوں کو مخاطب نہیں کیا۔ احادیثِ مبارکہ کی رو سے اہلِ اقتدار اور حکمرانوں کی ذمہ داری عملی اقدامات کرنا ہوتی ہے اور علماء کی ذمہ داری صدائے احتجاج بلند کرنا اور حکمرانوں اور عوام کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا ہے۔ مسلم حکومتوں اور حکمرانوں پر تو ہمارا بس نہیں چلتا‘ پس بہتر ہے کہ ایک دوسرے کو ملامت کرنے کے بجائے عملی اقدامات کریں اور اس کی چند صورتیں درجِ ذیل ہیں:
(1) مالی وسائل جمع کریں اور مظلومین ومتاثرین تک بحفاظت ان کی ترسیل کا انتظام کریں۔ (2) خالص غذائی اجناس اور بچوں کے لیے دودھ اور دیگر سامانِ ضرورت کا اہتمام کریں۔ (3) بچوں اور خواتین سمیت ہر عمر کے لوگوں کے لیے ملبوسات کی ترسیل کا انتظام کریں۔ (4) کاررواں کی شکل میں بڑے کنٹینروں پر موبائل ہسپتال روانہ کریں‘ ان میں میڈیکل وپیرا میڈیکل سٹاف‘ آپریشن تھیٹر‘ ایکسرے وٹیسٹنگ لیبارٹری اور تمام ضروری ادویات شامل ہوں۔ (5) ہمیں کامل امید ہے کہ اگر ڈاکٹروں کو رضاکارانہ بنیاد پر اس مہم میں شرکت کی دعوت دی جائے تو وہ اپنی خدمات فراہم کرنے کو اپنے لیے سعادت سمجھیں گے۔
مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کی جانب سے آج (جمعرات دس اپریل) کو ”پاک چائنا فرینڈشپ سنٹر‘‘ اسلام آباد میں ”فلسطین اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ کے عنوان سے قومی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے‘ اس میں تمام دینی تنظیمات کے قائدین خطاب فرمائیں گے اور اتفاقِ رائے سے کوئی قابلِ عمل لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔ امید ہے کہ اس اجتماع سے کوئی خیر کی صورت برآمد ہو گی۔
رسول اللہﷺ کا فرمان ہے ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘ نہ وہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے مصیبت میں بے یار ومددگار چھوڑتا ہے‘ جو (کسی مشکل میں) اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرے گا‘ (جب وہ مصیبت میں مبتلا ہوگا) تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی سے کسی مصیبت کو دور کرے گا‘ تو (اس کے انعام کے طور پر) اللہ تعالیٰ قیامت کی مصیبتوں میں سے اس کو کسی مصیبت سے نجات عطا فرمائے گا اور جو کسی مسلمان (کے عیوب) کی پردہ پوشی کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس (کے عیوب) کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘ (صحیح مسلم: 6578)۔ (2) ”ایک دوسرے سے محبت کرنے‘ ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آنے میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب (جسم کے) ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘ (صحیح مسلم: 6586)۔ (3) ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی مانند ہے کہ جس کی اینٹیں ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہیں اور آپﷺ نے اپنے (دونوں ہاتھوں کی) انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کرکے اس کی عملی مثال پیش کی‘‘ (بخاری: 2446)۔ (4) ایک وقت آئے گا کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے پوچھا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے‘ لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے‘ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا‘ اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! وہن کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کا ڈر‘‘ (سنن ابی داؤد: 4297)۔