سوفٹ سٹیٹ‘ ہارڈ سٹیٹ
(جاوید حفیظ)
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے مطابق دہشتگردی سے مؤثر طریقے سے نپٹنے کیلئے ملک کو ہارڈ سٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے تو ریاست کے نقصانات کم ہو سکتے ہیں اور ہمارے جوانوں کی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ یہ رائے یقینا اہم ہے لیکن ماضی قریب کے عالمی منظر نامے کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ طاقت کا استعمال انتہا پسندی کو ختم کرنے کیلئے کہیں کامیاب ہوا ہے تو کئی ملکوں میں ناکام بھی ہوا ہے‘ مثلاً مصر میں انتہا پسندی کو طاقت سے دبا دیاگیا یعنی وہاں عسکری حل کامیاب رہا لیکن میانمار (برما) اور شام میں یہ حل ناکام رہا۔
سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سوفٹ سٹیٹ سے کیا مراد ہے۔ سوفٹ سٹیٹ کی اصطلاح سب سے پہلے سویڈن کے نوبل انعام یافتہ اکانومسٹ Gunnar Myrdal کی شہرہ آفاق کتاب” Asian Drama‘‘میں استعمال کی گئی۔ یہ اُس کی دس سالہ ریسرچ کا نچوڑ تھا۔ مرکزی نقطہ یہ تھا کہ ایشیائی معاشروں میں ڈسپلن کا فقدان ہے۔ اپنی استعماری بیک گرائونڈ کی وجہ سے یہاں کے لوگ اپنی حکومتوں کے مثبت اقدام کو بھی منفی سمجھتے ہیں۔ ان ممالک میں آبادی کی تیز گروتھ ترقی کے ثمرات کو کھا جاتی ہے۔ یہاں کا ماحول ترقی یافتہ ممالک سے مختلف ہے۔ کرپشن ایشیائی ممالک میں عام ہے لہٰذا بہت سے ایشیائی ممالک غربت کے دائرے میں پھنس جاتے ہیں۔ اس کتاب میں مرڈل نے ترقی یافتہ ممالک کو مشورہ دیا کہ وہ پسماندہ ممالک کو ترقیاتی قرضے دے کر اپنے وسائل کو ضائع نہ کریں۔ کتاب کا لبِ لباب یہ تھا کہ سوفٹ سٹیٹ میں قومی اہداف حاصل کرنے کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے۔
یہاں ایک اور اہم کتاب کا ذکر ضروری ہے جو صرف پاکستان کے بارے میں ہے۔ برطانوی پروفیسر Anatol Lievenکی یہ کتاب پاکستان کے بارے میں اہم سٹڈی ہے۔ لیون نے پاکستان میں بطور جرنلسٹ کام کیا اور پھر Kings collegeلندن میں پڑھانے لگے۔ ان کے پاکستان کے بارے خیالات عمیق مشاہدے کی غمازی کرتے ہیں۔ کتاب کا عنوان Pakistan: A Hard Countryہے جو 2011ء میں شائع ہوئی تھی۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں: ”پاکستان ایک منقسم، غیر منظم، اقتصادی طور پر پسماندہ، کرپٹ، پرتشدد، اکثر غریبوں اور خواتین کے بارے میں بے رحم معاشرہ ہے اور دہشت گرد گروہوں کی آماجگاہ ہے لیکن ملک پھر بھی چل رہا ہے۔ یہ ایک سخت جان سٹیٹ اور معاشرہ ہے جس میں گر کر دوبارہ کھڑے ہونے کی سکت موجود ہے‘‘۔ پروفیسر لیون نے اس بات کا بھی اقرار کیا ہے کہ پاکستانی مسلح افواج اعلیٰ ٹریننگ کی بدولت اچھے ڈسپلن سے سرشار اور طاقتور ہیں۔ مسلح افواج کے علاوہ مصنف پاکستان سول سروس کا بھی مداح ہے اور پاکستان میں موٹرویز کے جال نے بھی اسے متاثرہ کیا۔ پاکستان کے بارے میں اناطول لیون کا کہنا ہے کہ ریاست کی جانب سے یہاں فرد کو تحفظ مغربی ممالک کے مقابلے میں خاصا کم ملتا ہے لیکن فیملی یونٹ مضبوط ہونے کی وجہ سے افراد کو اپنے عزیزوں سے سپورٹ ملتی رہتی ہے اور اسی وجہ سے یہ معاشرہ قائم ہے‘ ورنہ پاکستان کے ہی ایک دانشور طارق علی نے 1983ء میں کہہ دیا تھا کہ خدانخواستہ یہ سماج قریب المرگ ہے۔ اب موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی پاکستان ایک سوفٹ سٹیٹ ہے؟ مرڈل کی تشریح کے مطابق سوفٹ سٹیٹ میں قومی اہداف حاصل کرنے کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے۔ ہمارے قومی اہداف میں اولین ہدف عوام کو اچھا معیارِ زندگی فراہم کرنا ہے اور اس ہدف کے حصول میں ہم پچھلے تین سال میں ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کو سوفٹ سٹیٹ کہا جا سکتا ہے۔ پچھلے چند عشروں سے ہم اپنا خرچ پورا کرنے کے برابر ٹیکس وصول نہیں کر پا رہے اور اسی وجہ سے ہمیں بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ہے، یہ بھی ہماری سوفٹ سٹیٹ ہونے کی نشانی ہے۔
کسی بھی ملک میں آئین سب سے اعلیٰ و ارفع قانون ہوتا ہے، آئین میں ہمارے اہم قومی اہداف بھی درج ہیں مثلاً ہمارے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ پرائمری تعلیم ہر بچے کو دینا ریاست کا فرض ہے مگر دو کروڑ سے زائد پاکستانی بچے سکول سے باہر ہیں۔ ہمارے آئین میں لکھا گیا تھا کہ کوٹہ سسٹم محدود مدت کیلئے ہے لیکن اب لگتا ہے کہ کوٹہ سسٹم ابد تک چلے گا۔ ہمارے آئین میں 1973ء میں لکھا گیا تھا کہ پندرہ سال بعد سرکاری زبان اُردو ہو گی لیکن ہمارے ہاں سرکاری خط و کتابت اب بھی انگریزی میں ہو رہی ہے۔2014ء میں ہم نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک جامع نیشنل ایکشن پلان بنایا لیکن اس کے چند نکات پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ہم نے کتنے الیکشن کرائے جو اکثر و بیشتر متنازع رہے۔1970ء میں ایک الیکشن غیر متنازع ہوا مگر ہم نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ فروری 2024ء کے الیکشن کو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا۔ یہ الیکشن ہماری تاریخ کا سب سے متنازع الیکشن رہا لیکن 13 ماہ میں ہمارے ٹریبونل یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ مجموعی طور پر کتنے نتائج صحیح تھے اور کتنے غلط۔ تو پھر پاکستان کو سوفٹ سٹیٹ نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو سوفٹ سٹیٹ ہم نے خود بنایا ہے۔ جب پاکستان بنا تو ہمارے مسائل بہت گمبھیر تھے۔ لاکھوں مہاجروں کو زمینیں اور گھر الاٹ کرنا آسان نہ تھا لیکن یہ کام ہماری بیورو کریسی نے کر دکھایا۔1960ء کی دہائی میں ہمارا ملک قابلِ رشک ترقی پذیر ملک تھا۔ ہمارے تعلیمی ادارے بہت اچھے تھے۔1950ء کی دہائی میں شہروں میں رات کو سائیکل اور تانگہ لائٹ کے بغیر چلانا ناممکن تھا۔ نہروں کی پٹریاں ہموار اور صاف ستھری تھیں۔ سرکاری محکمے فعال تھے‘ عوام کے دلوں میں قانون کا احترام تھا۔
آیئے اب یہ دیکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے ملک کو سوفٹ سٹیٹ کیسے بنایا۔ نو سال تک تو ہم نے آئین ہی نہیں بنایا جو آئین 1956ء کے آئین کے ساتھ جو کھلواڑ گزشتہ تین سال میں ہوا ہے وہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اپنی سول سروس کو ہم نے سیاستدانوں کی باندی بنا دیا، اصل میں سول سروس کا کام نیوٹرل امپائر والا تھا مگر وہ نہیں رہا۔ اب ایک سیاسی پارٹی مطالبہ کر رہی ہے کہ پنجاب میں جہاں جہاں اس کے منتخب نمائندے ہیں ڈی سی اور ایس پی اس کی مرضی کے لگائے جائیں۔ آزاد عدلیہ کا موہوم سا تصور جو تھا وہ بھی کافور ہو گیا اور یہ کام کسی دشمن نے نہیں کیا ہم نے خود کیا ہے۔قومی ایئر لائن اور پاکستان ریلوے کو ہم نے سفارشی بھرتیوں سے لاغر کردیا۔ نیب اور ایف آئی اے کا نیوٹرل امیج ہم نے خود ختم کیا۔ پھر بھی پروفیسر اناطول لیون ہمیں پاس مارکس دینے کو تیار ہے۔ اور یہ بھی پیش نظر رہے کہ ایشیائی معاشروں کا جو منفی نقشہ مرڈل نے کھینچا تھا چین، انڈیا، انڈونیشیا اور ملائیشیا نے اسے غلط ثابت کیا ہے۔تو پاکستان ہارڈ سٹیٹ یعنی باصلاحیت ملک کیسے بن سکتا ہے؟ چند تجاویز درج ذیل ہیں۔
ہمارے ملک کو آزادانہ، شفاف اور بے لاگ انتخابات کی ضرورت ہے۔ نتائج جو بھی نکلیں انہیں تسلیم کیا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ کا انتخاب مقابلے کے امتحان کے ذریعہ کیا جائے۔ پولیس کا پروفیشنل معیار ٹھیک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سپیشل سروسز کے ریٹائرڈ آرمی کے جوان جن کی عمر 40سال سے کم ہے انہیں پولیس میں بھرتی کیا جائے۔ انکم ٹیکس دینے والے سوٹاپ کے لوگوں کی فہرست ہر سال شائع کی جائے۔ اسی طرح سے بینک قرضے معاف کرانے والوں کی بھی لسٹ اخباروں میں شائع کی جائے۔ ہمارے پولی ٹیکنیک اور انجینئر نگ یونیورسٹیاں ورلڈ کلاس ہوں۔سول سروس کو سیاسی دبائو سے دور رکھا جائے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن لڑنے کیلئے گریجوایٹ ہونے کی شرط بحال کی جائے۔نصف سے زیادہ جائیداد بیرون ملک رکھنے والوں پر ممبر اسمبلی بننے کی ممانعت ہو۔