ہے کوئی بھارتی مسلمانوں کا والی وارث؟
(محمد اظہارالحق)
بادشاہ بیمار پڑا! بہت سخت بیمار! کوئی دوا کام نہیں آ رہی تھی۔ کوئی علاج کارگر نہیں ہو رہا تھا۔ پھر اطبّا نے ایک عجیب وغریب نسخہ تجویز کیا۔ ایک نوجوان کا پِتّہ درکار ہو گا مگر صرف اس نوجوان کا جس میں فلاں فلاں خصوصیات ہوں! بادشاہ نے اشارہ کیا اور مملکت میں ڈھنڈیا پڑ گئی۔ بالآخر تلاشِ بسیار کے بعد ایک نوجوان مل گیا۔ اس میں وہ تمام خصوصیات تھیں جن کا طبیبوں نے کہا تھا۔ بادشاہ کی زندگی بچانے کے لیے نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا پِتّہ نکالنا تھا۔ اس کام میں دو رکاوٹیں تھی۔ ماں باپ اور عدالت! ماں باپ کے لیے شاہی خزانے کے منہ کھل گئے۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ عدالت نے فیصلہ دے دیا کہ ملک کی سلامتی اور عوام کے وسیع تر مفاد کا سوال ہے۔ اس لیے بادشاہ کی زندگی پر رعایا میں سے ایک فرد قربان کیا جا سکتا ہے۔ جلاد جب سر قلم کرنے لگا تو نوجوان آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسا۔ اتفاق ایسا تھا کہ بادشاہ نے یہ منظر دیکھ لیا۔ اس نے نوجوان سے پوچھا کہ یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے؟ نوجوان نے جواب دیا کہ اولاد کی حفاظت ماں باپ کرتے ہیں‘ میرے ماں باپ نے دولت لے کر مجھے فروخت کر دیا۔ انصاف عدالت نے دینا تھا۔ عدالت نے میرا قتل جائز قرار دیا ہے۔ آخری اپیل بادشاہ کو کرنی تھی۔ بادشاہ تو خود میری موت چاہتا ہے۔ اب اوپر اس لیے دیکھا ہے کہ خدا ہی آخری پناہ گاہ ہے۔
بھارتی مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ ان کے مفادات کی حفاظت ان کے ملک کی حکومت نے کرنی تھی۔ حکومت ہی تو ان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ انصاف کی توقع انہیں عدالت سے تھی۔ بھارتی عدالتیں مسلمانوں کی کون سی دوست ہیں! حفاظت کے لیے انہوں نے پولیس کے پاس جانا تھا۔ پولیس کا سربراہ امیت شاہ جیسا وزیر ہے‘ آر ایس ایس کا پکا پختہ پیروکار! آخری امید ایک کمیونٹی کی‘ ملک کا حکمرانِ اعلیٰ ہوتا ہے۔ حکمرانِ اعلیٰ مودی ہیں جن کے دامن پر گجرات کے مسلمانوں کا خونِ ناحق لگا ہے! ان کے اقتدار کا مقصد مسلمانوں پر زندگی تنگ کرنا ہے۔ اس کے بعد بھارتی مسلمانوں کا سب سے بڑا سہارا پاکستان تھا۔ لیکن ہائے قسمت!! پاکستان کی اپنی حالت قابلِ رحم ہے۔ جب مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا گلا گھونٹا تو پاکستان سوائے اس کے کہ کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دے‘ کچھ نہ کر سکا۔ اس سانپ نے‘ جس کا نام ادتیا ناتھ ہے‘ اور یو پی کا وزیر اعلیٰ ہے‘ مسلمانوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ شہروں کے سینکڑوں سال پرانے نام بدل رہا ہے۔ یہ صرف بھارت کا نہیں‘ برصغیر کے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ یہ نام ہماری میراث کا بھی حصہ ہیں۔ حکومت پاکستان نے تو خیر کیا احتجاج کرنا تھا‘ ہمارا میڈیا بھی اس ظلم کو پی گیا۔ اور وہ جماعتیں جنہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کا غم‘ اکثر وبیشتر‘ بے چین رکھتا ہے اور خبروں میں اِن رہنے کے لیے احتجاجی جلوس نکالتی رہتی ہیں‘ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں خاموش ہیں۔ بھارتی مسلما نوں کی آخری امید‘ دنیا میں وہ ممالک ہیں جہاں ہمارے مقدس ترین مقامات ہیں‘ عربی جن کی زبان ہے اور اللہ کے آخری رسولﷺ جہاں پیدا ہوئے اور جہاں ان کا وصال ہوا۔ مگر افسوس! صد افسوس! ان ملکوں نے بھارتی مسلمانوں کے سر پر ہاتھ تو کیا رکھنا تھا‘ مودی اور مودی حکومت کی وہ خدمتیں کیں اور کیے جا رہے ہیں کہ انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ کہیں اسے سب سے بڑا اعزاز دیا گیا تو کہیں مندر بنا کر اسے خوش کیا گیا۔ کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری بھارت میں کی جا رہی ہے۔ آج شاہ فیصل زندہ ہوتے تو ان کا ایک جملہ ہی بھارتی حکومت کا دماغ ٹھیک کر دیتا! سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ کا تصور آخر ہے کیا؟ بھارت میں جو ناقابلِ بیان سلوک مسلمانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘ اس پر امتِ مسلمہ کیوں خاموش ہے؟ پچاس سے زیادہ مسلمان ملکوں میں سے کسی میں اتنا دم خم نہیں کہ بھارتی سفیر کو بلا کر احتجاجی مراسلہ ہی پکڑا دیں! اس دفعہ ہولی کا تہوار آیا تو مسجدیں ترپالوں سے ڈھانک دی گئیں! کیوں؟ سینکڑوں سال سے ہولی منائی جا رہی ہے! کبھی کسی مسلمان نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ مسجدیں صرف اس لیے ڈھانکی گئیں کہ مسلمان احساسِ کمتری میں مبتلا ہوں۔ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اب دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز اور عیدین کی نمازیں‘ کسی سڑک پر یا کھلی جگہ پر نہ ادا کی جائیں۔ یہ پابندی ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں پر کیوں نہیں لگائی جاتی؟ کیا سڑک پر نماز ادا کرنے سے کمبھ میلے سے بھی زیادہ شور اور بد امنی ہوتی ہے؟ آسام میں صدیوں سے رہنے والے مسلمانوں سے شہریت کے کاغذات مانگے جا رہے ہیں! سول سروس میں‘ مودی دور میں‘ شاید ہی کوئی مسلمان آ رہا ہو! گائے کے نام پر اب تک سینکڑوں مسلمان قتل کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں گھر اُجاڑے جا چکے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت نے ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرتیں بھر دی ہیں۔ نہرو کا سیکولر بھارت عدم برداشت کی انتہاؤں کو چھُو رہا ہے۔ گاندھی جی کے قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
تازہ ترین زخم جو مسلمانوں کو پہنچایا گیا ہے‘ پوری امت مسلمہ کے لیے باعثِ شرم ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی املاک کو ہڑپ کرنے کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ ماضی میں نہ صرف حکمران بلکہ صاحبِ حیثیت اور آسودہ حال لوگ مسجدوں‘ امام بارگاہوں‘ خانقاہوں اور دیگر امور کے مصارف اور دیکھ بھال کے لیے اپنی جائیدادوں کا کچھ حصہ وقف کیا کرتے تھے۔ نوابوں کے عہد میں یہ سلسلہ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ یہ مذہبی املاک بی جے پی کی حکومت کی آنکھوں میں کانٹا بن رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے قانون سازی کر دی گئی ہے۔ بی بی سی کے مطابق ایک نیا بل 1995ء کے وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لایا گیا ہے۔ نئے بل کی شق کے مطابق صرف وہی شخص زمین عطیہ کر سکتا ہے جو مسلسل پانچ سال تک مسلمان رہا ہو اور عطیہ کی جانے والی جائیداد اس کی اپنی ملکیت ہو۔ نئے بل میں سروے کرانے کا حق وقف کمشنر کے بجائے کلیکٹر کو دیا گیا ہے۔ وقف املاک سے متعلق تنازع میں کلیکٹر کا فیصلہ مؤثر مانا جائے گا۔ اس بل کے مطابق وقف ٹریبونل کے فیصلے کو حتمی نہیں سمجھا جائے گا۔ ”وقف املاک‘‘ کی انتظامیہ میں ہندوؤں کو شامل کیا جائے گا حالانکہ ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں کسی غیر ہندو کا کوئی کردار نہیں! یہ ظالمانہ بل ایک ہولناک سکیم کی ابتدا ہے۔ سکیم یہ ہے کہ مسلمانوں کو نیست ونابود کر دیا جائے۔ ملازمتوں کے دروازے ان پر پہلے ہی بند ہیں۔ معاشرتی طور پر انہیں پہلے ہی تنہا کیا جا رہا ہے۔ وقف کے اس ترمیمی بل سے ان کے مذہب اور کلچر پر ایک اور مہلک وار کیا گیا ہے!
کیا پاکستانی سفارت خانے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ نہیں! تمام ملکوں میں متعین پاکستانی سفیروں‘ خاص طور پر مسلمان ملکوں میں تعینات شدہ پاکستانی سفیروں پر لازم ہے کہ وہاں کی حکومتوں کو‘ میڈیا کو اور سول سوسائٹی کو بھارت کے ان مسلمان دشمن اقدامات سے آگاہ کریں۔ رائے عامہ کو بیدار کریں اور مسلمانوں کو اصل حقائق سے روشناس کریں! عرب ممالک کی حکومتیں بھارت کو آسانی سے احساس دلا سکتی ہیں کہ بھارتی مسلمان اتنے بھی لاوارث نہیں کہ ظلم وستم کا ایک لامتناہی سلسلہ ان پر روا رکھا جائے اور مسلمان ممالک خاموش رہیں! ان ملکوں کی حکومتیں اگر مصلحت پسندی کا شکار ہیں تو کم از کم وہاں کے عوام کو تو صورتحال سے آگاہ کیا جائے!