مہنگی بجلی کا ڈرامہ
(رؤف کلاسرا)
وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کی قیمت میں گھریلو صارفین کیلئے سات روپے 41 پیسے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا ہے‘ جس سے عام آدمی کو یقینی طور پر ریلیف ملے گا۔ اگرچہ میرے خیال میں اتنی بڑی کمی کے باوجود کچھ عرصہ بعد لوگوں کو یہ نرخ بھی زیادہ لگنے لگیں گے۔ یہ انسانی مزاج ہے کہ ہم ہر چیز سستی اور اچھی چاہتے ہیں۔ مجھے چند سال پہلے کے وہ دن یاد آتے ہیں جب بجلی کا یونٹ پندرہ سے بیس روپے تک کا تھا۔ اور پھر پچھلے سال یہ 65روپے تک چلا گیا اور عام آدمی کی چیخیں نکل گئیں بلکہ ان کی بھی جو کسی حد تک مہنگی بجلی افورڈکر سکتے تھے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ قومی اسمبلی میں عمر ایوب‘ جو اُس وقت توانائی کے وزیر تھے‘ نے بتایا تھا کہ درآمدی ایل این جی سے بنائی جانے والی بجلی 14 روپے فی یونٹ پڑ رہی تھی جبکہ درآمدی تیل سے بننے والی بجلی کا ریٹ 22 سے 25روپے فی یونٹ تھا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ اچانک تین چار سالوں میں بجلی کی قیمت 65روپے فی یونٹ تک کیسے پہنچ گئی؟ یہ بات ہم سے ہضم نہیں ہو گی کہ اس کی بنیاد وزیر خزانہ شوکت ترین نے جنوری 2022ء میں رکھی تھی جب انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ختم کر دی جس سے ڈالر کو پر لگ گئے۔ اس حوالے سے شیخ رشید نے کہا تھا کہ عمران خان تحریک عدم اعتماد کو آتے دیکھ کر اگلی حکومت کیلئے بارودی سرنگیں بچھا آئے ہیں۔ میں عمران خان کو یہ شک کا فائدہ دینے کو تیار ہوں کہ گڈ گورننس کے حوالے سے ان کی سوجھ بوجھ نہ ہونے کے برابر تھی‘ انہیں اندازہ نہیں ہو گا کہ آئی ایم ایف کی ڈیل توڑنے کا ملک اور لوگوں کو کیا نقصان ہو گا‘ وہ صرف ہر قیمت جنرل باجوہ یا زرداری اور شریفوں کو سبق سکھانا چاہتے تھے اور اس انتقامی سوچ میں وہ احتیاط کا دامن چھوڑ بیٹھے اور آئی ایم ایف کی ڈیل جان بوجھ کر توڑی۔ لیکن شوکت ترین کو تو اچھی طرح علم تھا کہ یہ ڈیل توڑنے سے ملک کو کیا نقصان ہوگا۔ بعد ازاں جب پی ڈی ایم کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف سے دوبارہ بات چیت کی تو اسی شوکت ترین نے پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری اور خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کو ہدایات دیں کہ آئی ایم ایف کی دوبارہ ڈیل نہ ہونے دیں۔ محسن لغاری نے جب یہ سوال کیا کہ اس اقدام سے ریاست اور ملک کو نقصان ہو سکتا ہے تو شوکت ترین نے کہا کہ ہاں ہو سکتا ہے لیکن یہ بانی کا حکم ہے۔ کیا بانی کا حکم اتنا بڑا تھا کہ اس کیلئے ریاست اور عوام کے مفادات کو داؤ پر لگا دیا گیا؟ شوکت ترین کو تو خود عمران خان کو سمجھانا چاہیے تھا کہ یہ کام ملک اور قوم کیلئے نقصان دہ ہے‘ میں نہیں کروں گا۔ لیکن محض اپنے عہدے کیلئے انہوں نے وہ کام کیا جو اگر سعودی عرب‘ ایران‘ چین‘ روس یا شمالی کوریا میں کیا جاتا تو وہاں فوری اور سخت سزائیں ہوتیں کہ تم لوگوں نے ریاست کو ڈبونے کے کوشش کی‘ آپ کے غلط اقدام سے ڈالر اوپر گیا‘ مہنگائی کا طوفان آیا اور ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ گیا۔ خود شوکت ترین کہتے تھے کہ ڈالر کا اصل ریٹ 155روپے تھا اور پھر انہوں نے اسے راتوں رات 182تک پہنچا دیا کیونکہ وہ اپنے تئیں وہ باردوری سرنگیں بچھا رہے تھے جس کا اشارہ شیخ رشید نے خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد دیا تھا۔ تب سبھی وزیر عمران خان کو خوش کرنے کیلئے ملکی مفادات کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ غصہ جنرل باجوہ‘ زرداری اور شریفوں پر تھا لیکن سب نکالا ملک اور عوام پر۔ اگر آئی ایم ایف کی ڈیل قائم رہتی تو ڈالر کبھی 155/160روپے سے اوپر نہ جاتا۔ لیکن خان اور ترین کو علم تھا کہ جب ڈالر اوپر جائے گا تو لوگوں کا جینا حرام ہو جائے گا اور وہ اس کا غصہ نئے حکمرانوں پر نکالیں گے۔ اگر خان کے سیاسی حریفوں میں سمجھ بوجھ ہوتی تو جب عمران خان کے آخری دنوں میں ڈالر 182 روپے کا ہو گیا تھا‘ وہ تحریک عدم اعتماد واپس لے لیتے‘ کہ خان صاحب اب آپ ہی معیشت سنبھالیں کیونکہ آئی ایم ایف کو تو آپ لات مار چکے ہیں۔ چند ماہ بعد لوگوں نے خود ہی خان کو وزیراعظم ہاؤس نکال دینا تھا۔
دوسری زیادتی اس ملک اور عوام کے ساتھ نواز شریف اور اسحاق ڈار نے مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ کے مسند سے ہٹا کر کی۔ میں مفتاح اسماعیل پر بعض وجوہات کی بنا پر تنقید کرتا رہا ہوں لیکن اگر ستمبر 2022ء میں مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل سائن کرلیتے تو ڈالر 220 روپے پر رک جاتا۔ مگر اسحاق ڈار کو لگا کہ اگر مفتاح اسماعیل معاملات سنبھال لیں گے تو ان کو کون پوچھے گا ‘لہٰذا انہوں نے نواز شریف کے سمدھی ہونے کا فائدہ اٹھایا اور مفتاح اسماعیل کو تبدیل کرایا اور آتے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل سائن کرنے سے انکار کر دیا کہ آئی ایم ایف کی معاونت کے بغیر معیشت اور مہنگائی کو کنٹرول کروں گا۔ اس مقصد کیلئے سعودیہ اور دبئی کے دورے کیے گئے لیکن انہوں نے کہا کہ آپ آئی ایم ایف سے بات کریں۔ یوں چھ ماہ تک ڈیل سائن نہ کرنے کی وجہ سے ڈالر 340روپے تک جا پہنچا۔ ڈار صاحب نے جو ڈالر 220روپے پر مفتاح اسماعیل سے لیا تھا‘ اسے تین سوسے اوپر لے جا کر اسی آئی ایم ایف سے ڈیل سائن کر لی جسے وہ برا بھلا کہتے تھے۔ یوں پہلے جو کام شوکت ترین نے عمران خان کو خوش کرنے کیلئے ملک کو نقصان پہنچا کر کیا‘ وہی کام بعد میں اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے ڈیل میں تاخیر کرکے کیا۔ یہ تھے ملک کے دو وزیر خزانہ۔ ایک اپنے لیڈر عمران خان کو خوش کر رہا تھا کہ دیکھنا اب کیسے مخالفین کی چیخیں نکلیں گی اور دوسرا وزیر مفتاح اسماعیل کے ساتھ دشمنی نبھا رہا تھا۔ اور اس دوران پوری قوم رگڑی گئی۔
اب آپ پوچھیں گے کہ ڈالر کا مہنگی بجلی یا مہنگائی سے کیا لینا دینا۔ لینا دینا ایسے ہے کہ پاکستان گندم‘ چینی‘ کپاس اور خوردنی تیل وغیرہ باہر سے ڈالروں میں منگواتا ہے۔ جب ڈیڑھ‘ دو سال میں ایک ڈالر 155سے تین سو روپے سے اوپر چلا جائے گا تو یقینا گندم‘ چینی‘ کپاس اور دیگر اشیا کی قیمت بھی بڑھے گی۔ عمران خان کی حکومت کے ایک سال میں تو دس ارب ڈالرز کی گندم‘ چینی اور کپاس درآمد کی گئی تھی۔ پھر ہماری بجلی ڈالروں میں درآمد شدہ ایل این جی اور تیل پر بن رہی ہے‘ تو اس کی قیمت بھی ڈالر سے روپے میں کنورٹ ہوتی ہے۔ جب ڈالر سستا ہو گا تو تیل اور ایل این جی بھی سستی ہو گی۔ جب ڈالر 140روپے کا تھا تو بجلی کا ریٹ پندرہ سے بیس روپے فی یونٹ تھا۔ اب ڈالر کا ریٹ 280 روپے ہے تو بجلی کا ریٹ 65روپے فی یونٹ تک چلا گیا۔ پاکستان ہر سال ایک اندازے کے مطابق 35ارب ڈالرز کی توانائی مصنوعات (تیل/ایل این جی) درآمد کرتا ہے جو بجلی بنانے یا ٹرانسپورٹ میں کام آتی ہے۔ اب بتائیں کہ جب دسمبر 2018ء میں ڈالر کا ریٹ 140روپے تھا اور اب ڈالر ریٹ 280 روپے ہے تو مہنگائی کیسے کم ہو سکتی ہے؟
اس سب کا کریڈٹ اگر مجھے دینا ہو تو میں عمران خان‘ شوکت ترین‘ نواز شریف اور اسحاق ڈار کو دوں گا جنہوں نے ذاتی مفادات کے لیے ایسے اقدامات کیے کہ آج ہم مہنگائی کا شکار ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سب سے زیادہ نجی بجلی گھر تو سیاستدانوں کے ہیں۔ انہوں نے خود بجلی گھروں سے کتنا لمبا مال کمایا ہے۔ شہباز شریف‘ نواز شریف اور سیف الرحمن کے بچوں نے مہنگی بجلی کے ان کارخانوں سے کتنا کچھ کمایا ہے؟