ناامیدی کے بڑھتے سائے
(رؤف حسن)
زندگی کا سفر خوشی اور دکھ بھرے لمحات رکھتا ہے۔ ایسا ہر تجربہ بہت سے سلسلہ وار اسباق چھوڑ جاتا ہے جنھیں ہم فطری رجحان کے علاوہ اپنی تشہیر اور جاہ طلبی کے عزائم کی وجہ سے نظرانداز کرنے کی غلطی کرتے ہیں۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ اس دنیا میں اور لوگ بھی ہیں جو ہماری طرح کے حقوق اور عزائم رکھتے ہیں، جو خواب دیکھتے ہیں اور انھیں عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
تاہم جب ہم مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پاتے کیوںکہ وہ غیر حقیقی ہوتے ہیں تو ہم عام طور پر اپنے گریبان میں جھانکنے سے گریز کرتے ہوئے انکی طرف انگشت نمائی کرتے ہیں جنھیں ہم اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار خیال کرتے ہیں۔ ایسا نتیجہ ہمیشہ منطق اور معقولیت سے تہی داماں ہوتا ہے، اور اس کے پیچھے ہماری لالچی فطرت کارفرما ہوتی ہے۔ جب ہم دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں تو یہ مزید تکلیف اور کرب کا باعث بنتا ہے۔ لیکن اس طرح مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتے ہیں، اور مایوسی اور بے اطمینانی کو جنم دیتے ہیں۔ طاقت کے استعمال کا مطلب ہے کہ ریاست اپنے ہی عوام کے خلاف ہو چکی ہے۔ لیکن افسوس، کبھی کھلے دل سے تجزیہ نہیں کیا جاتا کہ مسئلہ شروع کہاں سے ہوا تھا۔ چنانچہ جنگ جاری رہتی ہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کی شدت اور تلخی بڑھتی رہتی ہے۔
یہ پریشان کن صورت حال بے شمار دیگر چیلنجوں کو جنم دیتی ہے۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ داخلی کمزوریوں کی طرف واضح اشارہ ہے۔ اس طرح کے تنازعات معاشرتی توازن کو جتنا تباہ کرتے ہیں، اتنا ہی ان سے انتہا پسند عناصر کو تقویت ملتی ہے جو تباہی اور بربادی پھیلاتے ہیں۔ بہت سے دوسرے واقعات، جنھوں نے ماضی قریب میں قومی منظر نامے کو خاک وخون سے آلودہ کیا، کی طرح اس ہفتے کے اوائل میں بنوں چھاؤنی پر ہونے والا مہلک دہشت گرد حملہ بھی ایک واضح مثال ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ ان کی شدت اور فعالیت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ حملوں کا سلسلہ مزید علاقوں تک پھیل رہا ہے۔
اگرچہ انٹیلی جنس کی ناکامی اس طرح کے واقعات کی ایک وجہ ہے، اس سے معاشرے کے اندر تقسیم کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ موجودہ انتظامیہ کا (سیاسی) مخالفین کو دبانے کیلئے طاقت کا استعمال ایسے جواز میں تبدیل ہو جاتا ہے جس سے لوگوں، جو سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے، میں دشمنی کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔
ضروری ہے کہ ریاست اور اسکے ادارے لوگوں کے معاملات میں غیر جانبدار رہیں۔ لیکن جب وہ پرفریب لبادوں کے پیچھے اپنی اصلیت چھپاتے ہیں تو اس سے تقسیم بڑھ جاتی ہے جو لوگوں کو لڑاکا جتھوں میں بدل دیتی ہے۔ اس طرح قومی سیاسی ڈھانچے میں سنگین دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ پاکستان اس بیماری کی انتہا کا شکار ہے۔ اس سے غیر مساوی صورتحال جنم لیتی ہے۔ یہ تکلیف دہ ہے اور اسے دیر تک جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ واضح رخنے ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں، لیکن جن کے پاس انھیں پُر کرنے کی طاقت اور وسائل ہیں، وہ توازن کے بگاڑ کو تسلیم تک کرنے کیلئے تیار نہیں۔ جب ریاست کو ہوشربا چیلنجز کا سامنا ہے یہ طرز عمل نقصان اور تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
ابھرتی ہوئی صورتحال کی عکاسی ہماری خارجہ پالیسی کے مختلف اجزا سے بھی ہوتی ہے۔ یہ ایک معمہ ہے کہ شاہراہ دستور کے اس مقدس دفتر میں بیٹھے افراد نے ریاست کو اسکے پڑوسی کے مقابلے میں کمزور پوزیشن پر جانے کی اجازت کیوں دی۔ امریکی انخلا کے بعد مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کے خواب سے لے کر موجودہ کشیدہ صورت حال میں جب دہشت گردوں اور انتہا پسند گروہوں کے گروہ ملک کے مختلف مقامات کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں، تک یہ مثال ایک سنگین پالیسی کی ناکامی کی علامت ہے۔ یہ کوئی معمولی ناکامی نہیں۔ یہ اپنی جہت میں غیر معمولی ہے کیونکہ یہ ریاست اور اس کے لوگوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ فروری میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں پچھلے مہینے پیش آنے والے اسی طرح کے واقعات کی نسبت بڑا اضافہ ہواہے۔
پریشان کن صورت حال میں سے گزرتے ہوئے ہم تیزی سے اُس مقام تک پہنچ رہے ہیں جہاں سے شاید واپسی ممکن نہ رہے۔ ترقی کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود ریاست غیر قانونی اور نااہل حکمرانوں کی وجہ سے بہت سی خرابیوں کا شکار ہے۔ اقتدار کی راہداریوں میں انکی مسلسل موجودگی سماجی ڈھانچے میں دراڑوں کو گہرا کرتے ہوئے عوام کو مزید دکھ دے رہی ہے۔ 76برسوں میں بے روزگاری کی ریکارڈ تعداد کی وجہ سے عوام کی کسمپرسی بیان سے باہر ہے۔ ملک سے لوگ بہت بڑی تعداد میں ہجرت کرتے جا رہے ہیں کیوں کہ وہ موجودہ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے اپنی معاشی حالت میں بحالی کا کوئی امکان نہیں دیکھتے۔
واحد شے جو سستی ہے وہ ریاستی فنڈز ہیں جو حکمرانوں کی منشا اور ان کے فرضی کارناموں کی تشہیر پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ میڈیا آؤٹ لیٹس میں حالیہ دنوں شائع ہونے والا60 صفحات کا ضمیمہ اس کی ایک مثال ہے۔ ان کی نااہلی ایک اور نمایاں خصوصیت ہے جسے وہ نام نہاد فعالیت سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں 9ویں ایونیو پر حال ہی میں تعمیر کردہ اوور ہیڈ/ انڈر پاس کا امتزاج مسافروں کے لیے موت کا جال ہے۔ انڈر پاس کے عین وسط میں سست لین اچانک غائب ہو جاتی ہے، جو اپنی جگہ پر دیوار کے ساتھ بائیں طرف مڑ جاتی ہے۔ جیسے ہی کوئی پل کے اوور ہیڈ حصے پر جھٹکوں والے راستے پر چڑھنا شروع کرتا ہے، تیز رفتار لین عین وسط میں غائب ہو جاتی ہے، اور تین فٹ کی دیوار آپ کو گھور رہی ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کیلئے عملی طور پر دو طرفہ موت کا جال ہے جس کا تذکرہ جلد ہی ان کی مہان کامیابی کے طور پر ایک مرتبہ پھر جلی اشاعتوں میں کیا جائے گا۔
ناامیدی کی گہری ہوتی ہوئی فضا سے لے کر موت کا جال بچھانے تک کیا عوام کی جان سے کھیلنے کا کاروبار کبھی ختم ہو گا؟