دفاع پاکستان

لیفٹیننٹ شہیرشہید

(فرح مصباح)

علامہ اقبال کے کہے ہوئے الفاظ آج ہماری قوم کے نوجوانوں کے لیے نہ صرف مشعل راہ ہیں بلکہ ایک ،قندیل کی مانند ہیں جو ان کو آگے بڑھتے ہوئے راستے پر روشنی مہیا کرتے ہیں ۔ہماری قوم کا وہ طبقہ جو چاہے برف کی سلوں پر لیٹ کر اپنے ملک کے لوگوں کی دشمنوں سے حفاظت کرتا ہوا نظر آتا ہے یا پھر آسمان کی بلندیوں پہ باد مخالف سے الجھتا نظر آتا ہے یا پھر وہ طبقہ جو پانی کے سینے کو چاک کر کے  دشمنوں سے نبرد آزما ہوتا ہے یا وہ محافظ جو ہمارے ملک و قوم کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کے سامنے سینہ سپر نظر آتے ہیں، بلاشبہ نہایت قابل تعریف ہیں۔  ان لوگوں کی اسی جواں مردی کے باعث دن میں لوگ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور رات کو چین کی نیند سوتے ہیں ورنہ دشمن جو کہ ہماری گھات لگائے بیٹھا ہے، کسی وقت بھی ملک کے معصوم لوگوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے بہت سارے نوجوان کہ جن کی ماں نے ابھی ان کے سہرہ سجانے  کے خواب دیکھے ہوںگے، اس سے پہلے ہی وہ جنت کے مکین بن جاتے ہیں مگر بلاشبہ وہ عظیم والدین ان کی اس بہادری پر خوش وخرم نظر آتے ہیں اور سلام ہے ان والدین کو جواپنے بڑھاپے کے سہاروں کو اس ملک  پر اور اس ملک کے لوگوں پرقربان کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی نوجوانوں میں سے ایک نوجوان لیفٹیننٹ شہیر شہید بھی ہیں۔

لیفٹیننٹ محمد شہیر راز 8  نومبر 1996 کو بروز جمعہ کراچی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی تمام تعلیم کراچی سے حاصل کی۔ آرمی ٹریننگ کے لیے اپریل 2016 پاکستان ملٹری اکیڈمی میں گئے تھے، اپریل2018 ء میں پاس آئوٹ ہوئے ۔ ان کی پہلی پوسٹنگ سیاچن میں تھی۔جولائی2018 ء میں آرٹلری کورس کے لیے نوشہرہ گئے جہاں انھوں نے گولڈ میڈل اور سلور میڈل حاصل کیا۔کورس مکمل ہونے کے بعد دوبارہ سیاچن چلے گئے تھے۔جولائی 2019 ء میں ایک بار پھروہ انفینٹری کورس کے لیے منتخب ہوئے جس کے لیے کوئٹہ روانہ ہو گئے۔ وہاں بھی ان کی ساتویں پوزیشن تھی۔ د و سال ٹریننگ اور دو سال آفیسرز کے طور پر گزارے گئے چار سالوں میں ویسے تو چھٹی آتے تھے مگر کوئی عید گھر نہیں کر سکے۔2020 میں مشکل سے ان کو چھٹی ملی، وہ اپنی بہن کو سرپرائز دینا چاہ  رہے تھے جو اعتکاف میں تھی۔لاہور سے آنے والی پرواز PK8303 جو  لینڈنگ سے چند سیکنڈ قبل حادثے کا شکار ہو گئی،اسی میں شہیر بھی تھے۔ شہیر کو آرمی کے 137 لانگ کورس کے پہلے شہید ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔شہیر کی والدہ اس واقعے کے بارے میں کیا کہتی ہیں،  انھی کے الفاظ انہی کی زبانی ۔۔۔۔۔جمعرات 21 مئی تراویح کے بعد شہیر نے چھٹی کے بارے میں آگاہ کیا،میں نے اور بریرہ نے مل کر سحری سے پہلے اس کی الماری کی صفائی کی،کپڑے پریس کیے،سحری کے بعد پوری رات جاگنے کے باوجود خوشی کے مارے نیند کوسوں دور تھی، دوپہر مارکیٹ کھلنے پر ہم اس کے لیے عید کا سوٹ خریدنے گئے۔ شہیر نے ویڈیو کال پر خود اپنے لیے سوٹ کا کلر پسند کیا،خریداری کے بعد ہم گھر کی طرف اور وہ ائیرپورٹ کے لیے روانہ ہو۔ گھر آ کر نماز اور نفلی عبادت کے بعد میں حسبِ معمول تھوڑی دیر سستانے کے لیے لیٹی،یہ میرا روز کا معمول تھا کہ میں صرف لیٹتی تھی سوتی نہیں تھی مگر اس دن لیٹتے ہی میری آنکھ لگ گئی،میں نے اپنے بارے میں بہت برا خواب دیکھا، آنکھ کھلتے ہی میں نے ٹائم دیکھا تو ابھی مجھے لیٹے ہوئے صرف پانچ منٹ ہی گزرے تھے، میرا دھیان بار بار خواب کی طرف جا رہا تھا۔ میں نے سر جھٹک کر شہیر کے بارے میں سوچا اور افطاری کے لیے شہیر کی تمام پسندیدہ ڈشز بنانے کے لیے کچن جانے کے ارادے سے اٹھی تو شہیر کے دوست اسامہ کا فون آیا۔ اس نے مجھ سے شہیر کے بارے میں پوچھا کہ گھر پہنچ گیا؟میں نے جواباً کہا کہ ابھی تو جہاز لینڈ کیا ہو گا،ٹریفک کی وجہ سے گھر پہنچتے اسے ایک گھنٹہ لگے گا۔اس نے کال منقطع کرنے کے بعد چند منٹ کے وقفے سے دوبارہ کال کی کہ آنٹی شہیر گھر آیا؟میں نے مذاقاً ہنستے ہوے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے بتایا ہے کہ ایک گھنٹے تک آئے گا۔اس نے جواباً کہا کہ آپ کیا کر رہی ہیں؟(بھئی آپ کے دوست کے لیے افطاری کی تیاری کر رہی ہوں)آپ پہلے ٹی وی لگائیں۔میں نے فوراً ٹی وی آن کیا۔جس پر میری زندگی کی سب سے بری خبر چل رہی تھی۔میں نے فوراً شہیر کے نمبر پر کال کی۔نمبر بند جا رہا تھا اور ساتھ ہی دماغ نے بھی کام کرنا بند کر دیا۔شہیر کے والد فوراً جائے حادثہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم سب کو تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرنا ہے۔میری سب سے بڑی بیٹی شافیہ جو کہ اعتکاف میں تھی اور اسی کو سرپرائز دینے شہیر چھٹی آ رہا تھا، بقول اس کے کہ میرے دل نے عصر کے بعد گواہی دے دی تھی کہ شہیر اور ہم میں جدائی مقدر ہو چکی ہے۔وہ مجھے سرپرائز دیتے دیتے ہم سب کو ہی سرپرائز دے گیا ہے۔ہم آخر وقت تک اس آس اور امید کے ساتھ بندھے رہے کہ معجزہ ہو گا مگر سب امیدیں دم توڑ گئیں۔کافی دنوں تک تو ہمیں قسمت کی اس ہولناکی پر یقین ہی نہیں آیا مگر قدم قدم پر کٹھن مراحل نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ جنت کے راستوں کا راہی بن چکا ہے۔ہم سب کے دلوں میں اس کی جدائی کی تکلیف تو آخری سانس تک رہے گی۔ جو اس کے ساتھ گزر رہی تھی وہی زندگی تھی ،اب جو اس کے بغیر گزر رہی ہے وہ عمر ہے۔ 

 شہیر جو کہ بچپن سے اکثر اپنا نام شہید ہی لکھ لیا کرتا اور جب پرائمری سیکشن میں بچے اسے شہیرکے بجائے شہید کے نام سے تنگ کرتے تو وہ برا ماننے کے بجائے اس بات پر خوشی محسوس کرتا اور اس لفظ کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ۔نصابی کتابوں میں جب نشان حیدر کا سبق آتا تو کتنی دیر شہدا کی تصاویر کو دیکھتا ،ان تصویروں کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک چمک ہوتی۔ ان دنوں میں جب بچے جھولے جھولنا زیادہ پسند کرتے تو اس کی خواہش ہوتی کہ پی اے ایف، بحریہ میوزیم اور مزار قائد جایا جائے ۔شہیر کو میوزیم میں ہر جہاز کے ساتھ لکھی ہوئی معلومات زبانی یاد ہوتیں وہ دیگر بچوں سے تھوڑے مختلف تھے ۔چار سال کی عمر میں اسکول کے ایک پروگرام  میں سورہ رحمن کی تلاوت کی اور پھر ہر سال پروگرام کا آغاز  شہیرکی ادا کی جانے والی سورہ رحمن کی تلاوت سے ہوتا۔ سورہ رحمن سے اس کو خاص لگائو تھا۔ شہادت سے صرف ایک دن پہلے میس کے ٹی بار میں اپنے ایک سینئر آفیسر سے بھی سورہ رحمن پر گفتگو کی اور شہادت سے دو دن پہلے اپنی والدہ کو کہا کہ جب چھٹی پر گھر آئوں گا تو آپ کو اس آیت کا ترجمہ اور تفسیر سنائوں گا۔ آپ پوری سورة میں سے مجھ سے کہیں سے بھی سوال کر سکتی ہیں۔چھ سال کی عمر میں مختلفرنگوں سے اللہ کا نام لکھا سات سال کی عمر میں قرآن ناظرہ ختم کر لیا ۔زمانہ اسکول میں بیسٹ سٹوڈنٹ اور مقابلہ نعت خوانی ،مقابلہ تقریر کے مختلف سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔  ایس ایس سی پارٹ ون میں میٹرک بورڈ میں نائنٹی ٹو پوائنٹ ٹو پرسنٹیج%92.2 حاصل کی۔شہیر کا اخلاق بہت بلند تھاوہ بڑوں کی عزت کرتا دوسروں کا خیال رکھتا۔ پاک فوج سے نہایت محبت تھی۔ انتھک محنت اور لگن سے پاک آرمی میں بھی ایک مقام بنایا گو کہ شہید کی شہادت جنگی محاذ پر نہ ہوئی لیکن اس کا جذبہ شہادت پورا ہوا۔بشکریہ ہلال۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button