تقریباً چاردہائیوں میں درجنوں علماء دہشت گردوں کانشانہ بن گئے
(خصوصی رپورٹ: صابرشاہ) معروف عالمِ دین، مولانا حامد الحق حقانی، اُن متعدد پاکستانی مذہبی رہنمائوں میں شامل ہیں، جو گزشتہ 38 برسوں کے دوران قاتلانہ حملوں میں جاں بحق ہوئے۔قاتلانہ حملوں کا شکار بننے والوں میں مولانا سمیع الحق ، علامہ احسان الٰہی ظہیر ، اعظم طارق، مفتی نظام الدین شامزئی ، مولانا سرفراز احمد نعیمی، علامہ حسن ترابی،علامہ ناصر عباس اور دیگر شامل ہیں۔ حامد الحق، جو 2002 میں نوشہرہ سے منتخب ایم این اے تھے اور جمعیت علمائے اسلام کے ایک دھڑے کے سربراہ تھے، کو جمعہ کے روز ان کے طالبان نواز مدرسے، دارالعلوم حقانیہ کی مسجد میں نشانہ بنایا گیا۔ وہ مولانا سمیع الحق کے فرزند تھے، جنہیں “طالبان کا روحانی باپ” کہا جاتا تھا ، وہ پہلے پولیو ویکسینیشن مہم کے مخالف تھے لیکن بعد میں اس کی حمایت کی تھی، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس مہم کے ذریعے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو مارنے کی سازش کی گئی تھی۔ سمیع الحق کو نومبر 2018 میں راولپنڈی میں چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ مولانا سمیع الحق نے ستمبر 2013 میں “برطانوی نیوز ایجنسی” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں طالبان کے ایک اہم رہنما، ملا عمر کو “فرشتہ” قرار دیا تھا۔گزشتہ 38 برسوں میں کئی دیگر ممتاز مذہبی رہنما بھی قتل کیے گئے۔ جنوری 2024 میں مسعود الرحمٰن عثمانی، جو سنی علماء کونسل کے نائب سیکرٹری تھے، اسلام آباد میں گولی مار کر قتل کر دیے گئے۔ یہ تنظیم سپاہِ صحابہ پر پابندی کے بعد وجود میں آئی تھی۔ دسمبر 2013 میں تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ کے رہنما علامہ ناصر عباس کو لاہور میں جان لیوا حملے میں قتل کر دیا گیا۔ اکتوبر 2020 میں کراچی کے جامعہ فاروقیہ کے سربراہ مولانا ڈاکٹر عادل خان کو مسلح موٹر سائیکل سواروں نے قتل کر دیا۔ وہ معروف عالمِ دین، مرحوم مولانا سلیم اللہ خان کے فرزند تھے، جنہوں نے کراچی کے مشہور جامعہ فاروقیہ کی بنیاد رکھی تھی۔فروری 2014 میں معروف عالم علامہ تقی ہادی نقوی کو کراچی میںشہید کر دیا گیا۔ دسمبر 2013 میں لاہور کے راوی روڈ پر فائرنگ کے واقعے میں ایک اور مذہبی رہنما، مولانا شمس الرحمان کو قتل کر دیا گیا۔ جنوری 2013 میں چنیوٹ میں ملک مختار حسین کو امام بارگاہ میں گولی مار دی گئی۔ نومبر 2012 میں کوئٹہ میں معروف مذہبی رہنما، آغا آفتاب حیدر جعفری کو گولی مار دی گئی۔جنوری 2012 میں ایک کالعدم عسکریت پسند تنظیم، انصار الاسلام کے کمانڈر، حاجی اخونزادہ کو پشاور میں ان کے گھر کے باہر خودکش حملے میں قتل کر دیا گیا۔ اسی سال جنوری میں “پاسبانِ جعفریہ” کے رہنما، عسکری رضا کو کراچی میں سالِ نو کے موقع پرقتل کر دیا گیا۔ جون 2009 میں ممتاز عالم، مولانا سرفراز احمد نعیمی کو لاہور میں ان کے جامعہ نعیمیہ مدرسے میں خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا۔فروری 2009 میں ڈی آئی خان میں مذہبی رہنما شیر زمان کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا، جس کے بعد کشیدگی کے باعث علاقے میں کرفیو نافذ کیا گیا اور فوج کو بلایا گیا۔ جنوری 2009 میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین، حسین علی یوسفی کو کوئٹہ میں گولی مار دی گئی۔ اسی سال ہنگو میں اہل سنت والجماعت کے نائب چیئرمین، مفتی رستم جاں بحق ہو گئے۔اگست 2008 میں خیبر ایجنسی میں ایک مسجد میں مقامی عسکریت پسند تنظیم “امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کے رہنما، حاجی نامدار کو قتل کر دیا گیا۔ ستمبر 2007 میں جے یو آئی اور وفاق المدارس کے ممتاز رہنما، سابق ایم این اے مولانا حسن جان کو پشاور میں قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا اور ملا عمر کو قائل کرنے کے لیے افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا تاکہ اسامہ بن لادن کو ملک سے نکال دیا جائے اور امریکا کے حملے روکے جا سکیں۔جولائی 2006 میں مذہبی اسکالر اور تحریکِ جعفریہ پاکستان کے سربراہ، علامہ حسن ترابی کو کراچی میں ان کے 12 سالہ بھتیجے سمیت قتل کر دیا گیا۔ مئی 2004 میں مذہبی عالم اور جامعہ بنوریہ کراچی کے سربراہ، مفتی نظام الدین شامزئی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اکتوبر 2003 میں ایم این اے اور سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ، مولانا اعظم طارق کو اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا۔ مئی 2002 میں ممتاز عالمِ دین، ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک کو لاہور میں گولی مار دی گئی۔اگست 1998 میں تحریکِ جعفریہ پاکستان کے سربراہ، عارف حسین الحسینی کو پشاور میں قتل کر دیا گیا۔ جنوری 1997 میں کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی کے رہنما، مولانا ضیاء الرحمٰن فاروقی کو لاہور کی سیشن کورٹ کے قریب بم دھماکے میں قتل کر دیا گیا۔ جون 1996 میں معروف مذہبی رہنما اور شاعر، محسن نقوی کو لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن میں قتل کر دیا گیا۔1995 میں امامیہ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے بانی اور کالعدم تحریکِ جعفریہ پاکستان کے سینئر رہنما، ڈاکٹر محمد علی نقوی کو لاہور میں قتل کر دیا گیا۔ مارچ 1987 میں معروف عالم دین علامہ احسان الٰہی ظہیر کو لاہور میں بم دھماکے میں شدید زخمی کر دیا گیا، جس کے بعد وہ ریاض کے ایک اسپتال میں 22 گھنٹے موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد وفات پا گئے۔یہ فہرست پاکستان میں گزشتہ 38 برسوں کے دوران مذہبی رہنماؤں کے قتل کے متعدد واقعات پر روشنی ڈالتی ہے، جو مذہبی اور سیاسی تنازعات کا شکار ہوئے۔۔۔۔۔بشکریہ جنگ۔