کالم

معافی،مذاکرات اور عمران خان

(بابر اعوان)
آئیے ریاست کے منیجر کہلانے والے جدید دور کے حکمرانوں کی ترجیحات دیکھ لیں۔ ملک کے دو مغربی صوبوں میں رات کے سفر پر پابندیاں ہیں۔ کوئی ادارہ‘ کوئی فورم‘ کوئی پارلیمان‘ کوئی جرگہ ایسا نہیں جو آگ کے اس الاؤ پر پانی کا چھینٹا مار سکے۔ حکمران اشرافیہ میں اس بلبلِ صحرا جتنا شعور یا رحمدلی باقی نہیں جو نارِ نمرود کو ٹھنڈا کرنے کیلئے نازک اندام مگر باشعور بلبل صحرا میں نغمہ آرائی کے بجائے چونچ میں پانی بھر بھر لاتی رہی اور نارِ نمرود کو بجھانے کی کوشش میں لگی رہی۔ ایسا لگتا ہے یہ کوئی ایسی حکومت ہے جو یہاں مال بناتی ہے‘ کھاتی ہے‘ اُڑاتی ہے اور معیشت کی جان نکال کر اسے سات سمندر پار لے جاتی ہے۔ پارلیمنٹ سے سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کو باہر رکھ کر جو بریفنگ کروائی گئی اس کی خبر میرے پاس تین ذرائع سے پہنچی۔ دو عدد ایسی وزارتیں ہیں پارلیمان چلانا جن کی ذمہ داری ہے‘ وہ انتہائی دل گرفتہ اور بے حال تھیں۔ چشم دید کہتے ہیں کہ نہ کوئی بحث ہوئی نہ کوئی معنی خیز گفتگو‘ نہ کوئی سوال اٹھائے گئے‘ جواب کہاں سے آتے؟ بس تقریریں تھیں‘ خطبہ نما لفاظی میں لپٹی ہوئی خالی تقریریں۔ بلوچستان‘ جس صوبے کا یہ مسئلہ ہے‘ کے کسی نمائندے کو آہ تک بھرنے کی اجازت نہ ملی۔ ایسے میں غیبی امداد نہیں آتی غیب سے عذاب نازل ہوتا ہے۔ یہی انسانیت کی تاریخ اور قدرت کا اٹل قانون ہے۔ اب تو عام لوگوں کو بھی ریاست لاوارث سی لگنے لگی ہے۔ ایسے میں محی الدین اورنگز یب المعروف عالمگیر کا نام ذہن میں آیا ہے۔ جس نے اکبرِ اعظم کی ویلفیئر ریاست کو ہارڈ سٹیٹ میں تبدیل کیا تھا۔ اتنی ہارڈ جس کا غیظ و غضب وارث شاہ کے استاد حضرت غلام مرتضیٰ کو سولی پر لٹکا کر بھی ٹھنڈا نہ ہو سکا۔ اورنگزیبی طرزِ حکمرانی نے ایسی ہارڈ سٹیٹ دریافت کی جس میں دارا شکوہ کے ساتھ ساتھ اورنگزیب نے بھائیوں‘ بھتیجوں کی پہلے آنکھیں نکلوائیں پھر ان کو قبروں میں پہنچا کر دم لیا۔ یہ اندرونی انتقام کی آگ بجھانے والی انتہائی سفاک بے رحمانہ کارروائی تھی۔ خاندان سے باہر اسی بیرونی آگ نے سکھ مذہب کے آٹھویں گرو گوبند سنگھ کے دو نابالغ بچوں کو سرہند کے نزدیک ندی کنارے دیوار میں چنوا دیا۔ یہ دیوار میں نے سرہند جاتے راستے میں رک کر دیکھی تھی۔ اورنگی ہارڈ سٹیٹ ماسٹر نے اپنے لوگوں کی خوشیوں اور زندگیوں سے 49سال تک ہارڈ ہٹنگ کا ایسا کامیاب کھیل کھیلا جس کا نتیجہ ظہیر الدین بابر کے خونِ جگر سے تخلیق شدہ مغلیہ سلطنت کے جنازے کے طور پر نکلا۔
آپ غیر جانبدار تاریخ کی جو مرضی کتاب کھول لیں‘ اورنگی سخت گیر طرزِ حکمرانی کے بعد جب محی الدین کی قبر کھودی جا رہی تھی‘ عین اُسی وقت ہندوستان کے کونے کونے میں مغلیہ سلطنت کا جنازہ اُٹھ رہا تھا۔ ایسا جنازہ جسے افغان بادشاہوں نے کندھا دینے کی بار بار کوشش کی مگر ناکام رہے۔ دورِجدید کے رنگیلے‘ ریاست بچانے کے لیے دو نکاتی PRایجنڈا پر مسلسل اصراری ہیں۔رانگلے راج کا اولین ایجنڈا: پورے پاکستان سے 17سیٹیں جیتنے والی پارٹی کی کابینہ عمران خان کے خلاف ”راگِ معافی‘‘ الاپ رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ عمران خان نو مئی کے واقعات پر معافی مانگیں۔ معافی کا مطالبہ کرنے والوں میں سبزہ زار کیس‘ ماڈل ٹاؤن ون اور ماڈل ٹاؤن ٹو قتلِ عام کے نامزد ملزمان بھی شامل ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اُس روز دو واقعات ہوئے۔ صبح کے واقعے میں عمران خان کو نقاب پوش اٹھا لے گئے۔ دوسرے واقعات کے وقت عمران خان نامعلوم افراد میں شمار ہو رہے تھے۔ اس کے باوجود ذرا سی فہم رکھنے والا شخص وہی کہے گا جو عمران خان نے کہہ کر اصل سوال کھڑا کیا۔ عمران خان نے کہا کہ پولیس اور دوسرے متعلقہ لوگ جہاں احتجاجی مظاہرین نکلے اور کسی بلڈنگ تک پہنچے وہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے لائیں۔ پی ٹی آئی کا کوئی ذمہ دار شخص ملوث نکلا تو میں معافی مانگ لوں گا۔
رانگلے راج کا ایجنڈا ثانی: پچھلے ہفتے ملاقات میں مذاکرات کے حوالے سے میں نے عمران خان سے کئی سوال پوچھے۔ آج اتنا کہنا کافی ہے کہ عمران خان نے مذاکرات کے دروازے بند کب کیے تھے؟ ان کا مؤقف سب جانتے ہیں دہرانے کی ضرورت نہیں مگر مذاکرات کے نام پر جتنا شور رجیم نے مچایا اس کا ایک ہی سبب ہو سکتا ہے‘ انجانا خوف۔ آپ ٹھیک سمجھے! کرسیاں چھن جانے کا خوف۔ عمران خان مجھے کہہ رہے تھے کہ یہ ملک میرا ہے‘ اس کے ادارے قوم کے ہیں۔ قوم کو اعتماد میں لینے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے صوبے بلوچستان اور پڑوسی برادر اسلامی ملک افغانستان سے جھگڑے کے بجائے ڈائیلاگ کیا جائے۔
پچھلے ساڑھے تین سال میں معافی‘ مذاکرات اور عمران خان۔ اگر کوئی گوگل سے اس کا ڈیٹا اکٹھا کرے تو یہ لفظ کروڑوں نہیں اربوں بار لکھے اور بولے گئے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کی ساری طاقت ان تین لفظوں میں پھنس کر رہ گئی۔ اگلے روز انگریزی میں Facts and Figuresکے ساتھ پاکستانی معیشت اور ملک کے مستقبل کے بارے میں تحقیق سامنے آئی۔ یہ تو حکومتی کار پر داز بھی مان رہے ہیں کہ ملکی معیشت قرضوں کے وینٹی لیٹر پر زندہ ہے۔ پاکستان ادارۂ شماریات کے اعدادو شمار کہتے ہیں کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں معاشی شرح نمو 1.54فیصد ہے۔ پچھلے دس سال میں یہ معاشی ترقی کی کم ترین سطح پر ہے۔ معیشت بحال ہو گئی کی سینہ کوبی کر کرکے جو نتیجہ نکلا وہ سرکاری محکمے کے منہ سے آپ کے سامنے ہے۔ بجلی سستی کرنے کے نام پہ نوٹنکی کھیلا گیا۔ اصل سوال یہ ہے کہ پچھلے ساڑھے تین سال میں صفر بجلی پیدا کرنے والی پرانی مشینوں کے مالکان کو قومی خزانے سے کتنے پیسے ملے؟ 22اگست 2024ء کی تاریخ سب کو یاد ہے۔ صبح چاربجے عمران خان کی کال کوٹھڑی کا دروازہ کھولا۔ سرکار نے لوگ سرکاری گاڑیوں کے جلو میں گھروں سے جگائے اور نیم شب کے مذاکرات سجائے۔ طعنہ دینا ہے تو اس پر دو۔ عمران خان ایسا قیدی ہے جس کے خلاف گھڑی‘ ٹیبل لیمپ‘ ٹیبل کلاک اور چمچے سستے خریدنے کے مقدمات گھڑے گئے۔ وہ قوم کے ساتھ حال مست ہے‘ اسے ستاروں کی چال اور چال بازیاں مرعوب نہیں کر سکتیں۔ بہت جگہ معقول آوازیں اُٹھ پڑی ہیں عمران خان کو زیادہ دیر پابندِ سلاسل رکھنے سے اجتماعی مستقبل بچانے میں مزید دیر نہیں کی جا سکتی۔
2019ء میں لندن سے چھپنے والی کتاب میرے سامنے ہے۔ ترک ایوارڈ یافتہ ناولسٹ Ece Temelkuran۔ اس خاتون نے گارڈین‘ نیو یارک ٹائمز‘ نیو سٹیٹس مین‘ فرینک فیئرڈ الجمینی اور ڈیل سپیگل جیسے عالمی صحافتی اداروں میں کام کیا۔ متعدد عالمی ایوارڈ جیتے۔ کتاب کا نام ہے How to Lose a Country۔ فیصلہ سازو کتاب کا باب Seven Stepsپڑھ لو۔
دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رکتا ہے
کون سے بند سے سیلابِ وفا رکتا ہے
منزلیں آکے پکاریں گی سفر سے پہلے
جھک پڑے گا درِزنداں مرے سر سے پہلے

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button