امریکی ٹیرف،بجلی کی قیمتیں اور مہنگائی
(میاں عمران احمد )
امریکی صدر کی جانب سے پاکستان سمیت 100 کے قریب ممالک کی درآمدات پر اضافی ٹیرف لگانے کے بعد صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے۔ ٹرمپ کا یہ فیصلہ معاشی ایٹم بم کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ ایسا محسوس ہور رہا ہے کہ اس فیصلے سے پہلے ہوم ورک نہیں کیا گیا‘ کیونکہ ایسے خطوں پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے جہاں پچھلے دس سال سے کوئی انسان نہیں گیا بلکہ وہاں پینگوئن اور Seals آباد ہیں۔ آسٹریلیا کے جنوب مغرب میں ہرڈ اور میکڈونلڈ جزیرے چار ہزار کلو میٹر کے خطے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں جانے کیلئے کشتی پر آسٹریلوی شہر پرتھ سے سات روزہ سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے یہاں کوئی انسان نہیں گیا مگر صدر ٹرمپ نے ان پر بھی اضافی ٹیرف عائد کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ جلد بازی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ان اضافی ٹیرفس کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہونے کے امکانات ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکی سٹاک مارکیٹ تقریباً کریش کر گئی ہے۔ اگرچہ سبھی ممالک کی سٹاک ایکسچینج متاثر ہوئی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق عالمی مارکیٹ کو پانچ کھرب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ چین‘ جاپان‘ برطانیہ‘ جرمنی اور بھارت سمیت تمام بڑی معاشی طاقتوں کو منفی اثرات کا سامنا ہے لیکن پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ پاکستان کی جانب سے امریکہ بھیجی جانے والی برآمدات پر 29 فیصد اضافی ٹیکسز لگائے گئے ہیں لیکن پاکستانی سٹاک ایکسچینج میں مندی کے بجائے بہتری آئی ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ 100 انڈیکس ایک لاکھ بیس ہزار کی سطح کو عبور کر گیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے جو برآمدات امریکی مارکیٹ میں جاتی ہیں‘ ان میں ٹیکسٹائل سرفہرست ہے۔ امریکی مارکیٹ میں پاکستان کے مد مقابل بنگلہ دیش‘ بھارت‘ چین اور ویتنام ہیں۔ بنگلہ دیش پر ٹیرف 37 فیصد‘ بھارت پر 26 فیصد‘ چین پر 34 فیصد اور ویتنام پر 46 فیصد ہو گیا ہے۔ اس حساب سے پاکستان کو تین حریف ممالک پر سبقت حاصل ہے۔ بھارت سے اگرچہ معمولی خطرہ ہو سکتا ہے مگر معیار کے اعتبار سے پاکستانی ٹیکسٹائل کو بھارت پر برتری حاصل ہے‘ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اضافی ٹیرف لگنے کے باوجود پاکستانی ٹیکسٹائل سیکٹر کو فائدہ ہونے کے امکانات ہیں۔اگر سٹاک ایکسچینج پر پڑنے والے اثرات کی بات کی جائے تو پاکستان میں تقریباً 425 ٹیکسٹائل یونٹس ہیں جن میں سے صرف پانچ فیصد ہی سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ہیں۔ اگر حریف ممالک کی نسبت پاکستان پر زیادہ ٹیرف عائد کر دیا جاتا تو شاید تب بھی پاکستان سٹاک ایکسچینج پر زیادہ فرق نہ پڑتا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں بہتری کی بڑی وجہ وزیراعظم کی جانب سے گھریلو اور صنعتی صارفین کیلئے بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہے۔ انڈسٹری کیلئے 7 روپے 69 پیسے اور گھریلو صارفین کیلئے 7 روپے 41 پیسے بجلی کی قیمت کم کی گئی ہے۔ بجلی کی قیمت میں کمی سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ معاشی گروتھ بہتر ہو گی۔ مہنگائی کم ہونے کے بھی اعدادوشمار سامنے آئے ہیں اور ماہانہ بنیادوں پر تجارتی خسارے میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔گردشی قرضوں سے متعلق وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ اگلے پانچ سالوں تک انہیں ختم کر دیا جائے گا۔ مثبت خبروں کے اس مجموعے نے سٹاک ایکسچینج پر مثبت اثرات ڈالے ہیں اور امید ہے کہ یہ بہتری کچھ عرصہ تک جاری رہے گی۔
یہاں یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ بجلی کی قیمتوں میں ریلیف عارضی ہے اور وزیر توانائی نے اس کی تصدیق بھی کی ہے۔ سٹاک مارکیٹ زمینی حقائق کے بجائے خبروں سے زیادہ متاثر ہوتی ہے کیونکہ سٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ مستقبل کو مدنظر رکھ کر ہوتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اصل فائدہ کسے ہو گا‘ اس بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ 50 یونٹ تک خرچ کرنے والے لائف لائن صارفین کیلئے بجلی کے نرخ فی یونٹ چار روپے 78 پیسے‘ جبکہ 51 سے 100 یونٹ تک خرچ کرنے والے صارفین کیلئے فی یونٹ قیمت نو روپے 37پیسے برقرار ہے۔ سرکار کا دعویٰ ہے کہ یہ صارفین پہلے ہی بجلی کی لاگت سے کم بل دے رہے ہیں۔ پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے نرخ 14 روپے 67 پیسے سے کم کر کے آٹھ روپے 52 پیسے اور 101 سے 200 یونٹ خرچ کرنے والے صارفین کیلئے بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت 17 روپے 65 پیسے سے کم کر کے 11 روپے 51 پیسے مقرر کی گئی ہے۔ نئی قیمت کے مطابق تین سو یونٹس استعمال کرنے والے نان پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت 41 روپے 26 پیسے سے کم کر کے 34 روپے 3 پیسے جبکہ نان پروٹیکٹڈ 300 یونٹ سے زیادہ خرچ کرنے والے صارفین کیلئے قیمت 55 روپے 70 پیسے سے کم کر کے 48 روپے 46 پیسے طے کی گئی ہے۔کمرشل استعمال والوں کیلئے نرخ 71 روپے چھ پیسے سے کم کر کے 62 روپے 47 پیسے‘ جنرل سروسز کیلئے فی یونٹ قیمت 56 روپے 66 پیسے سے کم کر کے 49 روپے 48 پیسے مقرر کی گئی ہے اور صنعتوں کیلئے بجلی کی فی یونٹ قیمت 48 روپے 19 پیسے سے کم کر کے 40 روپے 51 پیسے مقرر ہوئی ہے۔بلک کیٹیگری کیلئے فی یونٹ قیمت 55 روپے پانچ پیسے سے کم ہو کر47 روپے 87 پیسے ہو گی اور زرعی صارفین کیلئے فی یونٹ قیمت 41 روپے 76 پیسے سے کم ہو کر 34 روپے 58 پیسے کی گئی ہے۔یہ ریلیف تقریباً پندرہ فیصد بنتا ہے جو بلوں میں واضح کمی لا سکتا ہے۔یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت نے سات روپے سے زائد کا یہ ریلیف کیسے مینج کیا ہے کیونکہ بنیادی ٹیرف میں کوئی کمی نہیں کی گئی ہے۔ اس حوالے سے مختلف دعوے کیے جا رہے ہیں کہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی کی وجہ سے یہ ممکن ہوا ہے اور کچھ عام فہم لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ سولر زیادہ لگنے کی وجہ سے یہ کمی ہوئی ہے۔ اس ریلیف کی اصل وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہے۔اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو یہ عارضی ریلیف بھی ختم ہو جائے گا۔ اس وقت پوری دنیا میں صدر ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے تیل کی ڈیمانڈ کم اور سپلائی زیادہ ہے‘ اسی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے اور حکومتِ پاکستان نے اس کمی کو بجلی ریلیف میں منتقل کر دیا ہے۔ اپوزیشن حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ 40روپے قیمت بڑھا کر بجلی 70 روپے کی گئی اور اب آٹھ روپے تک کم کر کے عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح کی تنقید نامناسب ہے۔وزیراعظم کے اس فیصلے کو سراہا جانا چاہیے کیونکہ جن حالات میں بجلی کی قیمتیں بڑھائی گئی تھیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔اب آئی ایم ایف کا دباؤ اس قدر زیادہ ہے کہ خود وزیراعظم کو آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے بات کرنا پڑی۔ گرمیوں کے آغاز پر قیمتوں میں کمی عوام کیلئے حقیقی ریلیف ثابت ہو سکتی ہے۔
اگر مہنگائی کی بات کریں تو اس کی شرح میں تاریخی کمی حوصلہ افزا ہے۔ مارچ 2025ء میں مہنگائی کی شرح 0.7 فیصد رہی‘ جو گزشتہ ماہ 1.5 فیصد تھی۔ ایک سال پہلے یعنی مارچ 2024ء میں یہ شرح 20.7 فیصد تھی‘ یعنی گزشتہ سال کی نسبت مہنگائی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ شہری علاقوں میں مہنگائی 1.2 فیصد تک رہی جو فروری میں 1.8 فیصد تھی جبکہ دیہی علاقوں میں مہنگائی کی شرح جوں کی توں یعنی صفر فیصد رہی۔ مہنگائی کی شرح میں یہ کمی عوام کیلئے خوش آئند ہے لیکن اس پہلوکو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ زمینی حقائق کچھ مختلف ہو سکتے ہیں۔ جب بہت زیادہ اچھی خبریں ایک ساتھ سامنے آنے لگتی ہیں تو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ اعدادوشمار میں ہیر پھیر کیا جا رہا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سب اچھا کی خبریں آ رہی ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکی ہے اور اسے بحال کرنے کی کوششوں میں مسلسل ایسی خبریں جاری کی جا رہی ہیں۔