غزہ اور مسلمان
(خورشید ندیم)
غزہ سے بہنے والی معصوم لہو کی دھار ہماری آنکھوں میں اُتر آئی ہے۔ بے بسی مگر صدیوں سے ہمارے ہم قدم ہے۔ بے بسوں کا ہتھیار ایک ہی ہے: ماتم‘ سینہ کوبی۔ ہم یہی کر سکتے ہیں۔ ہم یہی کر رہے ہیں۔
غزہ جدید تاریخ میں مظلومیت کا استعارہ ہے۔ یہ استعارہ تاریخ کے صفحات پر نقش ہو گیا ہے۔ اسرائیل بھی ایک استعارہ ہے: ظلم کا‘ وحشت و بربریت کا۔ صرف اسرائیل نہیں‘ ہر وہ قوت اور فرد جو اُس کو مادی قوت فراہم کرتا ہے یا نظریاتی۔ امریکہ‘ اس میں کسے شبہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سرِ فہرست ہے۔ مغرب کا معاشرہ زندہ ہے مگر اس کی اشرافیہ بے حس ہے اور بدتہذیب بھی۔ اس نے دنیا کو دکھانے کے لیے انسانی حقوق کا نقاب اوڑھ رکھا ہے۔ اس میں اب اَن گنت چھید ہو چکے‘ جن سے اس کا اصل چہرہ صاف دکھائی دے رہا ہے۔ اندروں چنگیز سے تاریک تر۔
غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے نے بتایا ہے کہ سرمایے کو خدا ماننے والا صاحبِ دل نہیں ہو سکتا۔ اس سرمایہ دارانہ اخلاقیات نے جنگ کے جو قوانین بنائے ہیں‘ ان کی رو سے بھی غزہ پر ہونے والے حملے ظلم ہیں۔ معصوم بچوں اور ہسپتالوں پر بم برسانا کسی قانون میں جائز نہیں۔ غزہ میں یہ سب روا رکھا گیا۔ اسرائیل نے امریکہ اور مغربی اقوام کی پشت پناہی کے ساتھ ظلم کی ایک نئی داستان رقم کی۔ غزہ میں جو کچھ ہوا اس کا ہدف حماس نہیں عام فلسطینی ہیں۔ وہ بچے ہیں جو رنگ و نسل کے احساسات سے بے نیاز ہیں۔ یہ واقعہ ہے جس کا انکار ایک صاحبِ ہوش کے لیے محال ہے۔
ایک مسلمان اس صورتحال میں کیا کرے؟ وہ اس سوال کا جواب اپنے دینی ماخذ سے تلاش کرے گا‘ جذبات سے نہیں۔ یہ ماخذ بتاتے ہیں کہ مسلمان کی ذمہ داری کا تعین اس کی حیثیت کے مطابق ہو گا۔ ایک عامی اور ایک عالم کی ذمہ داری یکساں نہیں ہو سکتی۔ عوام اور حکمرانوں کا فرض ایک نہیں ہو سکتا۔ دین کے احکام میں ایک حکم جہاد کا بھی ہے۔ جہاد کے باب میں دو باتیں واضح ہیں۔ ایک یہ کہ ظلم کے خلاف جہاد کا حکم تاقیامت باقی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اس کا تعلق اربابِ اقتدار سے ہے۔ آج مسلمانوں کا کوئی ایک نظمِ اجتماعی موجود نہیں۔ ان کی قومی ریاستیں ہیں جنہوں نے او آئی سی کے نام پر ایک فورم قائم کر رکھا ہے جو اصلاً مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے وجود میں آیا تھا۔
مسلمان حکمرانوں کو آج یہ دیکھنا ہے کہ کیا وہ اس ظلم کے خا تمے کے لیے جہاد کر سکتے ہیں؟ قومی ریاستوں میں تقسیم ہو جانے کے بعد کیا غزہ جیسی بستیوں میں جاری ظلم کے بارے میں ان کی کوئی اجتماعی ذمہ داری ہے؟ کیا او آئی سی اپنے مقصدِ وجود کے بارے میں حساس ہے؟ جہاد کا حکم اقدام کے لیے واحد جواز نہیں ہوتا۔ حکمرانوں کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ظلم کے خاتمے کے لیے تلوار اٹھا سکیں؟ کیا انہیں وہ وسائل دستیاب ہیں جو جہاد کے لیے ضروری ہیں؟ اگر یہ نہیں تو کیا وہ سفارتی جہاد کر سکتے ہیں؟ یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے اور انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اس کے لیے اپنے پروردگار کے حضور میں جواب دہ ہیں۔
ایک ذمہ داری اہلِ دانش اور اہلِ علم کی ہے۔ ان کا کام انذار ہے۔ انذار کا مطلب ہے سماج کے مختلف طبقات کو ان کے فرائض کے بارے میں خبردار کرنا تاکہ لوگ آگاہ رہیں کہ انہیں ایک دن اپنے پروردگارکے حضور میں جواب دہ ہونا ہے۔ انہوں نے اپنے فہم کے مطابق یہ بھی واضح کرنا ہے کہ درپیش مسئلے میں حق کیا ہے؟ کیا اہلِ علم نے بتایا ہے کہ غزہ میں ظلم ہوا ہے؟ کیا انہوں نے ظالم کی نشان دہی کی ہے؟ کیا ظلم کی مذمت کی ہے؟ کیا سماج کے مختلف طبقات کو انذار کیا ہے کہ اس ظلم کے باب میں ان کی دینی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا اہلِ علم نے مسلمانوں کے حکمران طبقے کو خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری ظلم کے حوالے سے اس کی دینی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا انہوں نے مسلمان عوام کو بتایا کہ ایسی صورتحال میں انہیں کیا کرنا چاہیے؟ جو اقتدار کے بغیر ہتھیار اٹھاتے ہیں‘ کیا ایسے طبقے کو علما اور دانشوروں نے بتایا ہے کہ اس باب میں دین کی راہنمائی کیا ہے؟ سماج کی عمومی تعلیم کے لیے کیا اس نے حق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے؟ اس نے جذبات کی روشنی میں اپنی رائے بنائی ہے یا دینی ماخذ کی روشنی میں؟
ذرائع ابلاغ نے جس گلوبل ویلیج کو جنم دیا ہے اس کو سامنے رکھیے تو مسلمان علما اور اہلِ دانش کی ایک ذمہ داری عالمگیر بھی ہے۔ انہیں صرف اپنی قوم ہی کو انذار نہیں کرنا بلکہ مباحث کے عالمی فورمز پر بھی احقاقِ حق کرنا ہے۔ یہ دعوت اور انذار کا ایک اہم پہلو ہے۔ آج دنیا بھر کے میڈیا پر یہ موضوع زیرِ بحث ہے۔ اسی طرح مختلف مقامات پر کانفرنسیں اور مباحثے ہو رہے ہیں۔ جن اہلِ علم کی رسائی ان فورمز تک ہے‘ ان کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پر آواز اٹھائیں۔ امریکہ اور یورپ میں بیٹھے وہ لوگ قابلِ قدر ہیں جو اپنی نوکریوں کو خطرے میں ڈال کر یونیورسٹیوں اور دوسرے مقامات پر ظلم کو ظلم قرار دے رہے ہیں۔
ایک ذمہ داری عام مسلمان کی ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ وہ اہلِ علم میں سے جس کی رائے کو درست سمجھتا ہے اس مطابق اپنا فریضہ ادا کرے۔ مثال کے طور پر اگر ایسے اہلِ علم اسے غزہ کے زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے دامے درمے قدمے سخنے مدد کے لیے کہتے ہیں تو اسے ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس کو بہر حال اپنی حدود کا خیال رکھنا ہے۔ اسے یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ ہر کسی کی ذمہ داری اس کی سماجی حیثیت کے مطابق ہوتی ہے۔ یہ وضاحت اہلِ علم کا کام ہے۔
ظلم کو انسانی نفسیات نے کبھی قبول نہیں کیا۔ ظلم کی واضح اور دوٹوک مذمت کے بغیر اصلاح کی دعوت حکمت کے خلاف ہے۔ اگر کوئی کہنا چاہتا ہے کہ اہلِ فلسطین پر ظلم کے جو پہاڑ ٹوٹے ہیں اس کا سبب حماس کی حکمتِ عملی ہے تو یہ کہنے کے لیے بھی پہلے دوٹوک لفظوں میں ظلم کو ظلم کہنا ضروری ہے۔ عام شہریوں پر اسرائیل کے حملوں کی مذمت کیے بغیر اصلاح کی کوئی دعوت‘ ہمددری اور خیرخواہی کے احساس کے ساتھ ہی کیوں نہ دی گئی ہو‘ قابلِ توجہ نہیں ہو گی۔ استاذِ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب ”قانونِ دعوت‘‘ میں ‘نفسیات کا لحاظ‘ کے زیرِ عنوان لکھا ہے: ”جس طرح بے موسم کی بارش زمین کے لیے بے اثر رہتی بلکہ بعض اوقات الٹا باعث نقصان ہو جاتی ہے‘ اسی طرح دل و دماغ کی مختلف حالتوں کا اندازہ کیے بغیر اگر کوئی دعوت پیش کی جائے تو وہ بھی قلوب و اذہان میں جگہ پیدا نہیں کرتی۔ چنانچہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو لوگ اس حق کے مخاطب ہیں وہ نفسیاتی نقطۂ نظر سے بھی کیا اس کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ غامدی صاحب مزید کھتے ہیں: ”دین کی جو بات بھی لوگوں کے سامنے پیش کی جائے اس کو ہمیشہ اس پہلو سے پیش کرنا چاہیے جس سے مخاطب نفرت اور اجنبیت کے بجائے انس اور سہولت محسوس کرے‘‘۔ آج اہلِ غزہ کے وجود سے مسلسل رِسنے والا لہو مسلمانوں کی آنکھوں میں اُتر آیا ہے۔ اہلِ اسلام کے دل و دماغ کی حالت کا اندازہ اور اسرائیل کی مذمت کیے بغیر اصلاح کی کوئی دعوت غیر حکیمانہ ہو گی۔