”اوراق زندگی“ 14آپ بیتیوں پر مشتمل منفرد کتاب


(نسیم شاہد)
آپ بیتی اردو ادب کی ایک مقبول اور اہم صنف ہے۔ یوں تو ہر شخص کے پاس اپنی زندگی کی کہانی سنانے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے، تاہم وہ شخصیات جو معاشرے میں اپنی محنت، صلاحیت اور جہد مسلسل کے نتیجے میں نمایاں مقام حاصل کر لیتی ہیں، ان کے پاس زندگی گزارنے کے وہ سنہری اصول اور راز ہوتے ہیں جو دوسروں تک پہنچنا چاہئیں تاکہ چراغ سے چراغ جلتا رہے۔ انفرادی آپ بیتیوں پر مشتمل تو سینکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں تاہم ’قلم فاؤنڈیشن‘ لاہور نے ایک ایسی کتاب شائع کی ہے، جس میں بیک وقت 14شخصیات کی آپ بیتیاں شامل ہیں۔ قلم فاؤنڈیشن لاہور کے روحِ رواں علامہ عبدالستار عاصم ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی کتابیں شائع کرتے ہیں جو اپنی اہمیت کے لحاظ سے زندہ تخلیقات میں شمار ہوتی ہیں۔ ”اوراقِ زندگی“ کے نام سے شائع ہونے والی اس کتاب کے مصنف عبدالستار اعوان ہیں جو ایک نامور صحافی اور مصنف ہیں۔ان کی اس کتاب کے پس ورق پر معروف صحافی اور تجزیہ نگار جناب مجیب الرحمن شامی نے لکھا ہے۔ ”عبدالستار اعوان نے 14منتخب افراد کی کتاب زندگی آپ کے سامنے کھول کر رکھ دی ہے۔ گویا ایک کتاب میں 14کتابیں سمٹ آئی ہیں۔انہیں پڑھیئے اور ان سے ملاقات کیجئے۔ جو ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں۔
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
14افردا کی کہانی اگر پوری قوم کی کہانی بن جائے تو عبدالستار اعوان کا سر بھی فخر سے بلند ہو جائے گا اور ہم سب بھی سربلندٹھہریں گے“۔
شامی صاحب نے اپنی چند سطور میں گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ 614صفحات پر مشتمل یہ کتاب اس لحاظ سے “جہان حیرت” ہے کہ اس میں جو شخصیات موجود ہیں ان کے بارے میں واقعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ذرے سے آفتاب بنی ہیں۔ انہوں نے ایک کٹھن سفر کیا ہے اور محنت سے اپنے راستے اجالنے کے لئے چراغ جلائے ہیں، یہ شاید اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں ایک دو نہیں پوری 14آپ بیتیاں موجود ہیں جن شخصیات کی آپ بیتیاں ہیں وہ آج پاکستان کے افق پر تابندہ ستاروں کی طرح جگمگا رہی ہیں۔ یہ کتاب دراصل “قومی ڈائجسٹ” میں تفصیل سے شائع ہونے والی یادداشتوں کا مجموعہ ہیں،جنہیں عبدالستار اعوان نے مسلسل ملاقاتوں کے بعد قلمبند کیا جو ان 14آپ بیتیوں کو کتابی صورت میں شائع کرکے قلم فاؤنڈیشن نے مختلف موضوعات پر تحقیق کرنے والوں کو ایک جگہ بہت سا مواد فراہم کر دیا ہے،کیونکہ تمام شخصیات اپنے عہد کی چلتی پھرتی اور جیتی جاگتی تاریخ ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے یہ شخصیات معاشرے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں، یوں اس کتاب کے مطالعے سے ایک متنوع تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ ان شخصیات میں صنعت کار، ادیب شاعر، صحافی، بیورو کریٹ، تحریک پاکستان کے کارکن، فوجی ہی خدمات سرانجام دینے والے سابق افسران، مذہبی سکالر، اخباری صنعت سے وابستہ کارکن، کالم نگار اور طالب علم رہنما شامل ہیں۔ اب اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں یہ کتاب کس قدر ہمہ جہت مواد اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے، جن شخصیات کی آپ بیتیاں اس کتاب میں شامل ہیں ان میں محمد وحید چودھری معروف صنعتکار، میاں ابراہیم طاہر صحافی کارکن تحریک پاکستان، محمد متین خالد مذہبی سکالر، ڈاکٹر یوسف عالمگیرین ادیب صحافی،ایثار رانا سینیٹر صحافی کالم نگار، امیر نواز نیازی، ادیب کالم نگار، لیفٹیننٹ کرنل شجاعت لطیف، بریگیڈئر (ر) صولت رضا، عبدالغفور چودھری بیورو کریٹ، حافظ شفیق الرحمن کالم نگار، اخبار نویس، انور گوندل،سابق طالب علم رہنما، میجر جنرل شفیق احمد جنگ ستمبر کے ہیرو، عامر خاکوانی، دانش ورکالم نگار اور زاہد بلند شہری اخبار نویس سیاسی کارکن شامل ہیں ان سب کے پیچھے ایک لمبا سفر موجود ہے اور ان کے پاس بتانے کو بہت کچھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آپ بیتی نہ صرف قاری کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے بلکہ زندگی کے ایسے تجربات بھی دے جاتی ہے جو زادِ راہ کا کام دے سکتے ہیں اس میں عبدالستار اعوان کی مہارت اور سامنے بیٹھی شخصیات کے حالات زندگی پر گہری نظر کا بھی کمال ہے کہ وہ ہر شخصیت سے وابستہ یادوں کے خزینے کو باہر لے آنے میں کامیاب رہے ہیں۔ آج ہم ان تمام شخصیات کو بخوبی جانتے ہیں لیکن ان کی داستانِ حیات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے انہیں یہ عزت، دولت، شہرت اور منزلت طشتری میں سجا کر نہیں پیش کی گئی بلکہ انہوں نے اس کے لئے بے انتہا محنت کی بے،بےسروسامانی کے عالم میں رخت سفر باندھا تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ صحافی و کالم نگار ایثار رانا کی زندگی کا تو میں ذاتی طور پر شاہد ہوں،تاہم جس تفصیل سے ان کی کہانی اس کتاب میں ملتی ہے،وہ آج کے نوجوان صحافیوں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ مسلسل محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور سیکھنے کی لگن انسان کو آگے سے آگے ہی لیتی چلی جاتی ہے۔
میری ایک بار معروف صنعت کار محمد وحید چودھری سے ان کے گھر ملاقات ہوئی تھی جہاں انہوں نے اپنی قریبی شخصیات کے لئے لنچ کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ جناب مجیب الرحمن شامی وہاں مدعو تھے، میں نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے مسلم ٹاؤن آنے کے لئے کہا۔ وہاں محمد وحید چودھری کی باتیں سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ملکی معیشت، سیاست اور معاشرت کے حوالے سے ایک باخبر اور صاحب الرائے شخصیت ہیں۔ ان کی اس کتاب میں موجود آپ بیتی پڑھ کر ان کی شخصیت کے اصل اوصاف تک رسائی حاصل ہوئی۔ صحافتی شعبے کی شخصیات حافظ شفیق الرحمن اور عامر خاکوانی سے کون واقف نہیں، ان کی زندگی کے اوراق تک رسائی ایک دلچسپ تجربہ تھا جو اس کتاب کے ذریعے حاصل ہوا۔ عسکری شعبے سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی آپ بیتیاں تاریخ کے جھروکوں سے بہت سے تناظر کو سامنے لاتی ہیں غرض اس کتاب میں موجود ہر شخصیت کی آپ بیتی قاری کو ایک انوکھے تجربے سے روشناس کراتی ہے۔
جناب مجیب الرحمن شامی کی زیرادارت شائع ہونے والاقومی ڈائجسٹ اپنے معیاری مواد کی وجہ سے قارئین کا ایک وسیع حلقہ رکھتا ہے۔ اس میں ان آپ بیتیوں یا یادداشتوں کی اشاعت اس کا ایک ایسا وصف ہے جو قومی ڈائجسٹ کو دیگر جریدوں سے ممتاز کرتا ہے۔ عبدالستار اعوان کی محنت اور صلاحیت کی داد دینا پڑتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف بہت جاندار انٹرویوز کئے بلکہ انہیں صفحہء قرطاس پر اتارتے ہوئے ایک حسن ترتیب کو سامنے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آپ بیتی ایک تسلسل کی صورت میں سامنے آتی ہے اور قاری کو کہیں بھی یہ دشواری نہیں ہوتی کہ وہ اس شخصیت کے حوالے سے کسی ابہام کا شکار ہو۔ کتاب بہت خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شائع کی گئی ہے جو قلم فاؤنڈیشن کا طرۂ امتیاز ہے۔ اس کی ایک اور خاص بات اس میں شامل شخصیات کی رنگین تصاویر ہیں۔ یوں حرف و صوت کا ایک ایسا امتزاج اس کتاب میں یکجا ملت اہے جو کسی بھی کتاب کی اہمیت اور خوبصورتی بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔(بشکریہ ۔روزنامہ پاکستان 8اپریل 2025ء)