اپنا اپنا فخر
(ڈاکٹر زاہد منیر عامر)
خبر آئی ہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے نہم جماعت کیلئے سات کتابوں کا نیا سلیبس تیار کر لیا ہے، اب طلبہ اپنی مرضی سے اردو یا انگریزی میں سلیبس پڑھ سکیں گے۔ خبر کے مطابق پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے تمام تعلیمی اداروں اور بورڈز کو کتابوں کی تبدیلی کے حوالے سے آگاہ کر دیا ہے۔جولائی2019ء میں حکومت پنجاب نے ذریعہ تعلیم کو انگریزی سے تبدیل کر کے اردو بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس مقصد کیلئے پنجاب کے محکمہ تعلیم نے بائیس اضلاع میں اساتذہ، طلبا اور والدین کا سروے کروایا تھا جسکے مطابق ہر طبقے سے پچاسی فیصد افراد نے اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حق میں رائے دی۔ اس کے باجود ذریعہ تعلیم میں زبان کی دورنگی جاری رہی اور یہ خبر اس بات کی مظہر ہے کہ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حیرت ہے کہ جو بات ایسٹ انڈیا کمپنی کو ۱۸۳۷ء میں معلوم ہو گئی تھی جب انھوں نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا تھا وہ بات ہمارے منصوبہ سازوں کو اب تک کیوں معلوم نہیں ہو سکی۔ برطانوی دور حکومت میں ہندوستان کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایک ہی بڑی یونی ورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی تھی جس کا ذریعہ تعلیم انگریزی تھا۔ انگریزی کو یہ منصب فارسی سے چھین کر دیا گیا تھا، جس نے سات سو سال تک ہندوستان کے نظام تعلیم پر حکمرانی کی تھی۔ خطے کی تہذیبی اور تعلیمی زبان سے اس کا منصب چھین کر ایک اجنبی زبان کو دیے جانے کے نتائج اسی دورمیں آنا شروع ہو گئے تھے۔ حیرت ہے کہ ہم آج تک ان نتائج سے بے خبر ہیں۔ ہم کوئی تبصرہ کیے بغیر انگریزوں ہی کے قائم کردہ دہلی کالج کے ایک پرنسپل ای ولموٹ کی ۱۳؍دسمبر ۱۸۶۷ء کی رپورٹ کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ یہ رپورٹ آج بھی پنجاب آرکائیوز میں موجودہے۔ ای ولموٹ کیمبرج یونی ورسٹی کے ممتاز ماہر تعلیم تھے۔ انھوں نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے والی کلکتہ یونیورسٹی کے حاصل کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا:’’ہمارے فاضلین کی اکثریت نہایت سطحی علم کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پاتی، خواہ وہ انگریزی ہو یا اس زبان میں حاصل کیے جانے والے دوسرے علوم، لہٰٓذا عمومی طور پر اس سے جو ذہنی تربیت ہو رہی ہے وہ خالص نقالی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ سطحیت ،نقالی اور تحصیل علوم میں زبان کی اجنبیت کے باعث پیدا ہونے والی رکاوٹ جیسے ان عوامل کواسی عہد میں جس اعلیٰ ترین سطح تک محسوس کیا گیا اس کا بڑا ثبوت اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے بانی ڈاکٹر جی۔ ڈبلیو۔ لائٹنر کے خیالات ہیں جو انھوں نے ہندوستان آنے اور یہاں اعلیٰ ترین تعلیمی عہدوں پر فائز ہونے کے بعد ظاہر کیے۔ یہی احساس تھا جس نے ۱۸۶۵ء میں انجمن پنجاب کی تشکیل کی اور ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر نے اس نیم علمی، ادبی، سماجی انجمن کے مقاصد میں یہ بات شامل کروائی کہ اس انجمن کے ذریعے قدیم مشرقی علوم کا احیا کیا جائے گا اور اس ملک کے باشندوں کو مقامی زبانوں کے ذریعے تعلیم دے کر ان میں مفید علوم کی اشاعت کی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں جہاں لاہور سے اردو اخبارات ورسائل جاری ہوئے وہاں اورینٹل اسکول بھی قائم ہوا۔ انجمن پنجاب کی رپورٹوں کے مطابق قیام انجمن کے پہلے ہی سال ۱۱؍ستمبر ۱۸۶۵ء کو منعقد ہونے والے اجلاس میں ڈاکٹر لائٹنر نے اورینٹل یونیورسٹی کے قیام کا تخیل بھی پیش کر دیا جس کے نتیجے میں بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ تاریخ کے طالب علم کیلئے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تہذیبی تفاوت کے جس المیے کا رونا آج رویا جاتا ہے اسے سب سے پہلے ان لوگوں نے محسوس کر لیا تھا جنھیں ہماری تہذیب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، آج ہم مسٹر میکلوڈ کا نام صرف لاہور کی ایک سڑک کی نسبت سے جانتے ہیں ،بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ مسٹر میکلوڈ sir donald friell mcleod ۱۸۶۵ء سے ۱۸۷۰ء تک پنجاب کے گورنر رہے۔ جب اہل پنجاب کی جانب سے مشرقی علوم کی ایک یونیورسٹی کے قیام کے مطالبے پر مشتمل ایک محضر نامہ انھیں پیش کیا گیا تو انھوں نے اس حوالے سے لکھا تھا کہ غیر ملک کی زبان میں تعلیم دینے سے تعلیم کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ مسئلے کو تاریخی تناظر میں دیکھتے ہوئے مسٹر میکلوڈ نے یہ بھی لکھا کہ خود انگلستان میں جہاں شائستگی کے حصول کیلئے لاطینی اور یونانی زبانوں کی تحصیل ضروری سمجھی جاتی ہے، عام تعلیم کیلئے دیسی زبان یعنی انگریز ی ہی کو موزوں سمجھا جاتا ہے۔ مسٹر میکلوڈ کی یہ تحریر اپنے اندر بصیرت کا خاصا سامان رکھتی ہے۔ اس تحریر میں اعتراف کیا گیا کہ نئے نظام تعلیم نے اردو اور ہندی کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ صرف یہی نہیں اس نظام سے کوئی اچھا انگریزی دان بھی نہیں نکلا۔ اس نظام کا حاصل فقط وہ لوگ ہیں جو سرکاری ملازمت کے حصول کیلئے محض انگریزی بول چال سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے طلبا کا فقدان ہے جو تعلیمی اداروں سے حصول علم کی خاطر منسلک ہوتے ہوں۔ گورنر نے اس طریقۂ تعلیم کو ناقص قراردیتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ سر ڈانلڈ میکلوڈ نے اورینٹل یونیورسٹی کی اس تجویز پر کلکتہ کالج کے پرنسپل میجر ناسائو لیز\سے بھی مشورہ کیا۔ ناسائولیز نے یہ کہتے ہوئے کہ اس نظام تعلیم نے صرف کلرک پیدا کیے ہیں، علمی خوبیوں کا حامل کوئی فرد پیدا نہیں کیا، گورنر کے خیالات کی تائید کی۔ اجنبی زبان میں تعلیم کے ان نتائج سے آگاہ ہو جانے پر انگریز حکام نے مقامی باشندوں کو مقامی زبانوں ہی میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں پنجاب یونیورسٹی قائم ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک کانووکیشن میں جب وائس چانسلر نے خطبہ استقبالیہ انگریزی میں پیش کیا تو وائسرائے ہند نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے مقامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اردو میں خطاب کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وہ بات جس سے انگریز واقف تھے ہم نجانے کیوں اب تک اس سے واقف نہیں ہو سکے؟ ذریعہ تعلیم کی بار بار تبدیلی سے نئی نسلوں کا جو نقصان ہوتاہے اور معاشرتی تفاوت کی جو راہیں کھلتی ہیں، ہم اس سے بے خبرہیں یا بے نیاز۔ پچھلے دنوں ایک دوست نےیہ بتا کر حیران کر دیا کہ اب ہمارے سرکاری دفاتر اور ٹیلی فون کمپنیوں میں اردو پیغام رسانی کیلئے رومن حروف استعمال کیے جاتے ہیں۔ توجہ دلانے پر کہا جاتا ہے کہ ’’پالیسی یہی ہے‘‘!۔ یاللعجب؟ زباں چھوٹی سو چھوٹی تھی خبر لیجیے رسم الخط بھی جاتا رہا؟ دکانوں کے بورڈ ہوں یا گاڑیوں کے نمبر ہمارے ہاں انگریزی میں لکھے جاتے ہیں حالانکہ ملک میں انگریزی جاننے والے عوام کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر ہے پھرکیا یہ طریق کار ابلاغ کے اصولوں پر بھی پورا اترتا ہے؟ آپ جن لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کم از کم درجے میں زبان اور حروف تو وہ استعمال کیجیے جوان کی سماعتوں اور نگاہوں کیلئے مانوس ہوں۔