اُستاد کے مرتبے سے بے خبری؟
(ڈاکٹر حسین احمد پراچہ)
مئی 1959ء سے دسمبر 1965ء تک ڈاکٹر نذیر احمد عالمی شہرت یافتہ درسگاہ گورنمنٹ کالج لاہور کے سات برس تک پرنسپل رہے۔ یہ کالج 1864ء میں قائم ہوا اور اسے باقاعدہ یونیورسٹی کا درجہ 2002ء میں حاصل ہوا۔ اس مرکزِ علم و دانش کی سربراہی کے منصب پر بڑی ممتاز شخصیات فائز رہی ہیں۔ ڈاکٹر نذیر احمد کالج کی تاریخ کے ایک کامیاب پرنسپل تھے۔ وہ نہ صرف بلند پایہ سائنسدان دان تھے بلکہ عظیم اہلِ قلم و ادیب بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک سچے مسلمان تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں معلم‘ مربی اور منتظم تھے۔
اپنی درویش صفت شخصیت کی بنا پر وہ طلبہ کے دلوں پر راج کرتے تھے۔ ان کی اصول پسندی اور ہر دلعزیزی کا بہت شہرہ تھا۔ ان کی کسی حق گوئی سے اس زمانے کے سخت گیر گورنر مغربی پاکستان نواب ملک امیر محمد خان بہت ناراض ہو گئے۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کا لاہور کے ہی کسی کالج میں تبادلہ کر دیا۔ گورنمنٹ کالج کے طلبہ بالعموم سڑکوں پر آ کر احتجاج نہیں کرتے مگر اتنے ہر دلعزیز استاد کے تبادلے پر طلبہ نہایت منظم طریقے سے لاہور کی سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ سراپا احتجاج تھے‘ ان کا ایک ہی نعرہ تھا کہ ”ہمارا باپ واپس دو‘ ہمارا باپ واپس دو‘‘۔ بالآخر نواب ملک امیر محمد خان جیسے تند مزاج حکمران کو طلبہ کے جائز مطالبے کے سامنے جھکنا پڑا اور ڈاکٹر صاحب کو دوبارہ گورنمنٹ کالج بھیج دیا گیا۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب ایسے واجب الاحترام اساتذہ کسی تعلیمی ادارے کے سربراہ ہوں گے تو ادارے میں حسنِ انتظام بھی ہو گا‘ میرٹ کا نظام بھی ہو گا‘ اعلیٰ تدریسی و تحقیقی کلچر بھی رائج ہو گا۔
جمعرات 23 جنوری کو وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں میں نظر آنے والی بدحالی کی اصلاح کے لیے اساتذہ کے بجائے بیورو کریٹس کو وائس چانسلرز کے رتبۂ بلند پر متعین کریں گے‘ جو کہہ دیا گیا ہے اس پر احتجاج کرنے والے اساتذہ سر تسلیم خم کریں ورنہ خود کو احتساب کے لیے تیار کر لیں۔ حیرت ہے کہ بظاہر کراچی کی علمی و ادبی سرگرمیوں کی رونق بڑھانے والے وزیراعلیٰ تعلیم و تدریس کے شعبے سے اتنے لاعلم ہیں۔ ایک عام بی اے‘ ایم اے پاس بیورو کریٹ کس طرح علمی و تحقیقی کاموں کو سمجھ سکتا ہے‘ اسے کیا خبر کہ ایم فل کیا ہوتا ہے اور پی ایچ ڈی کے لیے عالمی معیار کی ریسرچ کسے کہتے ہیں۔ کیا شاہ صاحب کو معلوم نہیں کہ ایک معلم کون ہوتا ہے؟ معلم ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو ”اندر کی روشنی‘‘ کو باہر لاتا ہے۔ جو لوگوں کو بلندیوں کی راہیں دکھاتا ہے‘ جو دلوں کو اقبال کے الفاظ میں‘ سوزو سازِ آرزو اور ذوق و شوق کی حرارت سے بھر دیتا ہے‘ جو خود کسی مقصد کا دیوانہ ہوتا ہے اور دوسروں میں بھی ایسی ہی خوبصورت دیوانگی پیدا کر دیتا ہے‘ جو خود فنا فی العلم ہوتا ہے اور علم و آگہی کے لیے ایسی دیوانگی و وارفتگی اپنے گرد و پیش میں تمام طلبہ و طالبات میں اجاگر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش و کاوش کرتا ہے۔
بیورو کریٹس کو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز بنانے کے بارے میں جو دلائل شاہ صاحب نے دیے ہیں‘ انہیں سن کر ناطقہ سر بگریباں ہے کہ اسے کیا کہیے۔ وہ فرماتے ہیں کہ پبلک یونیورسٹیوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ تین سندھی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز پر جنسی ہراسانی جبکہ چوتھے وائس چانسلر پر کرپشن کے الزامات ہیں‘ میں انہیں فارغ کرنا چاہتا تھا مگر وہ عدالتی سٹے آرڈر لے کر اپنی جگہ براجمان ہیں۔ مراد علی شاہ صاحب سے پوچھنے والی بات یہ ہے کہ کیا بیورو کریٹس ہراسانی اور بدعنوانی کے مرتکب نہیں ہوتے؟ اساتذہ میں سے تو شاذ و نادر‘ کوئی اِکّا دُکّا اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں جبکہ بیورو کریٹس تو الّا ماشاء اللہ ایسی ہی کارروائیوں کی شہرت رکھتے ہیں۔ شہروں بالخصوص کراچی میں بدامنی‘ قتل و غارت گری اور انتظامی بدحالی کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیا کراچی شہر کے منتظمین بیورو کریٹس نہیں‘ اساتذہ ہیں؟ آج بھی اکثر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز ایک طرف علم و تحقیق کے قدر داں اور دوسری طرف اچھے منتظم ہیں۔ اس فقیر کی ساری عمر بھی ملکی و غیر ملکی دانش گاہوں میں گزری ہے۔ ہم نے ایک سے بڑھ کر ایک استاد کو نہایت اچھا منتظم پایا ہے۔
میں تو ایک کالم نگار ہوں‘ کوئی تحقیقاتی رپورٹر نہیں۔ تاہم میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ اسباب کیا ہیں جن کی بنا پر وزیراعلیٰ سندھ وائس چانسلرز پر اتنے برہم ہیں۔ تھوڑی سی تحقیق سے مجھے معلوم ہوا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی یونیورسٹی کے ایک نہایت واجب الاحترام استاد کو سندھ کی ایک بڑی یونیورسٹی کا 2016ء میں سلیکشن کمیٹی کے ذریعے وائس چانسلر مقرر کرایا۔ یہ صاحبِ علم پروفیسر اصول پسند بھی تھے اور ہر دلعزیز بھی۔ صرف ایک سال کے بعد‘ مبینہ طور پر مراد علی شاہ صاحب نے اپنے ایک افسر کی مزید ترقی کے لیے ضابطے کی کارروائی مکمل کرتے ہوئے اس کی بی اے کی ڈگری ان وائس چانسلر کے پاس بھیجی اور فون پر کہا کہ اس کی تصدیق کر دیں۔ وی سی صاحب نے پورا ایک دن لگا کر یونیورسٹی ریکارڈ کی خوب چھان پھٹک کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ڈگری جعلی ہے۔ انہوں نے ڈگری کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا جو وزیراعلیٰ کو بہت ناگوار گزرا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد سندھ کے ایک اہم ضلع کے ایک ڈپٹی کمشنر کسی پرائیویٹ لاء کالج کے سٹوڈنٹ کے طور پر ایک اور ضلع میں امتحان دینے آئے۔ امتحان وہ اس شان سے دینے آئے کہ ان کے ساتھ دو وکلا تھے۔ وہ خود امتحانی سنٹر کے آفس میں چائے نوش فرما رہے تھے اور ان کے ہمراہ آنے والے وکیل ان کا پرچہ حل کر رہے تھے۔ اس دوران وائس چانسلر صاحب کی یونیورسٹی کی امتحانی چھاپہ مار ٹیم وہاں پہنچ گئی اور یوں سارا معاملہ طشت ازبام ہو گیا۔ اس پر بھی اعلیٰ حکام بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے پارٹی کے ایک جونیئر عہدیدار کے ذریعے وائس چانسلر صاحب سے استعفیٰ طلب کیا۔ وی سی صاحب نے انکار کیا تو انہیں جبری رخصت پر گھر بھیج دیا گیا۔ چونکہ استاد محترم کا دامن بے داغ تھا اس لیے وہ عدالت جا پہنچے‘ عدالت نے وزیراعلیٰ کو بھی طلب کر لیا۔ دو تین سال مقدمہ چلتا رہا مگر پروفیسر صاحب کے خلاف کچھ نہ ثابت ہو سکا اور انہوں نے اپنی چار سالہ مدت ملازمت کچھ گھر بیٹھ کر اور کچھ یونیورسٹی میں فرائض انجام دے کر مکمل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب 2018ء میں سندھ اسمبلی میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنے دورِ حکومت کی سنہری تعلیمی کارکردگی بیان کرتے ہوئے سب سے پہلے مذکورہ بالا زیر عتاب پروفیسر صاحب کا نام لیا کہ ہم نے میرٹ پر ایسی اعلیٰ شخصیات کا بطور وائس چانسلر تقرر کیا تھا۔
وزیراعلیٰ سندھ اعلیٰ تعلیم یافتہ کامیاب انجینئر ہیں‘ انہیں ذاتی رنجشوں سے بلند و بالا ہونا چاہیے۔ یونیورسٹی ایک علمی و روحانی تربیت گاہ ہے۔ یہ کام بیورو کریٹ نہیں‘ ایک حقیقی معلم و مربی ہی انجام دے سکتا ہے۔ جس طرح انجینئرنگ کے شعبے کا انچارج ایک انجینئر ہی ہوتا ہے۔ ہماری سیاسی حکومتیں یس مین بیورو کریٹ کو امرت دھارا سمجھتی ہیں۔ جس طرح ایک بیورو کریٹ جہاز نہیں اڑا سکتا اسی طرح وہ ایک یونیورسٹی بھی نہیں چلا سکتا۔ علم شناس اور ادب نواز وزیراعلیٰ حقیقی استاد کا رتبہ پہچانیں اور بیورو کریٹس کو وائس چانسلرز لگانے کا خیال دل سے نکال دیں۔