کالم

بات کرتے ہوئے رُک جاتا ہوں

(سعود عثمانی)
ہماری قسمت میں تو اَب یہ ہے کہ روز غزہ میں تازہ شہادتوں کی خبریں پڑھیں۔ مردوں‘ خواتین اور بچوں سمیت۔ اس تخصیص کے بغیر کہ ان میں کتنے حماس کے جنگجو تھے اور کتنے نہتے شہری۔ ہماری قسمت میں تو اب یہ ہے کہ روز نئی بمباری اور میزائل حملوں کی وڈیوز دیکھیں اور دیکھ کر بھلا دیں۔ گرتی عمارتیں‘ اُڑتے پرخچے اور روتے بلکتے بچے دیکھیں اور منہ پھیر لیں۔ غزہ بربادی کی ہر نئی وڈیو پچھلی سے بڑھ کر ہے۔ ایک وڈیو میں بم یا میزائل حملے کے بعد دھویں اور گرد کا بادل ایک ستون کی شکل میں اٹھ رہا ہے۔ یہ بادل اور یہ ستون بظاہر پچیس‘ تیس منزلہ عمارت جتنا بلند ہے۔ لیکن اس ستون کے ساتھ انسانی جسم ہیں جو اتنی ہی بلندی پر ہوا میں اُڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس ہولناک حملے کی شدت کا اندازہ کیجئے جس میں انسانی جسم تین چار سو فٹ بلندی تک اُڑ جائیں۔ لیکن ہماری قسمت اب یہ ہے کہ ایسی ہولناک اور لرزہ خیز وڈیوز اور تصویریں دیکھیں جو زندگی بھر کبھی نہیں دیکھی تھیں‘ اور ایسے ہو جائیں جیسے یہ سب کچھ کسی اور سیارے پر ہو رہا ہے۔ جیسے یہ خاک اور خون میں ملتے جسم جاں کنی سے نہیں گزرتے۔ جیسے یہ سب انسان نہیں کاغذ کے پتلے ہیں جن کے مر جانے‘ بھسم ہو جانے اور پرخچے اُڑجانے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہماری قسمت تو اب یہ ہے کہ روز یہ سنتے رہیں کہ غزہ میں طبی امداد روک دی گئی ہے۔ امدادی عملے کی گاڑیاں حملے کرکے فنا کردی گئی ہیں۔ ہسپتال ملیا میٹ کردیے گئے ہیں‘ اور دوا نام کی کوئی چیز غزہ میں پہنچنے نہیں دی جا رہی۔ یہ تفصیلات بھی کیسے ہم تک پہنچ رہی ہیں‘ خدا جانے۔ اس لیے کہ صحافی نام کی کوئی چیز غزہ میں موجود نہیں ہے جو اس قیامت کو بیان کر سکے۔ اس لیے اندازہ یہی کیا جا سکتا ہے کہ جو کچھ بتایا جا رہا ہے‘ اس کی شدت اس سے بھی سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔ بجلی‘ پانی‘ خوراک کے بغیر لاکھوں انسان کیسے زندہ ہیں‘ حیرت ہوتی ہے۔ انہیں تو حملوں کے بغیر صرف بھوک اور پیاس ہی سے مر جانا چاہیے تھا۔ جس خطے میں مٹی ہی غذا ہو‘ مٹی ہی دوا ہو اور مٹی ہی بے گور و کفن لوگوں کو ڈھانپ لے‘ کسی حملے کی کیا ضرورت ہے۔ لوگ تو ویسے بھی مر ہی جاتے ہیں اور ان لوگوں کو تو اپنے سر کٹے‘ بازو بریدہ‘ خون میں لتھڑے بچوں کے ساتھ ہی مرجانا چاہیے تھا۔
ہماری قسمت تو اب یہ ہے کہ پُر امن بستیوں میں انواع و اقسام کے سجے ہوئے کھانوں کے گرد بیٹھ کر بدہضمی کی دوائیں کھاتے ہوئے ان لوگوں کے بارے میں بات کریں جنہیں لقمہ میسر نہیں۔ لمبے لمبے کرسٹل کے گلاسوں سے چھلکتے عنابی‘ سنہرے مشروبوں میں نقرئی برف کے ٹکڑے ہلائیں اور پیاس کی شدت سے مرتے لوگوں کی یاد منائیں۔ ہماری قسمت یہی ہے کہ ہلاک شدگان کی تعداد گنتے رہیں‘ اور اس تعداد میں یہ متعین کریں کہ کتنے لوگ بموں اور میزائلوں سے اور کتنے بھوک اور پیاس سے ہلاک ہوئے تھے۔ کتنے لوگ دوا نہ ملنے سے مرے تھے اور کتنے اپنے پیاروں کے یکلخت مر جانے سے مر گئے تھے۔ پچاس ہزار‘ ساٹھ ہزار‘ ستر ہزار۔ یہ صرف ہندسے ہیں اور ہندسے کچھ دن کے بعد دھندلانے لگتے ہیں۔
ہماری قسمت تو اب یہ ہے کہ بہت بڑے سجے ہوئے ایوانوں میں میزوں کے پیچھے اور ان کے گرد بیٹھے چمکتے کف لنکس والی قمیصوں میں ملبوس‘ قیمتی سوٹ پہنے‘ نکٹائیاں لگائے‘ سفید‘ گندمی‘ زرد اور کالے چہروں کو دیکھیں جو روز سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی قراردادیں منظور کرتے ہیں۔ حملے کرنے والوں کی مذمت میں اور مرنے والوں کی حمایت میں۔ ہماری قسمت اب یہ ہے کہ یہ جانتے رہیں کہ یہ قرار دادیں بھی کتنی مشکل اور کتنی جدوجہد سے منظور ہوتی ہیں کہ کچھ لوگوں کو یہ کاغذ کے ٹکڑے بھی پسند نہیں۔ وہ کاغذ کے ٹکڑے بھی انہیں برے لگتے ہیں جو روز اسی طرح اُڑتے ہیں جس طرح لاشوں کے ٹکڑے اُڑ رہے ہیں۔ ہماری قسمت تو اب یہ ہے کہ ہر کچھ دن بعد مرصع محلوں میں عرب لیگ اور او آئی سی کے اجلاس ہوتے دیکھیں جن میں براق لباسوں والے لوگ زریں قباؤں میں ملبوس ہوں‘ یہ سب لوگ ہر بار اس لیے اکٹھے ہوئے ہوں کہ بموں کی مذمت کی جائے گی‘ لاشوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے وعدے کیے جائیں گے اور دنیا بھر کے ممالک سے ظالموں کو برا کہنے کی درخواستیں کی جائیں گی اور ہر ایسے اجلاس کے بعد ان کے شرکا کی بہادری اور جرأت کی داد دی جائے کہ انہوں نے بہرحال اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر‘ اپنے تخت کی پروا نہ کرتے ہوئے‘ اپنی جان کی بازی لگا کر وہ کاغذ کا پرزہ تیار کیا تھا جس کی ہمت بھی کسی میں نہیں ہے۔ ہماری قسمت تو اب یہ ہے کہ ہر روز پہلے ظالموں کو اور پھر اسی سانس میں ان بے حمیت حکمرانوں کو بددعائیں دیں جو بظاہر ہم میں سے ہیں اور دراصل ہم میں سے نہیں ہیں۔
ہماری قسمت تو اب یہ ہے کہ دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی فہرستیں پڑھتے رہیں۔ ہر جگہ بے بس مسلمانوں کی تصویریں نظروں سے گزارتے رہیں۔ بس دیکھتے رہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں وقف بل کے نام پر مسلم احتجاجی جلوس ملاحظہ کرتے رہیں۔ مسلمانوں کی املاک ہتھیانے کی کوششوں کا تجزیہ کرتے رہیں اور اندازہ کرتے رہیں کہ ساڑھے نو لاکھ ایکڑ اراضی میں سے کتنی ان کے ہاتھ سے جانی والی ہے۔ سوچتے رہیں کہ مسلم پرسنل لاء پر اب نیا حملہ کس طرف سے ہونے والا ہے۔ ہماری قسمت اب یہی ہے کہ دیکھتے رہیں‘ تجزیے کرتے رہیں‘ سوچتے رہیں۔
ہماری قسمت تو اب یہ ہے کہ امریکہ کے عائد کردہ درآمدی ٹیکسوں کے تخمینے تیار کریں اور سوچیں کہ ہم کس ملک سے بہتر اور کس ملک سے بدتر صورتحال میں ہیں۔ نئے ٹیکسوں کے بعد کتنی ٹیکسٹائل ملیں‘ کتنی گارمنٹس فیکٹریاں بند ہوں گی‘ کتنے خریدار ہمیں چھوڑ دیں گے اور کتنی برآمدات کم ہوں گی۔ اور اگر اس میں کچھ ہندسوں کی بہتری لائی جا سکتی ہے تو وہ کیسے؟ یہ جو وزیراعظم نے بجلی کی قیمتیں کم کی ہیں‘ ان سے ہماری لاگتوں پر کیا اثر پڑے گا۔ اگلے ماہ میرے دفتر اور میرے گھر کا بجلی کا بل کتنا آئے گا۔ اور جو قیامت کے گرم مہینے آنے والے ہیں ان میں کیا میں ایئر کنڈیشنر چلا سکوں گا؟ اور یہ صرف بجلی کا معاملہ ہے‘ گیس کا کیا ہو گا؟ ملک بھر میں ڈیم پانی سے خالی ہو رہے ہیں‘ واسا کی نااہلی اور بدانتظامی میں اگر خالی دریا‘ خالی ڈیم اور خالی نہریں بھی شامل ہو گئیں تو میرے گھر میں پانی کا کیا ہو گا؟
ہماری قسمت اب یہی ہے کہ دیکھتے رہیں‘ دیکھتے رہیں اور بس دیکھتے رہیں۔ چلئے یہ تو ہماری قسمت ہے جو آئندہ سالوں میں بھی یہی رہے گی لیکن کئی خیال آتے ہیں۔ کیا ہم وہ آخری نسل ہیں جو غزہ میں فلسطینیوں کو زندہ دیکھ رہے ہیں۔ کیا غزہ کے فلسطینی وہ آخری نسل ہیں جو دنیا دیکھ رہے ہیں۔ اپنی قسمت کا سوچتے ہوئے یہ بھی خیال آتا ہے کہ غزہ کے مسلمانوں کی قسمت کیا ہے؟ آئندہ مہینوں اور سالوں میں کیا ان کی قسمت بھی یہی رہے گی؟ ایک تیز دھار نوک میرے دل کے قاش در قاش ٹکڑے کرتی میرے سینے میں گھومتی ہے۔ کوئی کانوں میں سرگوشی کرتا ہے کہ نہیں! غزہ کے مسلمانوں کی قسمت یہ نہیں رہے گی۔ قسمت تو ان کی پوچھو جو آئندہ سالوں میں زندہ رہیں گے؟ مجھ میں یہ سرگوشی سننے کی تاب نہیں۔ سب ہمتیں جواب دے چکی ہیں۔ خون میں لتھڑی تصویریں دیکھنے کی۔ ہوا میں اڑتی لاشیں گننے کی۔ دیوار پر لکھا پڑھنے کی اور اَن کہی بات سننے کی۔ میں وڈیوز سے نظر چرا لیتا ہوں‘ میں تصویروں سے آنکھیں ہٹا لیتا ہوں‘ میں سرگوشی کی طرف سے کان بند کر لیتا ہوں۔ لیکن اس سے کیا ہو گا؟ کیا میری قسمت بدل جائے گی۔ غزہ کی قسمت بدل جائے گی؟ میں بات پوری نہیں کر پا رہا لیکن آپ میری بات پوری سمجھیے:
بات کرتے ہوئے رُک جاتا ہوں
آپ اس بات کو پورا سمجھیں

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button