کالم

جنگ ایک مذاق ہی تو ہے

(روف کلاسرہ)
کسی دوست نے مجھے چند لطیفے اور میمز بھیجیں جو پاکستان اور بھارت کے موجودہ جنگی ماحول پر بن رہی ہیں اور لوگ ان سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اُس دوست کا کہنا تھا کہ جنگ ایک خوفناک چیز ہوتی ہے مگر لوگوں کو یہاں مذاق اور جگتیں سوجھ رہی ہیں۔ ہمارے لوگ سنجیدہ کیوں نہیں ہوتے۔ ان کے نزدیک سب کچھ مذاق کیوں ہے؟
میں نے کہا کہ لوگ اور کیا کریں۔ انکے بس میں کیا ہے‘ اگر انکی کچھ سنی جاتی ہو تو وہ کوئی سنجیدہ بات بھی کریں۔ اس پورے کھیل میں وہ ایک تماشائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ جب ہمارے طاقتور طبقات ہی نہیں چاہتے کہ اس ملک کو کچھ استحکام ملے تو پھر عوام کیا کریں۔ عوام کو بھی اس چیز کا ادراک نہیں ہے کہ جس استحکام کا مطالبہ وہ کرتے ہیں وہ استحکام عوام خود لا سکتے ہیں‘ اگر وہ اپنے اپنے لٹیروں کیلئے سڑکوں پر ہنگامے نہ کریں‘ جلسے جلوس نہ کریں‘ سڑکوں پر آگ نہ لگائیں‘ ہر دوسرے فراڈیے کے پیچھے نہ لگ جائیں تو ملک میں استحکام آسکتا ہے۔ لیکن عوام آئے روز سڑکوں پر نکلے ہوتے ہیں۔ وہی بات کہ بس انہیں لٹیرا اپنی پسند کا چاہیے‘ پھر چاہے ان سے جو مرضی کروا لو۔
مزے کی بات ہے جن حکمرانوں اور اعلیٰ افسران سے ہم نالاں رہتے ہیں‘ وہ بھی عوام سے آئے ہیں۔ جتنے عوام محنتی‘ ایماندار اور کام کرنے والے ہیں اتنے ہی ان کے چنے ہوئے لیڈراور بیوروکریٹس یا سرکاری ملازمین ہیں۔ عام افراد جب خود سرکاری افسر یا ملازم لگتے ہیں تو وہ سب بُرے کام کیوں کرتے ہیں جن کے وہ کل تک خلاف تھے؟ کیا حکمرانوں‘ سرکاری افسران اور اہلکاروں کے خلاف تنقید اور رونا دھونا اس وقت تک ہی تھا جب تک وہ خود سرکاری ملازم نہیں بنے تھے؟ میں اکثر دوستوں سے پوچھتا ہوں کہ آپ لوگ جو ہر وقت اپنے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے روتے پیٹتے رہتے ہیں‘ یہ کون لوگ ہیں جن سے آپ کو کام پڑتا ہے؟ آپ کے بیٹے‘ بھائی‘ باپ یا دوست ہی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ووٹ وہ کسی اور کو ڈالتے ہیں لیکن نکلتے کسی اور کے ہیں۔ مزے کی بات ہے ان دھاندلی والے ووٹوں سے وزیراعظم بننے والا کچھ عرصے بعد دوسروں پر دھاندلی کے الزام لگا رہا ہوتا ہے۔ جو بھی دھاندلی سے وزیراعظم بنتا ہے اسے اگلا الیکشن صاف شفاف چاہیے ہوتا ہے۔ یہ وہ چکر ہے جو ہم تیس‘ چالیس سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے پاس کئی مواقع آئے جو ہم نے ضائع کر دیے۔ ہم چاہتے تو پاکستان کو نارمل ملک بنا سکتے تھے لیکن ہمیں لفظ نارمل سے ہی چڑ ہے۔ ہمارے اندر اذیت بھر گئی ہے اور ہم خود کو اذیت اور تکلیف دے کر سکون محسوس کرتے ہیں۔
سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی 1999ء میں لاہور آئے تو مینارِ پاکستان پر تقریر کی کہ ہم پاکستان کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ لاہور اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر کو مذاکرات سے حل کرنے کیلئے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ یہ وزیر اعظم نواز شریف کا کریڈٹ تھا کہ بھارتی وزیراعظم لاہور آکر مسئلہ کشمیر کو جلد حل کرنے پر راضی ہو گیا۔ لیکن ابھی یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھی تھی کہ کارگل والا معاملہ ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف یہ انتظار نہ کر سکے کہ دو وزرا ئے اعظم اس مسئلے کا پُر امن حل تلاش کررہے ہیں کچھ وقت انہیں دینا چاہیے۔ بعد ازاں جنرل مشرف نواز شریف کو جیل میں ڈال کر دو سال بعد آگرہ میں انہی واجپائی صاحب سے گلے مل رہے تھے۔ پھر انہی مشرف صاحب نے منموہن سنگھ کے ساتھ تقریباً تمام معاملات طے کر لیے مگر یہ کام بھی ادھورا رہ گیا۔ پھر جب مودی صاحب رائیونڈ آئے تو سب نے نعرے مارے کہ مودی کا جو یار ہے‘ غدار ہے۔ یوں وہ معاملہ وہیں رہ گیا۔
پھر ایک مرتبہ جنرل باجوہ نے سنجیدہ کوشش کی کہ پاک بھارت تعلقات ٹھیک ہو جائیں۔ صحافیوں کو بلا کر بریف کیا کہ پاکستان اور انڈیا کشمیر تنازع کو حل کرنے کیلئے تیار ہیں۔ مودی صاحب پاکستان آئیں گے اور پھر حتمی اعلان ہو گا۔ جس پر شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو کہا کہ ایسا نہ کرنا ورنہ ہم پر الزام لگے گا کہ ہم نے کشمیر بیچ دیا۔ باجوہ صاحب بھارت کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنا چاہتے تھے لیکن اُس وقت کے سیاسی حکمرانوں نے ساتھ نہ دیا اور رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کر دی۔ وہی میڈیا اور سیاستدان جو ہمیشہ کہتے تھے کہ فوج بھارت کے ساتھ معاملات ٹھیک نہیں ہونے دیتی‘ لیکن جب جنرل باجوہ نے اس ضمن میں کوشش کی تو یہی لوگ رکاوٹ بن گئے۔ کبھی سیاسی تو کبھی عسکری قیادت نے بھارت کے ساتھ معاملات درست کرنے کی طرف توجہ نہ دی۔ جب ہم خود نہیں چاہتے کہ ہم سکون سے رہیں تو پھر کون ہمیں سکون دلا سکتا ہے؟
ہر دفعہ ہم ایک دوسرے کے بندے مارتے ہیں‘ جنگ کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سبق سکھانے کے اعلانات‘ بم چلانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ دنیا بھاگی بھاگی آتی ہے‘دونوں ملکوں کے آگے ہاتھ جوڑتی ہے۔ دو پہلوانوں کو چھڑا دیتی ہے۔ تین چار سال بعد پھر کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہمیں واپس اس جگہ پہنچا دیتا ہے۔ پھر دنیا بھاگی آتی ہے۔ اب کی دفعہ پہلے تو تین چار دن کسی ملک نے لفٹ نہیں کرائی کہ وہ تھک چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے سب سے بہتر کمنٹ کیا۔ جب ان سے پاکستان اور بھارت کی موجودہ کشمکش کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے طنزیہ جواب دیا کہ یہ پندرہ سو سال پرانا مسئلہ ہے‘ پاکستان اور بھارت خود طے کر لیں گے۔ مطلب اس دفعہ امریکی بھی تنگ ہیں ورنہ 2019ء میں صدر ٹرمپ نے ہی پاک بھارت ممکنہ جنگ کو روکا تھا۔ اب کی بار صدر ٹرمپ اپنے کاموں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔اب بالآخر سعودی عرب اور ایران نے پیشکش کی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان صلح صفائی کی کوشش کرنے کو تیار ہیں۔ سعودی اور ایرانی وزیرخارجہ نے اسحاق ڈار اور ایس جے شنکر کو فون کیا ہے تاکہ ماحول کو ٹھنڈا کیا جائے۔ مطلب دونوں ملک ایک دوسرے کو لہو لہان کرتے رہیں گے‘ عوام میں جنگی جنون پیدا کریں گے‘ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی باتیں کریں گے لیکن سمجھداری نہیں دکھائیں گے۔ ہمیں ہر دفعہ امریکہ اور سعودی عرب کی ضرورت رہے گی۔ میں کبھی سمجھتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان نے تمام تر دشمنی اور جنگوں کے باوجود ایک دوسرے کے سویلین شہریوں پر بمباری نہیں کی جیسے جنگِ عظیم اول اور دوم میں یورپی قوموں نے لاکھوں کی تعداد میں ایک دوسرے کے شہری مارے تھے۔ ہمارے ہاں جنگوں میں شہریوں اور عوام نے بربادی نہیں دیکھی۔ ہم سب نے جنگیں ہالی ووڈ کی فلموں میں دیکھیں یا ٹی وی سکرین پر لائیو دیکھی ہیں۔
یورپ نے جنگ عظیم اول اور دوم میں بربادی سے سبق سیکھا اور سب قوموں نے مل کر یونین بنا لی۔ ہم نے وہ بربادی نہیں دیکھی۔ ہم نے اپنے گھروں پر بم گرتے نہیں دیکھے نہ ہی بچوں کو لے کر ہجرت کی ہے جیسے افغانستان‘ عراق‘ شام اور یوکرین کے لوگوں نے کی یا غزہ میں ہزاروں معصوم لوگ مارے گئے ہیں جن کیلئے جگہ بھی نہیں بچی جہاں وہ چھپ سکیں‘ اس لیے بھارت اور پاکستان کے عوام کا یہ پاگل پن سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں جنگ بھی ایک مذاق لگتی ہے لہٰذا جگتیں لگ رہی ہیں۔ میمز بن رہی ہیں۔ لیکن وہی بات کہ عوام کیا کریں۔ جب انکے سیاسی حکمران یا فوجی حاکم ہر دفعہ ایک دوسرے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ یہ پاکستان ہندوستان کا مسئلہ نہ عوام نے پیدا کیا ہے اور نہ وہ حل کرسکتے ہیں‘ جو کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے غدار کا لقب ملتا ہے۔ ٹرمپ نے ٹھیک کہا ہے کہ یہ 1500 سال پرانا مسئلہ ہے‘ وہ خود حل نہیں کرسکتے تو ہم ہزاروں میل دور بیٹھ کر کیسے کریں۔ اور ہم نے حل کرنا نہیں یا ہمارے اندر اتنی صلاحیت یا نیت نہیں یا پھر یہ مستقل دشمنی بھی ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ بھارت پاکستان بقول ٹرمپ اپنے 1500 سال پرانے مسائل حل کر کے کیوں اپنے کاروبار خراب کریں۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button