کابینہ توسیع،نئی سیاست
(خاص مضمون)
ایک برس قبل وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں منتخب حکومت نےخلوص نیت کے ساتھ جس ایجنڈے کے تحت فرائض منصبی سنبھالے،ان میں سرفہرست ملک میں معاشی اصلاحات لانا اور اس کے نفاذ میںبعض وزارتوں سے لے کر نچلی سطح تک اداروں اور محکموں میں رائٹ سائزنگ کرتے ہوئے قومی دولت کابے جا اصراف روکنا شامل ہے۔ جمعرات کے روز وفاقی کابینہ میںمزیداراکین کے حلف اٹھائے جانے کے بعداس کا حجم22سے بڑھ کر 50 تک پہنچ گیا ہے۔کوشش کے باوجود پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ نہ بن سکی۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے پہلے مرحلے میں 12وفاقی وزراجبکہ دوسرے میں 9وزرائے مملکت سمیت 3مشیروں اور4معاونین خصوصی سے ان کی ذمہ داریوں کاحلف لیا۔اب وفاقی وزرا کی تعداد بڑھ کر 30،وزرائے مملکت9،مشیر4اور معاونین خصوصی کی 7ہوگئی ہے،جن میں مزید اضافہ ہونا باقی ہے۔وفاقی کابینہ میں نئے وزرا کی شمولیت کا معاملہ گزشتہ چار ماہ سے چل رہا تھا۔نئےاراکین میںشامل جنید انوار چوہدری اور عبدالرحمٰن کانجو سابق وفاقی وزیر رہے ہیں۔بلال اظہر کیانی پنجاب کے مشیر صحت میجر جنرل(ر) اظہر کیانی کے صاحبزادے اور موجودہ ایوان کے نہایت فعال رکن ہیں۔پرویز خٹک اور ڈاکٹر توقیر شاہ وفاقی وزرا کے مساوی مشیر بنائے گئے ہیں۔پرویز خٹک ،عمران خان کے ساتھی اور خیبر پختونخواکے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں،تاہم انہوںنے عمران خان کی ریاست مخالف پالیسیوں کو چیلنج کیا تھا۔علی پرویز ملک گزشتہ برس کے دوران وزیر مملکت رہنے کے بعد وفاقی وزیر بنائے گئے ہیں،ان کے والدپرویز ملک مرحوم بھی وفاقی وزیر رہے۔ان کی والدہ شائستہ پرویز ملک بہترین پارلیمانی ریکارڈ کی حامل ایم این اے ہیں۔شیزا فاطمہ خواجہ گزشتہ برس کے دوران آئی ٹی کی وزیر مملکت تھیں اور انہوں نے پاکستان کو ڈیجیٹل ایج میں لے جانے کیلئے قابل قدر کام کیااور نئے قواعد نافذ کیے۔ڈاکٹر توقیر شاہ اعلیٰ ریکارڈ کی بنیاد پر ن لیگ کی گڈ بکس میں شامل ہیں۔وفاقی کابینہ کی تشکیل کے دوسرے مرحلے میں شامل کیے جانے والے وزرا اور وزرائے مملکت میں سب سے زیادہ نمائندگی پنجاب کو دی گئی ہے،جبکہ سندھ دواور بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے ایک ایک وزیرلیا گیا ہے۔ان ارکان میں مسلم لیگ ن کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے رہنما بھی شامل ہیں جبکہ تین خواتین بھی کابینہ کا حصہ بنائی گئی ہیں۔اگر حکومتی پارٹی (حزب اقتدار)سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کو تفویض کردہ ایوان کے اندر اور ایوان سے باہر پارٹی قیادت کی طرف سے ذمہ داریوں کے تعین کی بات کی جائے تو سیاست سے زیادہ ان کی اپنی جماعت سے وابستگی کا عنصر غالب چلا آیا ہے۔واضح رہے کہ ماضی میں جو بھی جماعت برسر اقتدار آئی ،اس کی طرف سےاپنے اراکین اسمبلی کو تفویض کی جانے والی ذمہ داریوں میں کابینہ ،قائمہ کمیٹیوں ، عوامی ،تعمیراتی اور فلاحی منصوبوں میں شمولیت کو بنیاد بنایا گیا۔بعض حالات میں ٹیکنوکریٹس کی وفاقی کابینہ میں شمولیت ضروری ہوجاتی ہے ،پاکستان میں بھی ایسا ہوتا آیا ہےاور موجودہ حکومت میں بھی شامل ہیں ۔یہ ماہرین ملک وقوم کے بہترین مفاد میں حکومت کی رہنمائی کرتے ہیں ، ماضی میں بعض مواقع پر انھیں پارٹی مفادات کے دباؤ کا سامنا بھی رہا۔تاہم ذاتی حیثیت پرملکی و قومی مفاد کی ترجیح آئینی اورملی تقاضا ہے ۔اسی کا نام حلف ہے،اس کا زبانی احترام کافی نہیں ، قواعد سے روگردانی اور اصولوںسے انحراف اپنے پیچھے وہی نقوش چھوڑ جاتا ہے جن کےماضی میں پیدا شدہ اثرات کاآج تک ملک وقوم کو سامناہے۔