انٹرٹینمنٹکالم

جھوٹے روپ کے درشن

(طیبہ سید)
میں اسے ناول سمجھ رہی تھی لیکن جب اسے پڑھنا شروع کیا تو یہ جان کر کافی مایوسی ہوئی یہ تو خطوط ہیں۔ مگر خطوط کے ذریعے پوری کہانی کا قاری پر عیاں ہو جانا ایک منفرد انداز ہے۔ اب اتنی فراغت نصیب میں نہیں ہے کہ کوئی کتاب ایک نشست میں مکمل کر پاوں۔ مگر یہ کتاب کھولی تو اس نے مجھے اپنے آپ کو بند نہ کرنے دیا۔ ایک ہی نشست میں یہ کتاب مکمل کی ۔ خطوط کے ذریعے محبت کی یہ داستان پڑھنا ایک دلچسپ تجربہ رہا۔
اوائل میں تو یہ کہانی مجھے جنریشن زی کی کہانی محسوس ہوئی۔ مگر راجہ صاحب نے تو ہمارے بزرگوں کے سارے راز بھی کفن پھاڑ کر باہر کر دیئے ہیں۔ ستر کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی میں عشق معشوقی اور طلبا کا سیاسی شعور ہم آج کے نوجوانوں کو ہلا دینے کےلیے کافی ہے۔

جھوٹے روپ کے درشن” راجہ انور کی ایک بے حد دلچسپ اور چونکا دینے والی خودنوشت ہے ، جو محض ذاتی یادداشتوں سے زیادہ، ایک دور کی سیاسی، سماجی اور فکری عکاسی پیش کرتی ہے۔ اس کتاب میں راجہ انور نے اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کو بے باکی اور سچائی سے بیان کیا ہے، خاص طور پر اُن دنوں کی داستان جب وہ بھٹو دور میں جمہوری جدوجہد کا حصہ بنے، اور پھر سیاسی مخالفت کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کا اندازِ تحریر سادہ، رواں اور بے ساختہ ہے، جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ کتاب میں انسان کی فطری کمزوریوں، سیاسی وفاداریوں اور وقت کے ساتھ بدلتے چہروں کو انتہائی باریکی سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب تاریخ کی کئ کتابوں سے زیادہ سچی اور کوری محسوس ہوئی ۔

یہ کہانی صرف ایک سیاسی کارکن کی آپ بیتی نہیں بلکہ ایک ایسی تحریر ہے جو قاری کو اپنی ذات کے جھوٹے اور سچے چہروں سے آشنا کرتی ہے۔ راجہ انور کی زندگی میں محبت، قربانی، دھوکہ، اور سیاست کے کڑوے سچ سبھی کچھ شامل ہے اور یہی اس کتاب کی جان ہے۔ “جھوٹے روپ کے درشن” نہ صرف راجہ انور کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا بیان ہے بلکہ ایک ایسی دستاویز ہے جو پاکستان کی تاریخ کے ایک اہم دور کی جھلک دکھاتی ہے۔

کنول(مرکزی کردار)، راجہ انور کی محبت کی وہ کہانی ہے جو خواب، تڑپ اور ادھورے پن کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی محبت بےلوث اور سچی تھی، جو وقت اور حالات کے ساتھ بچھڑنے کے باوجود ہمیشہ دل و تحریر میں زندہ رہی۔ کنول کا ذکر ان کی تحریر کو جذباتی گہرائی اور خوبصورتی عطا کرتا ہے۔ جھوٹے روپ کے درشن راجہ صاحب کی اپنی محبوبہ کو لکھے گئے خطوط اور چند خطوط کنول کے ان کو لکھے ہوئے تھے، ان پر مبنی ہے۔ میرے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی اپنے بارے میں اتنا سچ اور کھلا سچ کیسے لکھ سکتا ہے؟ محض ان خطوط سے آپ ایک سیاسی اور باشعور طالب علم کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی محبت کا اندازہ لگا سکتے ہیں تو خطوط کے علاہ جو وقت انہوں نے گزارا وہ کیسا ہوگا۔
یہ خطوط انہوں نے اپنی محبوبہ کی اجازت سے اور اصلی ناموں سے چھاپے ہیں۔ میں تو محبوبہ کی دلیری پر بھی حیران ہوں۔
جھوٹے روپ کے درشن میں راجہ صاحب مجنوں بھی نظر آئے اور سچائی کے زہر اگلتے بھی۔
بظاہر اس سادہ سی کہانی میں زندگی کے بہت سے پہلو ، بہت سے سچ پوری طرح عیاں ہوتے ہیں۔
یہ اس مختصر سی کہانی میں اتنا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس کا خلاصہ لکھنا ممکن نہیں ۔ یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاھیے جو سچ کا متلاشی ہو۔
اس کا آخری خط بیگم صاحبہ پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ راجہ صاحب اپنے جذبات کو لے کر بہت کھرے تھے ۔ وہ جذبات محبت کے ہوں ، ناپسندیدگی گے یا انتقام کے۔
مگر کہیں کہیں تھوڑے سے زہریلے بھی محسوس ہوئے ۔۔۔سچے جو تھے ۔
قصہ مختصر یہ کتاب محبت کا مقدمہ ہے جو مصنف نے عوام کی عدالت میں اپنی محبوبہ کے خلاف دائر کیا ہے۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button