ٹرمپ بے عقل نہیں
(رسول بخش رئیس)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جلد بازی‘ تند مزاجی‘ غیر روایتی سوچ اور اپنی ہی وفاقی حکومت کی اکھاڑ پچھاڑ کے علاوہ شمال اور جنوب میں دو ہمسایہ ممالک کے ساتھ گرمی سردی جیسے رویوں کو دیکھ کر کچھ مبصرین اس غیر متوازن شخصیت کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ اگر صدر ٹرمپ نے عدلیہ کے احکامات پر عمل کرنے سے گریز کیا تو کیا ہو گا؟ جس طرح انہوں نے کئی داخلی محاذ کھول رکھے ہیںاور جس طرح صدارتی اختیارات کی تشریح کر رہے ہیں اس کے تناظر میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ وفاقی عدالتوں کے احکامات کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ اپنے ممالک میں تو ہم نے دیکھا ہے کہ ہماری حکومتوں نے متعدد بار اعلیٰ عدلیہ کے احکامات سے سرتابی کی ہے۔ صرف ایک کیس میں ایک وزیراعظم کو حکم عدولی پر سزا ہوئی اور وہ گھر چلے گئے۔ امریکی تاریخ میں دھمکیاں تو دی گئیں کہ اگر عدالت نے ایسا فیصلہ سنایا تو اس کے نتائج کچھ اور نکل سکتے ہیں مگر نوبت اس نہج تک نہیں پہنچی کہ عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو جائیں اور آئینی بحران پیدا ہو جائے۔ کوشش یہ رہی ہے کہ ایک دوسرے کو راستہ دیا جائے اور راستہ دینے میں عدلیہ نے لچک دکھاتے ہوئے اپنی ساکھ کو برقرار رکھا۔ اس وقت تو قانونی اور آئینی جائزیت کے سوالات کی بھرمار ہے۔ آگے دیکھیں کہ عدلیہ ٹرمپ کے صدارتی اختیارات کی توسیع پسندی کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی کرتی ہے یا ان کے ‘امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے‘ کے ایجنڈے کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ ابھی بڑے معاملات عدالت عظمیٰ تک نہیں پہنچے لیکن صورت حال یہ ہے کہ جو بھی ہو محاذ آرائی کی کیفیت پیدا نہیں ہو گی۔ ٹرمپ کی وفاقی حکومت کے اداروں کے ملازمین کو نوکریوں سے بغیر کسی عذر کے فارغ کرنا اور نئی پالیسیاں ترتیب دینا امریکی سپریم کورٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔
امریکہ میں پرانی نظریاتی تقسیم‘ آزاد روی اور قدامت پسندی سیاست کے دو واضح دھارے متعین کرتی ہے۔ آزاد رو ڈیمو کریٹک پارٹی کی پالیسیوں کے خلاف قدامت پسند حلقوں میں شدید ردعمل پیدا ہوا ہے جن کا تعلق برابری‘ شمولیت اور تنوع کی قبولیت سے ہے۔ جدید آزاد فلسفے کے یہ تین بنیادی اصول ہیں جن کو اپنانے سے اقلیتوں‘ عورتوں اور پسماندہ طبقات کو حکومتی وسائل مہیا کرنے میں فوقیت دی جاتی ہے۔ ایسی پالیسیوں کے لیے دہائیوں تک مغربی معاشروں میں مزدوروں‘ طلبہ‘ عورتوں اور رنگدار نسل کے لوگوں کی طرف زبردست حمایت رہی ہے۔ ڈیمو کریٹس کی سماجی اساس یہ دھنک نما سیاسی اتحاد تھا۔ گزشتہ دس پندرہ سالوں میں یہ اتحاد شکست وریخت کا شکار ہوا ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کی قیادت اس کا صحیح وقت پر ادراک کر سکی نہ کوئی مؤثر پیش قدمی ہوئی کہ بگاڑ کا تدارک کیا جا سکے۔ اس اتحاد کا ایک کلیدی فریق سفید فام مزدور‘ کسان‘ کاشتکار اور دیہاتی زیریں متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ صنعتیں بند ہوئیں‘ صنعتکار سستی مصنوعات تیارکرنے کے لیے سرمایہ اور مشینیں چین اور دیگر ممالک میں لے گیا۔ بے روزگاری بڑھی تو ان سفید فاموں نے یہ محسوس کیا کہ نظام رنگدار آزادی کے حق میں پلٹ گیا ہے‘ اور اس کی ذمہ دار ڈیمو کریٹک پارٹی ہے۔ اس طبقے کے ایک حصے میں نسل پرستی کا رنگ پہلے بھی غالب تھامگر بے روزگاری کے پھیلائو اور ان کی زندگی میں معاشی جمود نے اسے مزید گہرا کر دیا۔ یہ صرف امریکہ میں نہیں یورپ میں بھی قدامت پسندوں کی اٹھان اور اکثریتی آبادی میں زیادہ مقبولیت دیکھنے میں آ رہی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح نصف صدی پہلے فلاحی ریاست اور اس کے اساسی فلسفے‘ لبرلزم کے خلاف دائیں بازو کی سیاسی اور سماجی تحریکوں میں شدت آئی تھی‘ اس سے کہیں زیادہ ہمیں آج نظر آ رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نہ تو فاتر العقل ہیں اور نہ ہی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ وہ سیاسی حقیقت پسندی پر یقین رکھتے ہیں۔ آزاد روی اور قدامت پسندی میں بنیادی فرق بھی یہی ہے کہ آزاد روی بڑے پیمانے پر انقلابی تبدیلیوں اور ریاستی وسائل سے دلیرانہ انداز میں سماج کی تعمیرِ نو کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ اس عمل میں سیاست برائے سیاست نہیں بلکہ ایسی مثبت تبدیلی ہے جس سے انصاف‘ برابری‘ حقوق سب کے لیے اور غریب عوام کے لیے معاشی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ قدامت پسندی بڑے فلسفوں کو مثالیت پسندی سے تعبیر کرتی ہے اور سماج کو اس کے تاریخی ارتقا پر چھوڑتی ہے کہ جو لوگ آگے بڑھ سکتے ہیں‘ اُن پر پیچھے رہ جانے والوں کا بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ مسابقت کا ماحول پیدا ہو تو اس سخت مقابلہ بازی سے قوم سدھار پیدا کرے اور افراد اپنی حیثیت‘ تعلیم‘ ہنر اور ذاتی تحریک سے تبدیلی برپا کریں۔ اس لیے قدامت پسند بڑی فلاحی ریاست کے خلاف رہے ہیں کہ برابری اور شمولیت کے خواب کی تعبیر میں کامیاب طبقات کو ٹیکسوں اور معاشی ذمہ داریوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ مفت خوروں کا ایک طبقہ وجود میں آ جاتا ہے۔ اس مرتبہ ردعمل ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے جس میں روایت‘ مذہب اور قومیت کے جذبات میں نسل پرستی کا عنصر بھی شامل ہے۔ اس فلسفے میں اخلاقیات کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ افادیت پسند دنیا میں مفاد پرستی کا سکہ ہی چلتا ہے۔
ٹرمپ دور میں سیاسی حقیقت پسندی خارجی امور میں بھی ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ یوکرین جنگ کے تناظر میں ان کے عالمی امور پر تبصروں نے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسی سال پرانی امریکی حکمت عملی‘ عالمی طاقتوں کے توازن کا نقطہ نظر اور بحر اوقیانوس کے اُس پار امریکہ کے دفاع کے نظریے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے گئے۔ غالب خیال یہ رہا ہے کہ اگر کوئی یورپی ملک بشمول روس‘ یورپ پر غالب آ گیا تو اگلا ہدف شمالی امریکہ ہو گا۔ ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے اس تزویراتی تھیوری کی نفی کی ہے۔ یہ تو کبھی نہ تھا کہ سب امریکی ماہرینِ دفاع اس نظریے پر یقین رکھتے ہوں مگر امریکہ کی سلامتی کی پالیسی کا بنیادی ستون اس کے مغربی یورپ کے اتحادی ممالک تھے۔ اب بھی امریکہ ان کے لیے تو ناگزیر ہے مگر اب آگے چل کر پتا چلے گا کہ ٹرمپ کس حد تک اپنی تاریخی‘ دفاعی ذمہ داریوں سے دست بردار ہوتے ہیں۔ بہت کچھ تو اس وقت واضح ہو گا جب روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد کا یورپ کا منظر نامہ بنے گا۔ اس وقت جو بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ بند ہو گی اور بہت جلد امن معاہدہ ایک بھاری پتھر کی طرح یوکرین کو سینے پر رکھنا ہو گا۔ اس بدلتی ہوئی عالمی سیاست اور ایک نئے عالمی نظام کے امکانی خدوخال کو سامنے رکھیں تو چھوٹے اور درمیانی درجے کے ہمارے جیسے ممالک کے لیے خطرات بڑھیں گے خصوصاً ان ممالک کے لیے جو بڑی طاقتوں کے زیر اثر ہیں۔ میرے ذہن میں ایسے خدشات ہیں جیسے فرانس کے نپولین کی جنگوں اور اس کی شکست کے بعد بڑی طاقتوں‘ آسٹریا‘ روس اور برطانیہ نے پورپ کو تقسیم کیا تھا۔ اب بہ امر مجبوری یورپ کو متحد ہونا اور اپنی سلامتی کی پالیسی کو بہتر بنانا ہو گا۔ تبھی روس کی امکانی توسیع پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤثر تزویراتی حکمت عملی بنا سکے گا۔ ہمارے لیے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ ہمارے اردگرد دو بڑی ریاستوں کی طاقت میں مسلسل اضافہ‘ مشرقِ وسطیٰ میں ریاستوں کے زوال اور عدم استحکام اور اس کے اثرات‘ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور ہماری سیاسی جنگوں کی کیفیت ہمیں سہاروں پر مجبور نہ کر دے کہ معاشی طاقت کمزور ہے۔ زمانہ بدل گیا‘ ہم نہیں بدل سکے۔