کالم

وائٹ ہاوس میں انوکھی پریس کانفرنس

(جاوید حفیظ)

پچھلے دنوں وائٹ ہاوس کے اوول آفس کی پریس کانفرنس میں جو کچھ ہوا وہ اکثر سفارتکاروں کو حیران کر گیا۔ سفارتکاری دھیمے لہجے میں اور نپی تلی زبان میں کی جاتی ہے۔ تلخ سے تلخ بات سلجھے ہوئے انداز میں ہوتی ہے مگر یہاں تو حالات ہی کچھ اور تھے۔ یوں لگتا تھا کہ صدر‘ نائب صدر اور صحافی سب یو کرین کے صدر زیلنسکی کو نیچا دکھانے کا تہیہ کرکے بیٹھے ہوئے تھے۔ مہمان صدر کو بار بار کہا گیا کہ جنگ میں تمہاری پوزیشن بہت کمزور ہے‘ امریکہ مدد نہ کرتا تو تم دو ہفتے سے زیادہ نہیں لڑ سکتے تھے‘ تمہارے ملک کا اچھا خاصا علاقہ روس کے قبضے میں ہے‘ اگر جنگ کو جلد نہ روکا گیا تو یہ تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔دونوں صدور کا بیک گراؤنڈ میڈیا کا ہے اور صدر ٹرمپ تو کامیاب بزنس مین ہونے کے علاوہ فری سٹائل کُشتی کے پروموٹر بھی رہے ہیں۔ اُن کیلئے سفارتکاری کا ہدف نفع بخش ڈیل ہے۔ موصوف نے پہلے کہا کہ یو کرین کی جنگ میں امریکہ نے پانچ سو ارب ڈالر جھونک دیے۔ پھر اپنی ہی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساڑھے تین سو ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں جبکہ جرمنی کے ایک تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اب تک یہ جنگ ایک سو بیس ارب ڈالر میں پڑی ہے۔ البتہ یہ بھی ایک خطیر رقم ہے‘ اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پاکستان کا ٹوٹل بیرونی قرضہ 131ارب ڈالر ہے۔
دراصل بزنس مین کی ہمیشہ یہ سوچ ہوتی ہے کہ جو پیسہ خرچ کیا ہے وہ مع منافع واپس لیا جائے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ صدر ٹرمپ روس کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ کئی تجزیہ کار اس نرم رویے کو ایک دانشمندانہ پالیسی کا حصہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اپنا اصل حریف اب چین کو سمجھتا ہے اور ٹرمپ ایڈمنسٹریشن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت روس کو چین سے دور رکھنا چاہتی ہے لیکن یہ ایک دوسرا موضوع ہے‘ جس پر خامہ فرسائی پھر کبھی ہو گی۔ قصہ کوتاہ نئی امریکی انتظامیہ نے یو کرین سے مطالبہ کیا کہ ہمارے جنگی اخراجات پورے کرنے کیلئے ہمارے ساتھ ان نایاب دھاتوں کے بارے میں معاہدہ کیا جائے جو یوکرین میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ قارئین کی اطلاع کیلئے بتاتا چلوں کہ ان میں ایک دھات ٹائٹینیم (Titanium) ہے جو بہت قیمتی ہے اور ہائی ٹیک آلات بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ صدر زیلنسکی نے یہ شرط عائد کی کہ میرے ملک کو روس کے خلاف تحفظ کی گارنٹی دی جائے تو ہی یہ معاہدہ ممکن ہوگا۔ یہیں سے معاملات بگڑنا شروع ہوئے کیونکہ امریکہ سکیورٹی گارنٹی دینے سے انکاری تھا۔
یوکرین کے صدر کے دورۂ امریکہ سے قبل دو یورپی لیڈروں نے امریکی قیادت کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن صدر ٹرمپ جس مؤقف پر اَڑ جائیں ان کی رائے کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں صدر زیلنسکی امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے۔ وائٹ ہاؤس میں پہلے تو صدر ٹرمپ نے انہیں کھری کھری سنائیں کہ جنگ میں تمہاری پوزیشن بہت کمزور ہے‘ پہلے ہی بہت جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے‘ اب بس کرو تیسری عالمی جنگ کو دعوت نہ دو۔ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ نائب صدر جے ڈی وینس بھی مہمان صدر کو پڑ گئے کہ تمہارا لہجہ مناسب نہیں اور یہ کہ جنگ لڑنے کے لیے آپ کے ملک کو نفری کے مسائل درپیش ہیں۔ صدر زیلنسکی نے استفسار کیا کہ آپ کتنی مرتبہ میرے ملک گئے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آپ کی معلومات میرے ملک کے بارے میں درست نہیں۔ دونوں طرف سے لہجے تلخ تر ہو رہے تھے کہ ایک صحافی نے کہا کہ اس موقع اور اس جگہ جہاں آپ بیٹھے ہیں‘ کی مناسبت سے آپ کو سوٹ میں ملبوس ہونا چاہیے تھا۔ صدر زیلنسکی کا جواب تھا کہ جب امن آئے گا تو میں سوٹ بھی پہن لوں گا‘ جواب اچھا تھا‘ ویسے بھی آپ کسی ملک کے سربراہ کو یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ کس قسم کا لباس پہنے۔ مؤقر امریکی ہفت روزہ نیوز ویک نے اس پریس کانفرنس کو امریکی غنڈہ گردی قرار دیا ہے۔ امریکی نائب صدر نے الزام لگایا کہ آپ ہمارے الیکشن کی تیاری کے دنوں میں امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ پریس کانفرنس ساس بہو کی تُو تُو میں میں میں بدل چکی ہے۔
دفاعی اداروں میں ایک اصطلاح عام استعمال ہوتی ہے اور وہ ہے Threat Perception (خطرے کا ادراک)۔ مطلب یہ کہ کون سا ملک آپ کے لیے کس قسم کا خطرہ بن سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی یوکرین کے بارے میں مختلف آرا کو سمجھنا ہو تو یہ جاننے کی کوشش کریں کہ دونوں کو خطرے کا ادراک کس جانب سے ہے۔ یورپ کے لیے سب سے بڑا خطرہ روس ہے اور اس کی تاریخی وجوہات ہیں جبکہ امریکہ کے لیے اس وقت سب سے بڑا حریف چین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ سے بے آبرو ہو کر صدر زیلنسکی لندن پہنچے تو یورپی لیڈرز اُن سے پُرتپاک انداز سے ملے تاکہ کچھ اشک شوئی ہو جائے ‘لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یورپ اکیلا اس جنگ کا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا۔ ماضی قریب کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جنگ ہو یا امن‘ یورپ کو امریکہ سے مدد لینا پڑی ہے۔ اس بات کا ایک واضح ثبوت 1995ء کا Dayton Agreement ہے جو بلقان میں امن لانے کی غرض سے کیا گیا تھا۔ امریکہ‘ یورپ اتحاد میں ایک دراڑ تو پڑی ہے‘ مگر یہ اتحاد ختم ہونے کو ہے‘ یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ کچھ ایسی ہی صورت نیٹو کے دفاعی معاہدے کی ہے۔ جب سرد جنگ ہوئی تو وارسا پیکٹ تحلیل ہو گیا۔ اس وقت کہا جا رہا تھا کہ نیٹو بھی ختم ہو جائے گا لیکن پہلے نائن الیون اور پھر روس کی کریمیا پر چڑھائی نے نیٹو کو نئی زندگی بخش دی۔ یوکرین کی موجودہ جنگی صورتحال سے لگتا ہے کہ صدر زیلنسکی کا مستقبل زیادہ تابناک نہیں ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ صرف روس اور امریکہ یہ جنگ ختم نہیں کر سکتے‘ مذاکرات کی میز پر یوکرین کا بیٹھنا ضروری ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ زیلنسکی اگر سکیورٹی گارنٹی والی بات پر ڈٹے رہے تو یوکرین میں رجیم چینج یا حکومت تبدیل کرانے کا حربہ بھی آزمایا جا سکتا ہے۔ یوکرین کے سفارتکار اکثر ہمیں کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی جیو پولیٹکل پوزیشن کو ہم سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا کیونکہ پاکستان کی طرح ہم بھی ایک بڑی اکائی سے الگ ہوئے ہیں‘ جو ہماری آزادی کو ذہنی طور پر تسلیم نہیں کر پائی۔ جب یوکرین آزاد ہوا تو اس کے پاس وافر مقدار میں ایٹمی ہتھیار تھے۔ یہ ایٹمی اثاثے ایسے وعدے وعید کر کے سرنڈر کرائے گئے کہ یو کرین پر کوئی حملہ نہیں ہوگا اور پھر 2014ء میں روس نے یو کرین کے علاقے کریمیا پر حملہ کر کے اسے اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔ اگر پاکستان بھی ایٹمی صلاحیت حاصل نہ کرتا تو شاید ہمارا حشر بھی یو کرین والا ہوتا۔
2014ء میں یو کرین کو شدید عدم تحفظ کا احساس ہوا تو وہ یورپی یونین کی جانب دیکھنے لگا۔ اسے امید تھی کہ نیٹو اسے تحفظ فراہم کرے گا اور اب تو یو کرین نیٹو کی ممبر شپ کا امیدوار ہے‘ جو روس کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ روس اور نیٹو میں شدید عدم اعتماد کی کیفیت ہے۔ جب سرد جنگ کے اختتام پر مشرقی اور مغربی جرمنی کا اتحاد ہوا تو روس سے وعدہ کیا گیا تھا کہ مشرقی یورپ کی جانب نیٹو ممبر شپ بڑھائی نہیں جائے گی لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ اس وقت سے آج تک‘ درجن سے زیادہ یورپی ممالک نیٹو ممبر بن چکے ہیں۔ آخری اضافہ 2022ء میں سویڈن اور فن لینڈ کا ہوا‘ جو روس کے یوکرین پر حملے کا ردعمل تھا۔
ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ امن اور جنگ‘ دونوں حالتوں میں چھوٹے ممالک کیلئے احتیاط لازم ہے۔ ایٹمی اثاثے بڑی حد تک امن کی ضمانت ہیں۔ اگر یوکرین اپنے ایٹمی اثاثے سرنڈر نہ کرتا تو آج اس کی یہ حالت نہ ہوتی۔ یورپ اور امریکہ کی مدد کے باوجود یوکرین اپنی 20فیصد اراضی کھو بیٹھا ہے۔ صدر زیلنسکی نے بھی امریکی قیادت کو ترکی بہ ترکی جواب دیے اور ان کی تمام مصروفیات کینسل کر دی گئیں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ جب آپ کمزور حالت میں ہوں تو غیرت کے جذباتی نعرے سودمند نہیں ہوتے۔

متعلقہ خبریں۔

Check Also
Close
Back to top button