چین سیٹلائیٹ کے محاذ پر بھی امریکہ سے آگے نکل گیا۔
چین نے سیٹلائٹ سے زمین تک لیزر کمیونیکیشن میں نئی بلندیوں کو چھو کر ایلون مسک کی اسٹار لنک کو پیچھے چھوڑ دیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 6 جی حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ سیٹلائیٹ اور لیزر کمیونیکیشن کا استعمال کرتے ہوئے دیگر ٹیکنالوجی کے استعمال کے قریب ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چینی کمپنی چانگ گوانگ نے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی آزمائش کے دوران 100 گیگا بِٹ فی سیکنڈ کی الٹرا ہائی اسپیڈ پر تصویری ڈیٹا منتقل کرنے کا نیا سنگِ میل عبور کیا ہے،یہ رفتار کمپنی کی جانب سے بنائے گئے گزشتہ ریکارڈ سے 10 گنا زیادہ ہے۔
چین نے سیٹلائٹ ٹو گراؤنڈ لیزر کمیونیکیشنز میں ایک اہم کامیابی حاصل کی جو 6 جی اور دیگر فیوچرِسٹِک ایپلی کیشنز کیلئے نئی راہ ہموار کرے گی جس میں انتہائی ہائی ریزولوشن کے ساتھ ریموٹ سینسنگ اور نیکسٹ جنریشن سیٹلائٹ پوزیشننگ ٹیکنالوجی شامل ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق 100 جی بی پی ایس کی رفتار100فلموں کو ایک سیکنڈ میں خلا سے زمین پر منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے،کمپنی کے گراؤنڈ اسٹیشن کے سربراہ نے چین میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ ٹیکنالوجی فی الحال ایلون مسک کے اسٹار لنک کے نئے منصوبے سے ایک قدم آگے ہے۔
ایلون مسک کے اسٹار لنک نے اپنا انٹر سیٹلائٹ کمیونیکیشن سسٹم متعارف کرایا لیکن اب تک لیزر کے ذریعے سیٹلائٹ ٹو گراؤنڈ کمیونیکیشن نصب نہیں کیا،ہمیں یقین ہے کہ ان کے پاس ٹیکنالوجی ہو سکتی ہے،لیکن ہم نے پہلے ہی بڑے پیمانے پر تنصیبات شروع کر دی ہیں۔
کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ ہم اپنے تمام 117 ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹس کو نئی لیزر ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،انہوں نے 2027 تک 300 سیٹلائٹس کے نیٹ ورک منسلک کرنے کی امید بھی ظاہر کی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق چانگ وانگ نے لیزر سسٹم نیویگیشن 6 جی انٹرنیٹ اور ریموٹ سینسنگ سمیت چینی سیٹلائٹ انفراسٹرکچر کی تنصیب اور موثر آپریشن کی نئی بنیاد رکھ دی ہے،لیزر کے ذریعے ڈیٹا کی بڑی مقدار کی ترسیل نہ صرف زیادہ قابل اعتماد ہے بلکہ دیگر طریقوں کے مقابلے میں زیادہ سرمایہ کاری کا موقعہ بھی ہے۔
چینی کمپنی کے مطابق یہ سیٹلائٹ ڈیٹا کے سویلین اور فوجی استعمال کے حوالے سےبہت بڑی پیشرفت ہے،یہ ٹیکنالوجی ڈیزاسٹر مانیٹرنگ،نیشنل ڈیفنس،اسمارٹ سٹیز اور ماحولیاتی تحفظ میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔
چین کی طرح دیگر ترقی یافتہ ممالک کے سویلین اور فوجی تحقیقی ادارے بھی خلا سے ڈیٹا کی ترسیل بڑھانے کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں،ناسا اور ایم آئی ٹی پہلے ہی اپنے “Terabyte Infrared Delivery System کے ٹیسٹوں میں 200 جی بی پی ایس تک پہنچ چکے ہیں۔
فرانس بھی اس سلسلے میں تحقیق کر رہا ہے لیکن چانگ گوانگ پہلی کمپنی ہے جس نے لیزر پر مبنی ترسیل کی اتنی زیادہ رفتار کو یقینی بنایا ہے۔