رائے ریاض حسین،ایک عہد ساز شخصیت کا روشن سفر


“رائے ریاض حسین کی خودنوشت “رائےعامہ” صرف یادداشتوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں چھپے سربستہ رازوں کا آئینہ دار ایک ایسا مکالمہ ہے، جو سرکاری پردوں کو چاک کرتے ہوئے قاری کو سچائی کے کٹھن مگر روشن راستے پر گامزن کرتا ہے۔ یہ کتاب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے کہیں تلخ حقائق سے روشناس کراتی ہے اور کہیں امید کی کرن دکھاتی ہے۔”
(علامہ عبد الستار عاصم)
کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جب ان کے ذکر کا ارادہ کریں تو الفاظ کی وسعت بھی تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگتی ہے۔ ان کے کارنامے اس قدر بلند مرتبت ہوتے ہیں کہ خیال کی بلند پروازی بھی ان کی رفعتوں تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت، جو میرے دل کے نہایت قریب اور روح کی گہرائیوں میں پیوست ہے، محترم رائے ریاض حسین صاحب کی ہے۔
میں اپنی بساط کو ہرگز اس قابل نہیں پاتا کہ ان کے شایانِ شان کوئی تحریر رقم کر سکوں۔ ان کا مقام و مرتبہ اس سے کہیں بلند ہے کہ میری خامہ فرسائی اس کی ہمسری کر سکے۔ تاہم، ان کی بے پایاں محبت، شفقت اور قربت نے مجھے اس علمی و ادبی خانوادے کا حصہ بننے کا جو شرف بخشا ہے، وہ میرے لیے باعثِ افتخار ہے۔ یہی محبت کا حوصلہ ہے جو میرے قلم کو جسارت دے رہا ہے کہ چند سطور نذرِ عقیدت پیش کر سکوں، اگرچہ یہ ایسا ہی ہے جیسے آفتابِ جہاں تاب کے حضور چراغاں کرنے کی جسارت کی جائے۔
ان کے علم کا اجالا، ان کی فکر کی تابانی، اور ان کے کردار کی درخشانی مجھ جیسے طالبِ علم کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گی۔
محترم جناب رائے ریاض حسین اُن گنے چنے خوش نصیبوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی انسان دوستی کے چراغ سے منور کی۔ وطنِ عزیز سے ان کی محبت خالص، بے غرض اور غیر متزلزل ہے۔ یہ عشق ان کے رگ و پے میں یوں رچا بسا ہے کہ ان کی ہر بات اور ہر عمل میں اس کا عکس جھلکتا ہے۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستگی کے دوران، چار وزرائے اعظم کے پریس سیکرٹری کی حیثیت سے انہوں نے اپنی ذمہ داریاں غیر معمولی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھائیں۔
ان کی خدمات صرف ملکی سطح تک محدود نہیں رہیں بلکہ انہوں نے بھارت، جاپان اور سری لنکا میں بھی پاکستان کی آواز کو دنیا تک موثر انداز میں پہنچایا۔ رائے صاحب کی شخصیت اپنے اندر خلوص، وقار اور فکری گہرائی کا ایک روشن مینار ہے، جس کی روشنی سے بے شمار دل منور ہوئے۔
جناب رائے ریاض حسین کا تعلق جھنگ کے ایک معزز راجپوت زمیندار خاندان سے ہے۔ ان کے والد محترم رائے محمد اشرف ایک دیانت دار، اصول پسند اور علم دوست شخصیت تھے، جنہوں نے ایمانداری اور راست بازی کی درخشاں مثالیں قائم کیں۔ ان کی والدہ عبادت گزار اور سلیقہ شعار خاتون تھیں، جنہوں نے اپنے گھر کو محبت، تہذیب اور نظم و ضبط کا گہوارہ بنایا۔ اس پاکیزہ ماحول میں پروان چڑھ کر رائے ریاض حسین نے خاندانی روایات، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور علم دوستی کو اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیا۔
تعلیم کے میدان میں بھی رائے صاحب نے اپنی خاندانی روایت کو نہایت وقار سے آگے بڑھایا۔ اُن کے والد رائے محمد اشرف 1940ء کے گریجویٹ تھے، اُس زمانے میں جب تعلیمی اسناد کو فخر کا زیور سمجھا جاتا تھا۔ رائے ریاض حسین نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے کیا اور تقریباً پانچ برس تک تدریس کے شعبے میں جغرافیہ کے لیکچرر کے طور پر خدمات انجام دیں، علم کی روشنی بانٹنے کو انہوں نے عبادت کا درجہ دیا۔
تاہم، ان کے خواب صرف درسگاہوں تک محدود نہ تھے۔ انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان شاندار کامیابی سے پاس کیا اور انفارمیشن گروپ میں شامل ہو کر سرکاری خدمات کا آغاز کیا۔ علم کا یہ متلاشی مسافر سروس کے دوران بھی نہ رُکا۔ انہوں نے برطانیہ کی یونیورسٹی آف برمنگھم سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، پھر کولمبو یونیورسٹی (سری لنکا) سے جرنلزم میں گولڈ میڈل کے ساتھ ڈگری لے کر اپنی علمی تشنگی کو سیراب کیا۔ یوں علم و عمل کا حسین امتزاج ان کی شخصیت کا درخشاں حوالہ بن گیا۔
ایوانِ اقتدار کے قریب رہ کر انہوں نے وہ مناظر اور اسرار دیکھے جو قسمت کے منتخب افراد ہی دیکھ پاتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی رہنما، بلند مرتبہ افسران اور بااختیار شخصیات سے ان کا واسطہ پڑا، مگر ان کے مزاج میں ہمیشہ سادگی اور فطری عاجزی غالب رہی۔
انہیں کبھی” یس سر” کہنے والوں کی صف میں نہیں پایا۔ گیا-وزیراعظم کے سامنے بھی وہ وقار اور تہذیب کا دامن تھامےرکھتے، اور بغیر کسی خوف یا جھجک کے سچ کہنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ ان کے لہجے میں نرمی اور بات میں شفافیت ہوتی۔ وہ جھک کر سلام کرنے والے نہیں تھے، بلکہ سر بلند رکھ کر حق و صداقت کا پرچم تھامے رہتے تھے۔
معروف صحافی جناب حامد میر نے ان کے بارے میں نہایت خوبصورت بات کہی:
“جب میں دہلی میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گیا، تو رائے صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے کانفرنس کی منتظم، اجیت کور سے کہا کہ رائے ریاض حسین دہلی میں چلتا پھرتا پاکستان ہیں۔”
یہ جملہ رائے صاحب کی شخصیت کا مکمل عکاس ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے، اپنے انداز، گفتگو اور وقار سے پاکستان کے حقیقی سفیر بن کر ابھرتے۔
رائے ریاض حسین، جھنگ چنیوٹ آفیسرز ایسوسی ایشن کے بانی رکن تھے اور ابتدا ہی سے اس کارواں کے ہراول دستے میں شامل رہے۔ وہ نہ صرف جھنگ کی ترقی کے لیے کوشاں رہے بلکہ نوجوانوں کی رہنمائی اور ان کے خوابوں کو حقیقت بنانے میں بھی پیش پیش رہے۔ انہی خدمات کے اعتراف میں وہ جوائنٹ سیکرٹری اور بعد ازاں نائب صدر کے منصب پر فائز ہوئے، اور ان مناصب کو محض عہدہ نہیں، خدمت کا وسیلہ سمجھ کر نبھایا۔
رائے صاحب کا علاقہ سے رشتہ کبھی کمزور نہ ہوا۔ بیرونِ ملک تقرری کے دوران بھی وہ اپنے علاقے کے لوگوں سے جُڑے رہے، ان کے دکھ سکھ میں شریک رہے۔ اُن کے دل میں کچھ کر گزرنے کا جو جذبہ ہمیشہ سے سلگ رہا تھا، اُس نے انہیں مسلسل متحرک رکھا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُن کی حرارت ماند نہیں پڑی۔ آج بھی وہ اسی جوش و جذبے سے کام کرتے ہیں، جیسے وقت کی گردش ان کی توانائی کو چھو نہ سکی ہو۔ ان کا وجود اس بات کی زندہ دلیل ہے کہ خدمتِ خلق کا سفر کبھی اختتام پذیر نہیں ہوتا۔
ان کے بارے میں بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ اگرچہ وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو چکے ہیں، مگر ان کی “پاکستانیت” آج بھی متحرک اور زندہ ہے، اور شاید کبھی ریٹائر ہو بھی نہ پائے۔ وطن سے محبت اور خدمت کا جذبہ ان کے رگ و پے میں ایسا پیوست ہے کہ ہر لمحہ انہیں مصروفِ عمل رکھتا ہے۔
رائے ریاض حسین نہ صرف ایک ممتاز کالم نگار ہیں بلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے ملک کے سلگتے مسائل، ان کے ممکنہ حل اور قومی اصلاح کے خواب قارئین تک پہنچاتے ہیں۔ ان کی تحریریں مختلف اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں اور قارئین کے فکر و شعور کو جلا بخشتی ہیں۔
الحمدللہ! میرے ادارے سے ان کی خودنوشت “رائے عامہ” بھی شائع ہو چکی ہے، جسے ہر طبقے کے قارئین نے بے حد سراہا۔ یہ کتاب محض یادداشتوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اقتدار کے ایوانوں کے چھپے رازوں سے پردہ اٹھاتی ایک ایسی دستاویز ہے، جو قاری کو حقیقت کے کٹھن مگر روشن راستوں پر لے جاتی ہے۔
میں نے اس کتاب کے تعارف میں لکھا تھا اور اپنی اس بات کو ایک بار پھر اس انداز میں دہراؤں گا کہ:
“رائے عامہ صرف یادداشتوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں چھپے سربستہ رازوں کا آئینہ دار ایک ایسا مکالمہ ہے، جو سرکاری پردوں کو چاک کرتے ہوئے قاری کو سچائی کے کٹھن مگر روشن راستے پر گامزن کرتا ہے۔ یہ کتاب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے کہیں تلخ حقائق سے روشناس کراتی ہے اور کہیں امید کی کرن دکھاتی ہے۔”
جناب رائے ریاض حسین واقعی ایک عہد ساز شخصیت ہیں ان کی زندگی کا ہر باب خدماتِ انسانیت اور حب الوطنی کی خوشبو سے معطر ہے۔ ان کی داستان ایک سبق ہے اُن سب کے لیے، جو اپنی مٹی سے محبت کرتے ہیں اور اپنے حصے کا چراغ جلانے کا عزم رکھتے ہیں
رائے ریاض حسین کی زندگی دراصل ایک درخشاں سفرنامہ ہے، جو خلوص، دیانت اور وطن دوستی کے اجالوں سے بھرا ہوا ہے۔ انہوں نے جس جذبے اور استقامت کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیے، وہ نہ صرف ہمارے لیے باعثِ فخر ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بھی ہے۔ اُن کے کردار کی صداقت اور عمل کی سچائی اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر نیت صاف ہو اور جذبے بلند ہوں، تو انسان اپنی انفرادی حدود سے نکل کر ایک اجتماعی اثاثہ بن جاتا ہے۔
رائے صاحب کی زندگی کا ہر پہلو، چاہے وہ تدریس ہو، صحافت ہو یا سرکاری خدمات کا میدان ,ایک مثال ہے کہ خدمتِ خلق اور حب الوطنی کو اگر شعار بنا لیا جائے تو ریٹائرمنٹ یا عمر کی کوئی قید باقی نہیں رہتی۔ وہ آج بھی اسی عزم و حوصلے کے ساتھ پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں، اور ان کا یہ سفر تادیر جاری و ساری رہے گا، ان شاء اللہ
رائے ریاض حسین محض ایک نام نہیں، ایک عہد کی علامت ہیں۔ اُن کا سفر اس اَمر کا اعلان ہے کہ وطن کی محبت، خلوصِ نیت، اور خدمتِ انسانیت کے جذبے کے ساتھ اگر کوئی فرد آگے بڑھے، تو وہ نہ صرف اپنی ذات کے دائرے کو وسعت دیتا ہے بلکہ قوم کی تقدیر میں بھی روشن چراغ جلا جاتا ہے۔
اُن کے الفاظ، اُن کی تحریریں اور اُن کا طرزِ زندگی ایک آئینہ ہے، جس میں ہم اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کر سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ رائے صاحب کو صحت و تندرستی کے ساتھ دراز عمر عطا فرمائے، تاکہ وہ اپنے تجربات اور بصیرت سے آنے والی نسلوں کو اسی طرح فیض یاب کرتے رہیں۔
ایسے لوگ وقت کے ساتھ مٹتے نہیں، بلکہ وقت ان کے نقوش محفوظ کر لیتا ہے، تاکہ وہ ہمیشہ ہمارے قافلوں کو راستہ دکھاتے رہیں۔