مرحوم بھٹو اور ’’نشانِ پاکستان‘‘
(مجیب الرحمٰن شامی)
پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین اور ”نئے پاکستان‘‘ کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی چھیالیسویں برسی نئے جوش وخروش کے ساتھ منائی گئی۔ اُن کے داماد اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری اس موقع پر کسی بڑے اجتماع سے خطاب نہیں کر سکے کہ وہ کورونا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں‘ لیکن پیپلز پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں نے انہیں بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا۔ چند روز پہلے یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ”نشانِ پاکستان‘‘ انہیں مرحمت کیا جا چکا تھا۔ اس کا فرمان صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے جاری کیا۔ یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ ایک ‘فرمانبردار‘ داماد کی طرف سے اپنے سسر کے حضور نذرانہ عقیدت ہے اس لیے اس پر زیادہ غور وخوض کرنے یا اس کے اسباب واثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں‘ لیکن اس حقیقت نے اسے معنی خیز بنا دیا کہ سول ایوارڈ عطا کرنا صدرِ پاکستان کا صوابدیدی اختیار نہیں‘ اس کا اجرا وفاقی حکومت کے قائم کردہ نظم ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس وقت وفاق میں قائم مخلوط حکومت کو وزیراعظم شہباز شریف لیڈ کر رہے ہیں۔ اُن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے جس کے رہبر سابق وزیراعظم نواز شریف ہیں‘ جن کی سیاست جنرل ضیاء الحق کے دور میں پروان چڑھی۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو پہلے صدرِ پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا اور بعد ازاں فیلڈ مارشل ایوب خان کا سایہ میسر آیا تھا‘ وہ وفاقی کابینہ کا حصہ بن کر نمایاں ہوئے تھے‘ اسی طرح میاں محمد نواز شریف پنجاب کی وزارتِ علیا پر جنرل ضیاء الحق کے دور میں فائز ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق نے دُعا کی تھی کہ اُن کی عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے۔ یہ دُعا قبول ہوئی یا کاتبِ تقدیر کا لکھا ہوا پورا ہوا‘جنرل ضیا طیارے کے حادثے میں لقمۂ اجل بن گئے‘ تو نواز شریف بھٹو مخالف سیاست کی توانا آواز بن کر اُبھرے۔ نواز شریف کی سیاست جنرل ضیاء الحق کی انگلی پکڑ کر چلی‘ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے ”ڈیڈی‘‘ ایوب خان کی وراثت میں سے حصہ نہیں ملا۔ انہوں نے اپنا سیاسی قد ان کی مخالفت کر کے بڑھایا اور مرجع خلائق بنتے چلے گئے۔
نشانِ پاکستان کا اعزاز اُنہیں (بعد از مرگ) نصیب ہوا‘ تو اس کی اہمیت یوں بڑھ گئی کہ پیپلز پارٹی کی حریفِ اول مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے اس کی تجویز پیش کی یا یہ کہہ لیجیے کہ اس میں رخنہ نہیں ڈالا۔ اگر وزیراعظم شہباز شریف چاہتے تو معاملہ مختلف ہو سکتا تھا‘ لیکن انہوں نے ”ایجاب وقبول‘‘ میں ہچکچاہٹ نہیں کی۔ یوں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اپنے ورثا اور مخالفین‘ دونوں کے نزدیک قابلِ قدر اور قابلِ فخر قرار پائے۔ نشانِ پاکستان کا اعزاز ان کے مرقد پر سجا دیا گیا۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ اس اعزاز کے خلاف پورے ملک سے ایک بھی آواز بلند نہیں ہوئی۔ بھٹو مرحوم کی شدید ترین مخالف جماعت اسلامی کے کسی رہنما نے بھی ہلکی سی صدائے اختلاف یا احتجاج بلند نہیں کی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ نے پھانسی کی سزا سنائی تھی تو ان کے مخالف سیاسی رہنمائوں میں سے کسی ایک نے بھی اس پر احتجاج نہیں کیا تھا۔ صدرِ پاکستان سے یہ اپیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیںکی تھی کہ انہیں پھانسی نہ دی جائے۔ بھٹو صاحب کو کڑے پہرے میں تختۂ دار پر لٹکانے کے بعد ان کے جسدِ خاکی کو لاڑکانہ لے جا کر رات کی تاریکی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ان کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کی بھی عام اجازت نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے ان کا سوگ منایا‘ چند ایک نے تو خود سوزی بھی کی‘ لیکن مخالف سیاسی رہنمائوں میں سے کسی نے کوئی تعزیتی بیان جاری نہیں کیا۔ بیگم نصرت بھٹو کے دل پر الفاظ کی مرہم رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اُن کی رہائش گاہ پر جانے یا اُن کے مرقد پر پھول چڑھانے یا پھر فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ نوابزادہ نصر اللہ کے بارے میں یہ ”افواہ‘‘ پھیلی کہ انہوں نے بیگم نصرت بھٹو کے نام ایک پیغام میں اظہارِ افسوس کیا ہے‘ تو ان کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ قومی اتحاد کے پُرجوش کارکن ان کا گھیرائو کرتے نظر آئے تو نوابزادہ صاحب وضاحتیں پیش کرنے میں لگ گئے۔
وہ بھٹو جو اس ماحول اور اس انداز میں دنیا سے رخصت کیے گئے تھے‘ آج چھیالیس برس گزرنے کے بعد اُن کا اکرام کیا جا رہا ہے اور اُن پر حروفِ عقیدت نچھاور کیے جا رہے ہیں‘ تو اُن کے جملہ مخالفین زبانِ خاموشی سے اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ بھٹو صاحب کو ”نوازنے‘‘ کا حوصلہ جنابِ صدر کو اس لیے ہوا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیر قیادت سپریم کورٹ کے ایک نو رکنی بینچ نے ان کے گزشتہ دورِ صدارت میں بھیجے گئے ایک ریفرنس پر فیصلہ صادر فرماتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی کہ مرحوم پر چلائے جانے والے مقدمۂ قتل میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے۔ یہ ریفرنس 2011ء میں دائر ہوا تھا‘ سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے 12 نومبر 2012ء کو اس کی آخری بار سماعت کی‘ اس کے بعد فائل دفتر میں پڑی رہی۔ گیارہ سال زیر التوا رہنے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں اس کی مٹی جھاڑی گئی۔ 2 دسمبر 2023ء کو اس کی دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا‘ 4 مارچ 2024ء کو سماعت مکمل ہوئی‘ اور فاضل جج صاحبان اتفاقِ رائے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمے اور اپیل کی سماعت کے دوران مرحوم کے ساتھ مکمل انصاف نہیں کیا جا سکا۔
صدارتی ریفرنس کے بارے میں نو فاضل ججوں کی رائے سامنے آنے کے بعد پیپلز پارٹی میں نئی جان پڑ گئی۔ نفسیاتی اور جذباتی طور پر بھٹو صاحب ایک نئے انداز میں منظر پر ابھرے۔ نتیجتاً ”نشانِ پاکستان‘‘ اُنہیں پیش کر دیا گیا۔ بھٹو مرحوم کی سیاست اور حکومت کے حوالے سے منفی اور مثبت انداز میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ان کی کامیابیوں‘ ناکامیوں اور خامیوں کی فہرست طویل ہے۔ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جن فیصلوں میںانہیںقتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا‘ نہ اس وقت ان کا جائزہ لینا مقصود ہے‘ نہ ہی سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ کی رائے کا تجزیہ کرنا پیش نظر ہے‘ اس وقت کسی بھی تفصیل میں جائے بغیر صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اگر بھٹو صاحب اور اُن کے مخالف ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہنے کا ہنر سیکھ لیتے تو پاکستان آج وہاں نہ ہوتا‘ جہاں نظر آ رہا ہے۔ بھٹو صاحب اور ان کے جانی دشمن اپنی اپنی قبروں میں جا چھپے ہیں‘ لیکن پاکستانی سیاست میں محاذ آرائی اور دھینگا مشتی آج بھی جاری ہے۔ نام بدل گئے ہیں‘ کردار نہیں بدلے ؎
نہ میں بدلا نہ وہ بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیوں کر اعتبار انقلابِ ناتواں کر لوں
ڈاکٹر منظور اعجاز مرحوم
امریکہ سے ڈاکٹر منظور اعجاز کے انتقال کی خبر نے دل کو اُداس کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب بیک وقت پنجابی‘ پاکستانی‘ امریکی اور اشتراکی تھے۔ بچپن میں پولیو کا شکار ہوئے‘ بیساکھی کا سہارا لینے پر مجبور تھے‘ لیکن علم وعمل کی دنیا میں چوکڑیاں بھرتے چلے گئے۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں اُن کی رفاقت میسر آئی‘ وہ مجھ سے دو سال جونیئر تھے‘ لیکن اُن سے ذاتی تعلق ایسا استوار ہوا کہ ٹوٹنے میں نہیں آیا۔ واشنگٹن جب بھی جانا ہوتا وہ دوستوںکو اکٹھا کرتے‘ کلام وطعام کے لیے دستر خوان سج جاتا۔ معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی‘ اور ایک یونیورسٹی کے قیام کا خواب دیکھتے تھے۔ وہ اپنے جیسے ایک ہی تھے‘ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے ؎
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
(یہ کالم روزنامہ ”دنیا‘‘ اور روزنامہ ”پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)