صوفی تبسم ۔ دِلوں پر راج کرنیوالے شاعر
(غلام حیدر شیخ)
دلوں پہ راج کرنے والے شاعر کا اصل نام غلام مصطفی تھا پہلے انہوں نے اپنا تخلص صوفی رکھا بعد میں تبسم رکھ لیا ، یہ دونوں تخلص زندگی میں ساتھ ساتھ ہی رہے ، اور معروف بھی صوفی تبسم سے ہی رہے، ہندوستان پنجاب کے شہر امرتسر میں 4 ، اگست 1899 ء میں پیدا ہوئے اسی شہر سے میٹرک کرنے کے بعد بی اے اور بی ٹی لاہور سے کیا ، اور محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کرلی ، اسی دوران فارسی میں ایم اے کرنے کے بعد سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں علوم شرقیہ میں پروفیسر کے طور پر مامور ہوئے ، بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ فارسی کے صدر مقرر ہونے کے بعد 1959 ء میں ریٹائر ہو گئے ۔
صوفی غلام مصطفی تبسم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ، 1962 ء میں ہفت روزہ ’’ لیل و نہار ‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ، اس کے ساتھ لاہور کے ایرانی ثقافتی ادارے اور ریڈیو پاکستان لاہور سے بھی منسلک رہے فارسی ، اردو، اور پنجابی تینوں زبانوں کے شاعر صوفی تبسم نے بچوں کیلئے بہت سی نظمیں لکھیں ، فارسی کلام کا پنجابی زبان میں ترجمہ رباعی کی صورت میںایک آفاقی شہرت حاصل کر گیا گلوکار غلام علی اس رباعی کو گا کر دنیا میں مشہور ہوئے۔
میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں
آجا ویکھ میر ا انتظار آ جا
اینویں لڑن بہانے لب ناں ایں
کیہہ توں سوچنا ایں ستم گار آجا
صوفی غلام مصطفی تبسم شاعر ہونے کے ناطے اپنے وطن اور افواج وطن سے انتہاء سے بھی بڑھ کر پیار کرتے تھے ، 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں انکے لکھے نغمے ان کی شاعری کی لامتناہی مسافتوں کو عبور کرتی دکھائی دیتی ہے ،صوفی غلام مصطفی کی شاعری نے عروج لا زوال کی منزل پالینے کی راحت کو اپنے دامن میں ایسے سمیٹا کہ وطن کے تقدس ، حرمت اور جذبوں کی امنگ کو شاعری کی بیرونی سطح کی سمت کو نمایاں کر دیا ، یہی نہیں انکی شاعری پنجاب کی سر زمین پر بہنے والے پانچ دریائوں میں اٹھنے والے تلاطم کا ایک مجموعہ ہے ، یہ ممکن ہی نہیں کہ صوفی تبسم کے لکھے نغمے پاک افواج اور عوام کی روح میں ارتعاش نہ پیدا کریں ، ان کے نغمے اور گیت وطن کی فضائوں میں گونجیں اور دشمنان وطن حواس باختہ نا ہوں اور ان کا گھمنڈ و نخوت ان کی موت کا سبب نا بنے ، صوفی غلام مصطفی کا لکھا پنجابی نغمہ روح کو تو گرما ہی دیتا ہے لیکن جری نوجوا ن وطن کی محبت میں اسقدر سر شار ہو جاتے ہیں کہ دشمن کو نیست ونابود کرنے کے لئے یہ نغمہ ایک ہتھیار بن جاتا ہے ، جب یہ گیت فضائوں میںارتعاش پیدا کرتا ہے تو سنگدل سے سنگدل انسان کی بھی آنکھیں بھر آتی ہیں ، جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، جب بھی یہ گیت میری سماعت کو چھوتا ہے میرے بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں ، سیاہ راتوں میں آزادی کے متلاشی جسموں میں ایک نئی امنگ پیدا کر دینے والا گیت سچے جذبوں کی لڑی میں ایسے پرویا گیا کہ ملکہ ترنم نورجہاں نے ریڈیو پاکستان لاہور فون کر کے صوفی تبسم ، سینئر پروڈیوسر اور ریکارڈسٹ اعظم بٹ کو 65 ء کی جنگ کے حوالے سے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے ہر روز ایک نغمہ ریکارڈ کرانے کی استداٗ کی ، جب کہ میڈم نور جہاں کی تینوں بیٹیاں سخت علیل تھیں ، اور ان کی تیمارداری کے لئے گھر میں ملکہ ترنم کے سوا اور کوئی نہیں تھا ، لیکن میڈم نورجہاں نے اپنی بچیوں پر قوم کے نوجوانوں کو ترجیح دی جو کہ میدان جنگ میں اپنی جان کے نذرانے دیکر وطن عزیز کی حفاظت کر رہے تھے ، 65 ء کے اس ملی اور قومی ترانے کو لکھنے کیلئے صوفی تبسم نے قلم کاغذ پنسل لیکر لکھنا شروع کیا ، جس کے بول تھے ۔
اے پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے
کیہہ لبنی ایں وچ بازار کُڑے
(یہ بیٹے دوکانوں پر نہیں بکتے تم بازار میں کیا ڈھونڈتی پھر رہی ہو لڑکی )
اے دین اے میرے داتا وی
ناں ایویں ٹکراں مار کُڑے
(یہ بیٹے میرے رب کی دین ہیں ۔ ایسے ہی ٹکریں نہ مارو لڑکی)
صوفی تبسم بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اہل محلہ ہو عزیز و اقارب دوست اوراحباب کی بچیوں کی شادیوں کے انتظامات بڑے شوق اورمحبت سے سنبھالتے دوران انتظام تلخ عوامل بھی ہوتے اور آئندہ کیلئے ان سے کنارہ کشی کا فیصلہ کرتے لیکن جیسے ہی کسی بچی کی شادی کا علم ہوتا تو فوراً آمادہ ہو کر بچیوں کی خوشی کی خاظر انتظامات سنبھال لیتے ، صوفی تبسم ادبی شخصیت ہونے کے ساتھ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے آرٹ سے ان کا بڑا لگائو تھا ، آپ آرٹ کونسل کے چیئرمین تھے جو کہ دو چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھی ، لہذا صوفی صاحب نے اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلی حنیف رامے جو کہ صوفی صاحب کے شاگرد بھی تھے ان سے لاہور میں ایک آرٹ کونسل کے لئے ایک جدید طرز کی عمارت بنانے کا منصوبہ پیش کیا ، انتہائی تگ و دو کے بعد وزیر اعلی پنجاب حنیف رامے نے اس کی منظوری دی صوفی صاحب اس خوشی میں خود جاکر مٹھائی لائے ، الحمراء آرٹ کونسل بلڈنگ کی تعمیر میں ابتداء سے تکمیل کے مراحل تک صوفی غلام مصطفی تبسم متحرک رہے ، صرف اندرونی تکمیل رہتی تھی کہ صوفی غلام مصطفی تبسم اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
الحمراء آرٹ کونسل کی تعمیراور اس کے تعمیری اخراجات کی کاوشوں کا سہرا ء صوفی تبسم کے سر جاتا ہے لیکن صد افسوس کہ ان کے نام کی تختی اس عمارت پر آج تک نہیں لگائی گئی ، ان کی خدمات کا تقاضا ہے کہ الحمراء کے ہال کو انکے نام سے منسوب کیا جائے ، لاہور شہر کی کسی شاہراہ کو ان کے نام سے منسوب کر کے ملک و قوم کیلئے انکی خدمات کا اعتراف وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ آنے والی نوجوان نسل کو صوفی غلام مصطفی تبسم کی ادبی و قومی خدمات سے روشناس کرایا جا سکے، اس کے علاوہ میں سربراہ افواج پاکستان سے التماس کروں گا کہ صوفی غلام مصطفی تبسم کی افواج پاکستان کیلئے لکھے گئے نغموں ’’ او ماہی چھیل چھبیلا ۔ہائے نی کرنیل نی جر نیل نی ‘‘ کے خالق ، مفکر اور استاد کا رتبہ رکھنے والے شاعر کے مقام کا اعتراف کرتے ہوئے ، الحمراء ہال اور کسی قومی شاہراہ کو انکے نام سے منسوب کیا جائے۔