امن کے لیے متحد پاکستان نیوی کی کثیر الملکی مشق اور امن ڈائیلاگ

(فہمیدہ یوسفی)
قرآن مجید میں سمندروں کی عظمت اور ان کی تسخیر کو اللہ کی نعمتوں میں شمار کیا گیا ہے۔ سورة السراء آیت نمبر 66 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
تمہارا رب وہ ہے جو سمندر (اور دریا)میں تمہارے لیے (جہاز اور)کشتیاں رواں فرماتا ہے تاکہ تم (اندرونی و بیرونی تجارت کے ذریعہ)اس کا فضل (یعنی رزق)تلاش کرو، بیشک وہ تم پر بڑا مہربان ہے۔”
جبکہ سورة ابراہیم کی آیت نمبر 32 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ” اللہ وہ ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس سے تمہارے کھانے کو پھل نکالے، اور کشتیاں تمہارے تابع کر دیں تاکہ دریا میں اس کے حکم سے چلتی رہیں، اور نہریں تمہارے تابع کر دیں”۔
سمندری طاقت ہمیشہ تاریخِ انسانی میں ریاستوں کے لیے طاقت، وقار اور قومی سلامتی کی علامت رہی ہے کیونکہ سمندر نہ صرف قدرتی وسائل سے مالامال ہیں بلکہ ان میں بے شمار راز بھی پوشیدہ ہیں۔
اسی لیے سمندری راستوں کی حکمرانی کسی بھی قوم کی اقتصادی اور عسکری استحکام کی بنیاد سمجھی جاتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، بحری افواج کا کردار صرف جنگی کارروائیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ اب سفارتی اور سٹریٹجک مفادات کے حصول میں بھی ایک موثر ہتھیار بن چکی ہیں، جو عالمی سطح پر ریاستوں کی پوزیشن کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
پاکستان بحیرہ عرب کے اسٹریٹجک مقام پر واقع ہے، جہاں سے دنیا کے چند اہم ترین سمندری راستے گزرتے ہیں۔ یہی جغرافیائی حیثیت پاکستان کے بحری استحکام کو محض قومی مفاد تک محدود نہیں رکھتی، بلکہ اسے عالمی تجارتی سکیورٹی کا بھی ایک لازمی حصہ بناتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کے جغرافیے پر نظر ڈالیں، تو یہ وہ ملک ہے جو وسط ایشیائی ریاستوں، افغانستان اور چین کے مغربی علاقوں کے لیے گوادر اور کراچی کے ذریعے مختصر ترین سمندری راہداری فراہم کرتا ہے، یوں یہ خطے میں تجارتی اور اسٹریٹجک روابط کا ایک اہم مرکز ہے۔ اسی تناظر میں، سی پیک منصوبہ براہِ راست پاکستان کی سمندری حدود سے جڑا ہوا ہے، جو مستقبل میں ملک کو خطے کی سمندری معیشت کا مرکز بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔
پاکستان کی سمندری معیشت اور وسائل غیرمعمولی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کے سمندری معیشت سے جڑے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان نیوی کی ذمہ داریاں بھی مزید بڑھ گئی ہیں۔پاکستان نیوی محض پاکستان کی سمندری حدود کے دفاع تک محدود نہیں، بلکہ بحری اقتصادیات کی ترقی، سمندری وسائل کے موثر استعمال اور اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشیانوگرافی اور پاکستان نیوی کی مشترکہ کاوشوں سے اقوامِ متحدہ نے پاکستان کی سمندری حدود میں اضافے کو تسلیم کیا، جس کے بعد یہ 200 سمندری میل سے بڑھ کر 350 سمندری میل تک پہنچ گئی۔یہ پیش رفت نہ صرف پاکستان کے سمندری وسائل میں اضافے کا باعث بنی، بلکہ خطے میں ملک کی اسٹریٹجک پوزیشن کو بھی مزید مستحکم کر دیا۔
پاکستان نیوی نے نہ صرف اپنے ساحلی دفاع کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کی ہے بلکہ خطے میں بحری سفارت کاری کے ذریعے عالمی سطح پر ایک ذمہ دار نیوی کے طور پر اپنی مستحکم شناخت بنانے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔
حالیہ دور میں عالمی بحری حکمتِ عملی میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جن کی بنیادی وجہ غیر روایتی سکیورٹی چیلنجز ہیں۔ سمندری قزاقی، انسانی اسمگلنگ، موسمیاتی تبدیلیاں اور آبی دہشت گردی جیسے خطرات نے میرین سکیورٹی کے روایتی تصورات کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اسی لیے سمندری نظم و ضبط کے لیے Collaborative Security یعنی مشترکہ سکیورٹی کا نظریہ اپنایا گیا، جو اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی بڑی طاقت تنہا سمندروں پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر سکتی۔
اس بدلتے ہوئے سکیورٹی منظرنامے اور بحری چیلینجز کے مد نظر پاکستان نیوی نے 2007 میں ایک غیر معمولی اقدام کیا یعنی مشترکہ امن مشقوں کا آغاز، جو بحری سکیورٹی کے شعبے میں ایک نئے باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ مشقیں نہ صرف پاکستان نیوی کے اسٹریٹجک وژن کی عکاس ہیں، بلکہ عالمی سطح پر میرین کےآپریشن کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج ہمیشہ امن کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی رہی ہیں، اور یہی نظریہ امن مشقوں کی بنیاد بن گیا ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان مشقوں میں نہ صرف پاکستان بلکہ بحرِ ہند کے دیگر ممالک اور عالمی بحری افواج نے بھی شرکت کی، جس سے یہ خطہ بین الاقوامی بحری اشتراک کا ایک اہم مرکز بنتا جا رہا ہے۔
امن مشقوں کے ابتدائی کامیاب انعقاد کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ انہیں ہر دو سال بعد منعقد کیا جائے گا.اور اب سال 2025 کی کثیر الملکی مشق اور پہلے امن ڈائیلاگ کے کامیاب انعقاد کے بعد پاکستان نیوی کی امن مشقوں کا 9واں ایڈیشن تسلسل کے ساتھ مکمل ہو چکا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان مشقوں کی نوعیت اور دائرہ کار مزید وسعت اختیار کر رہا ہے، جو پاکستان نیوی کے عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور بحری سفارت کاری میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت کا واضح ثبوت ہے۔
امن سیریز کا نعرہ “امن کے لیے متحد” اس بات کا عکاس ہے کہ کوئی بھی ملک سمندری خطرات جیسے قزاقی، دہشت گردی، منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ اور موسمیاتی تبدیلی کو اکیلا حل نہیں کر سکتا۔ امن سمندری مشقوں میں دنیا کی بڑی بحری افواج کی شرکت اس تصور کی تائید اور علاقائی استحکام کے فروغ میں اس کے کردار کا مظہر ہے۔
امن مشقوں کا انعقاد محض عسکری طاقت کے اظہار یا بحری مشقوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار عالمی سطح پر بحری سلامتی، میری ٹائم تعاون اور بلیو اکانومی کے فروغ تک پھیلا ہوا ہے۔2023ء میں ہونے والی امن مشق، جس کا مرکزی نعرہ “امن کے لیے متحد” تھا، پچاس ممالک کی افواج، میری ٹائم ماہرین اور مبصرین کے اشتراک سے منعقد کی گئی۔ یہ مشقیں زمینی اور سمندری سرگرمیوں پر مشتمل تھیں، جن میں انسدادِ بحری قزاقی، دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمتِ عملی، سرچ اینڈ ریسکیو آپریشنز، اور فضائی دفاعی حکمتِ عملی جیسے اہم امور زیر بحث آئے۔
اس مشق کی سب سے نمایاں سرگرمی انٹرنیشنل فلیٹ ریویو تھی، جس میں میزبان پاکستان سمیت متعدد ممالک کے بحری جنگی جہازوں نے حصہ لیا۔ چین، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، ملائیشیا، سری لنکا، اور امریکا کے جہازوں نے ایک منظم اور مخصوص انداز میں اپنی سلامی پیش کی، جو سمندری سکیورٹی کے مشترکہ عزم کی علامت تھی۔ اس موقع پر، پاکستان نیوی کے 9 جنگی جہاز اور میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کے گشت کرنے والے بحری جہاز بھی اس سرگرمی میں شامل تھے۔لیکن امن مشق 2023ء کا سب سے اہم پہلو پہلی عالمی میری ٹائم نمائش اور کانفرنس تھی، جو پاکستان کے میری ٹائم پوٹینشل کو اجاگر کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش تھی۔ 113 مقامی و بین الاقوامی ادارے اس نمائش کا حصہ بنے، جس میں عالمی اور قومی میری ٹائم ماہرین نے بحری تجارتی امکانات، سکیورٹی چیلنجز اور بلیو اکانومی کی ترقی پر گفتگو کی۔ پاکستان نیوی کی جانب سے یہ ایک قابلِ تحسین اقدام تھا جو بحری معیشت کے فروغ اور میری ٹائم آگہی کو بڑھانے کے لیے ایک بڑا سنگ میل ثابت ہوا۔
یہ مشقیں بحرِ ہند میں بدلتی ہوئی جغرافیائی و سیاسی صورتِ حال کے تناظر میں مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہیں۔ بحرِ احمر میں حالیہ بحران نے عالمی بحری تجارت کی غیر محفوظ حیثیت کو بے نقاب کر دیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جدید نیول فورسز کو مزید مربوط اور مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امن مشقیں نہ صرف عالمی بحری افواج کے اشتراک کا موقع فراہم کرتی ہیں بلکہ تجارتی راستوں کے تحفظ اور بحری سلامتی کو یقینی بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
پاکستان نیوی نے 7سے 11فروری تک امن۔2025ء کی نویں عالمی نیول مشقیں اور پہلے امن ڈائیلاگ کی میزبانی کی ۔ ایک پاکستانی کے طور پر میرے لیے قابل فخر یہ بات ہے کہ یہ مشقیں خطے کے اہم سمندری ایونٹس میں سے ایک تھیں جہاں تقریباً 60 ممالک نے اپنے بحری جنگی جہازوں، ایئر کرافٹ، میرینز، اسپیشل آپریشن فورسز اور بڑی تعداد میں مبصرین کے ساتھ حصہ لیا۔
امن مشقیں شریک ممالک کو نہ صرف اپنے تعلقات مضبوط کرنے کا بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مہارت کا تبادلہ کرنے اور سمندری سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے حوالے سے ہم آہنگی کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم بھی مہیا کرتی ہیں ۔
چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف نے نویں کثیرالملکی میری ٹائم مشق امن 25 کی افتتاحی تقریب میں اپنے پیغام میں کہا ‘امن مشق عالمی بحری تعاون کو فروغ دینے اور مشترکہ سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مشق سمندری تحفظ کے حوالے سے پاکستان نیوی کے عزم اور اس کے بین الاقوامی کردار کی ایک بہترین مثال ہے’۔
اسی حقیقت کا اعادہ کرتے ہوئے ایرانی بحریہ کے کمانڈر شہرام ایرانی جو امن مشقوں کے لیے پاکستان میں موجود تھے، نے کہاکہ کراچی میں امن مشقیں 2025ء دنیا کے ممالک کے لیے بڑا پیغام ہے کہ ہم سب ملکر تمام راستوں کی حفاظت کرسکتے ہیں۔
امن2025ء مشق دو مراحل پر مشتمل تھی ، یعنی سمندری مشقیں اور امن ڈائیلاگ۔
امن مشق 2025 کے سلسلے میں پہلی بار منعقد ہونے والے دو روزہ امن ڈائیلاگ کا افتتاحی سیشن 9 فروری 2025ء کو پاکستان نیول اکیڈمی، کراچی میں منعقد ہوا۔ اس تقریب میں دنیا بھر سے بحری افواج کے سربراہان، میری ٹائم تنظیموں کے نمائندگان اور معروف ماہرین نے شرکت کی ۔ جب کے وزیر دفاع نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔
امن مشق 2025 کے دوران، 60 سے زائد ممالک نے اپنے بحری جنگی جہازوں، ایئر کرافٹس، میرینز، اسپیشل آپریشن فورسز اور مبصرین کے ساتھ حصہ لیا۔ انٹرنیشنل فلیٹ ریویو میں پاک بحریہ اور غیر ملکی بحری جنگی جہازوں کی جانب سے امن فارمیشن کا شاندار مظاہرہ کیا گیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر اس موقع پر مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے امن 2025ء کی کامیاب میزبانی پر پاک بحریہ کو مبارکباد دی اور امن کے فروغ کے لیے پاکستان کے عزم کو سراہا۔ آرمی چیف نے اس بات پر زور دیا کہ امن 2025ء ایک ایسا فورم بن کر سامنے آیا ہے جس نے تمام عالمی جغرافیائی طاقتوں کو “محفوظ سمندر، خوشحال مستقبل” کے مشترکہ مقصد کے تحت جمع کیا۔
امن ڈائیلاگ 2025 نے دنیا بھر کی بحری قیادت کو بحری مسائل پر باہمی بات چیت کا موقع فراہم کیا، جو کہ عالمی بحری تعاون اور مشترکہ سلامتی کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔
بحرِ ہند میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اس نوعیت کی مشقوں کا انعقاد ناگزیر ہے۔ یہ مشقیں ایک ایسے کثیر الملکی تعاون کی علامت ہیں جو کسی ایک ملک کے غلبے کی خواہش کے بجائے اجتماعی سکیورٹی کے اصول کو ترجیح دیتا ہے۔ بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں، پاکستان کا یہ اقدام اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ہماری بحری حدود نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ عالمی امن و استحکام کے فروغ میں بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔
(بشکریہ۔ہلال)