کالم

متضا طرزِ عمل

(کنوردلشاد)

حکومت اور اپوزیشن کے مابین جب مذاکرات کا آغاز ہوا تو عوام نے سکھ کا سانس لیا کہ مذاکرات کے ذریعے فریقین کے مابین سیاسی اختلافات حل ہونے کے بعد ملک میں سیاسی استحکام قائم ہو سکے گا جو ملک میں معاشی استحکام اور عوام کے حالات میں بہتری کا باعث بھی بنے گا لیکن تحریک انصاف کی طرف سے مذاکرات کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد ملک میں سیاسی استحکام کے قیام کے خواہاں عوام ایک بار پھر مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے ابھی مذاکراتی کمیٹی کو تحلیل نہیں کیا گیا لیکن جب دوسرا فریق مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو تیار ہی نہیں تو اس کمیٹی کو برقرار رکھنے کا کیا فائدہ؟ اگر فریقین ایک دفعہ اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی مفاد کی خاطر سیاسی کھنچا تانی کا سلسلہ ختم کر دیتے تو عوام میں بھی یہ احساس اجاگر ہوتا کہ ہمارے سیاسی رہنما ؤں کو ملکی مفاد سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے مگر سیاستدانوں نے ہر موقع پر ایسی امیدوں کو غلط ثابت کیا ہے۔ دوسری طرف جہاں ذاتی مفادات کی بات آتی ہے وہاں تمام سیاسی حریف ہر طرح کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک پیج پر جمع ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے تنخواہوں میں اضافے پر جس طرح یک زبان ہو کر مثالی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے ایسا اتحاد ملکی مفاد کے لیے کیوں نہیں ہو سکتا؟ اراکینِ پارلیمنٹ کا مثالی اتحاد دیکھتے ہوئے قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے اراکین کی تنخواہوں میں200 فیصد اضافے کی تجویز منظور کرکے اسے منظوری کے لیے وزیراعظم کو ارسال کردیا ہے۔اس پیش رفت پر اراکین اسمبلی کا کہنا تھا کہ پیسے آتے کس کو برے لگتے ہیں‘ تنخواہوں میں ایسا اضافہ تو ہر سال ہونا چاہیے۔ اطلاعات کے مطابق ابتدائی طور پر تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ تحریک انصاف کے 67 اراکین نے کیا تھا لیکن بعد ازاں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ سمیت دیگر پارلیمانی جماعتیں بھی تنخواہوں میں اضافے پر ہم آواز ہوگئیں۔یہ امر باعثِ تشویش ہونا چاہیے کہ اُس ملک میں‘ تنخواہوں میں کئی سو فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے عوام ٹیکسوں کی بھرمار اور اشیائے صرف کی مہنگائی سے ہلکان ہیں اور ماضی کی حکومتیں کم آ مدنی والے طبقے کو توانائی اور خوراک کی مد میں جو اعانت فراہم کرتی تھیں حالیہ دو ‘ تین برس کے دوران وہ ختم کر دی گئی ہے۔ صرف بجلی ‘ تیل اور گیس کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ اشیائے خورونوش پر بھی جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے حتیٰ کہ دودھ جیسا خوراک کا بنیادی ترین جز بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ غریب عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا کر اپنی تنخواہوں میں سینکڑوں فیصد اضافہ کرنے والے اراکینِ پارلیمنٹ کو عوام کی قوتِ خرید میں بہتری لانے پر بھی تھوڑی توجہ دینی چاہیے۔
دوسری جانب وفاق سمیت چاروں صوبائی حکومتوں کی طرف سے پنشن میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کیے جانے کے بعد ملک بھر میں سرکاری ملازمین پر یکم جنوری 2025ء سے بیس لائن پنشن کا قانون لاگو ہو چکا۔ بیس لائن پنشن سے مراد کیا ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا‘ آئیے اس بارے جانتے ہیں۔ وفاقی وزارتِ خزانہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق‘ ریٹائرڈ ملازم کی پنشن سروس کے آخری 24ماہ میں قابلِ پنشن تنخواہ کی اوسط کی بنیاد پر طے کی جائے گی۔ نئی پنشن سکیم موجودہ مالی سال میں بھرتی ہونے والے وفاقی سویلین ملازمین اور آئندہ مالی سال میں افواج میں بھرتی ہونے والے ملازمین پربھی لاگو ہو گی۔ نئی اصلاحات میں ‘ڈبل پنشن‘ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ریٹائرڈ ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد کسی ادارے میں دوبارہ نوکری کرنے پر یا تنخواہ لیں گے یا پنشن۔ انہیں پرانی ملازمت کی پنشن اور نئی ملازمت کی تنخواہ بیک وقت نہیں ملے گی۔ ریٹائرڈ ملازمین کو نئی نوکری ملنے پر ان کی پرانی پنشن بند کر دی جائے گی۔ اسی طرح وفات کے بعد ریٹائرڈ ملازم کی بیوہ کو پنشن مل سکے گی‘ اس کے بچوں کو نہیں۔ پنشن میں سالانہ اضافہ بھی اوسط تنخواہ کے مطابق ملنے والی پنشن کی بنیاد پر ہو گا۔ ریٹائرمنٹ کے وقت کی نیٹ پنشن کو بیس لائن پنشن یعنی بنیادی پنشن شمار کیا جائے گا اور پنشن میں کوئی اضافہ ہوتا ہے تو وہ بیس لائن پنشن کی بنیاد پر ہوگا۔ اسی طرح اگر حاضر سروس یا پنشنر کا خاوند یا بیوہ خود بھی تنخواہ دار یا پنشنر ہوں تو وہ اس صورت میں پنشن لینے کے حقدار ہوں گے۔
جولائی 2025ء سے لاگو ہونے والی ان پنشن اصلاحات کی وضاحت ایک مثال کے ذریعے کرتے ہیں:ہر پنشنر کی یکم جولائی 2024ء تک ملنے والی پنشن کو بیس لائن پنشن سمجھا جائے گا۔مثال کے طور پر اگر کسی پنشنر کو یکم جولائی 2024ء تک ڈیڑھ لاکھ روپے پنشن ملی تھی تو اگلے تین سالوں تک اب یہی اس کی بیس لائن پنشن ہو گی۔ پنشن میں مزید اضافہ گزشتہ دو سالوں کی افراطِ زر کے اوسط 80 فیصد کے حساب سے کیا جائے گا۔ یہ اضافہ یکم جولائی 2025ء سے کیا جائے گا اور اگلے تین سال تک اس پر عمل کیا جائے گا۔ بیس لائن پنشن پر تین سال بعد نظر ثانی کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیس لائن پنشن اور اس میں اضافہ اگلے تین سال تک قابلِ عمل رہے گا۔ اس کے بعد حکومت دو سالوں کی افراطِ زر کی شرح کے مطابق نئی بیس لائن پنشن کا حساب کرے گی اور متعلقہ اکاؤنٹس آفس کو اس حوالے سے آگاہ کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ پرانے قانون کے تحت ہر سال بجٹ میں سرکاری ملازمین کے ساتھ پنشنرز کے پنشن میں بھی اضافہ کیا جاتا تھا لیکن اب ہر تین سال بعد ایک خصوصی کمیٹی افراطِ زر کی شرح دیکھ کر پنشن میں اضافے کا فیصلہ کرے گی۔پرانے قانون کے تحت بجٹ میں پنشنرز کے پنشن میں جو اضافہ کیا جاتا تھا‘ اس کا اطلاق اگلے سال بجٹ میں اضافے کے بعد ہوتا تھا ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی پنشنر پچاس ہزار ماہانہ پنشن وصول کرتا ہے اور بجٹ میں اس کی پنشن میں پانچ ہزار کا اضافہ ہو جاتا ہے تو اُس سے اگلے سال اس کی پنشن پچاس سے بڑھ کر پچپن ہزار ہو جائے گی ۔لیکن نئے قانون کے تحت نہ صرف پنشنروں کی پنشن تین سال تک منجمد ہو گی بلکہ افراطِ زر کی مناسبت سے ہونے والا اضافہ بھی پنشن میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ مطلب تین سال سے پہلے پنشنرز کی پنشن میں کسی بھی قسم کا اضافہ نہیں ہوگا۔ اس نوٹیفیکیشن میں پہلے سے پنشن لینے والے پنشنروں کیلئے یکم جنوری 2025ء کو بیس لائن قرار دیا گیا ہے جبکہ جو ملازمین یکم جنوری 2025ء کے بعد ریٹائرمنٹ لیں گے تو ان کو سروس کے آخری 24 ماہ یعنی دو سال کے درمیان بیس لائن پنشن میں فکسڈ کریں گے۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت نے یہ پنشن اصلاحات آئی ایم ایف کے مطالبے پرکی ہیں۔ان اصلاحات سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کی بچت متوقع ہے۔ان اصلاحات سے ریٹائر ہونے والے ملازمین کو پنشن کی مد میں اب کم پیسے ملیں گے۔ پے اینڈ پنشن کمیشن ہر تین سال بعد بنیادی پنشن پر نظرثانی کرے گا۔ وزارتِ خزانہ نے پے اینڈ پنشن کمیشن 2020ء کی سفارشات فوری نافذ کردی ہیں اور اس ضمن میں آئی ایم ایف کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔ریٹائر ہونے والے ملازمین کیلئے پنشن اصلاحات پرتین الگ الگ نوٹیفکیشن بھی جاری کیے گئے ہیں۔ فنانس ڈویژن نے یہ نوٹیفکیشن عمل درآ مد کیلئے تمام وزارتوں اور ڈویژن کے علاوہ کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس اور ملٹری اکاؤٹنٹ جنرل کو بھیج دیے ہیں۔ اس نئے قانون کے بعد اگر پنشن میں کوئی اضافہ کیا گیا تو وہ بیس لائن پنشن کی بنیاد پر ہی کیا جائے گا اور ہر اضافہ کو الگ رقم تصور کیا جائے گا تاآنکہ وفاقی حکومت اضافی پنشن فوائد کی منظوری دے سکے۔ ان پنشن اصلاحات سے سالانہ پنشن بل کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی لیکن کفایت شعاری کی پالیسی تبھی کارگر ثابت ہو گی جب حکمران طبقہ اپنے اخراجات میں بھی کمی یقینی بنائے ۔ سرکاری ملازمین کی پنشن پر کٹ لگانا اور اپنی تنخواہیں بڑھانا انصاف کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button