امریکی اور پاکستانی نظام انصاف
(خالد مسعود خان)
صدر ٹرمپ کی حرکتیں اپنی جگہ مگر ایک امریکی دوست کے بقول‘ ٹرمپ کم ازکم ان امریکی صدور سے ضرورمختلف ہے جو محض دکھانے کیلئے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے منافقانہ گفتگو سے دنیا کو انسانی حقوق‘ برابری اور مذہبی و نسلی تعصب کے خلاف اپنے منافقانہ بھاشن سے متاثر کرتے ہیں‘ تاہم عملی طور پر اپنے طے شدہ ایجنڈے کو مسلط کرنے پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ یہ ایجنڈا اب بالکل واضح ہے کہ صہیونی ریاست کی غیر مشروط حمایت کرنی ہے‘ اسکے ہر ظلم کو تحفظ دینا ہے اور انسانی حقوق کا تصور وہاں ختم ہو جاتا ہے جہاں مسلمانوں خصوصاً فلسطینیوں کا معاملہ آتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنا تعصب‘ ارادہ‘ نفرت‘ محبت اور آئندہ کا قدم نہ کسی سے مخفی رکھتا ہے اور نہ ہی اپنے دل کی بات چھپاتا ہے۔ گرین لینڈ کو ہتھیانے کا ارادہ ہو‘ خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کرنے کا معاملہ ہو یا کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے کی خواہش ہو‘ وہ کسی سے ڈر کر اپنے دل کی بات چھپانے کا قائل ہی نہیں ہے۔ اسرائیل کی حمایت ہو یا حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خواہش‘ ٹرمپ کسی لگی لپٹی کے بغیر کہنے اور اس پر عمل کرنے میں کم از کم دیگر امریکی صدور کی مانند دہری پالیسی کا قائل نہیں ہے۔ سابق صدر جوبائیڈن کی طرح کی نہیں کہ غزہ کی پامالی اور تباہی کے دوران اسرائیل کی جنگی مدد بند کرنے کاارادہ ظاہر کرتے ہوئے اسلحہ کی سپلائی روکنے کا بارہا اعلان بھی کیا اور ہر بار پہلے سے زیادہ مالیت کا اسلحہ فراہم بھی کیا۔ غزہ میں جنگ بندی کے منصوبے کی زبانی کلامی حمایت بھی کی اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو بھی کیا۔ کم ازکم صدر ٹرمپ اپنے کسی ناپسندیدہ فریق کو جھوٹے دلاسے اور لارے لگانے کا ہرگز قائل نہیں ہے۔
دوسری بات جو صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد سمجھ آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ وہ بطور صدر وائٹ ہائوس میں آ کر یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ کو کوئی نادیدہ طاقت یا تھنک ٹینک اول تو کنٹرول نہیں کرتا‘ یا پھر صرف اسی صورت میں کنٹرول کرتا ہے اگر امریکی صدراس نادیدہ طاقت یا تھنک ٹینک کو اپنی پالیسیاں مسلط کرنے کی اجازت دے۔ وگرنہ صدر ٹرمپ اپنے من چاہے احکامات اور پالیسیاں اس طرح یکہ وتنہا نافذ نہ کر سکتا جس طرح وہ کررہا ہے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ منہ لٹکائے کھڑی ہے۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ اگر امریکی صدر آئین کے مطابق دیے گئے اختیارات کو استعمال کرنا چاہے تو اسے کوئی روک ٹوک نہیں۔ ہاں اگر وہ خود اپنے اختیارات استعمال کرنے میں متامل ہو یا ادھر اُدھر دیکھے تو پھر اور بات ہے۔ وگرنہ وہ اپنے تفویض کردہ صدارتی اختیارات کو استعمال کرنے میں نہ صرف مکمل آزاد ہے بلکہ وہ اسے عملی طور پر نافذ بھی کر سکتا ہے۔ البتہ اگر وہ آئین میں دیے گئے تحفظات کو چھیڑتا ہے یا اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو پھر عدالتیں اسکے احکامات کو غیر مؤثر ‘ معطل یا منسوخ کرسکتی ہیں۔
امریکہ میں گو کہ اعلیٰ عدلیہ بالخصوص سپریم کورٹ آف امریکہ کے بارے میں سب کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے کس جج کا کس پارٹی سے تعلق ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری تا عمر ہوتی ہے‘ تاوقتیکہ وہ ازخود خرابیٔ صحت یا ذاتی وجوہات کے باعث مستعفی نہ ہو جائیں یا ذہنی و جسمانی طو پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہ رہیں۔ اس وقت سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت ریپبلکن پارٹی یعنی صدر ٹرمپ کی پارٹی کی مقرر کردہ ہے۔ اور ظاہر ہے ان کی ہمدردیاں بھی ریپبلکن پارٹی کے ساتھ تصور کی جاتی ہیں لیکن اس ساری ہمدردی اور جانبداری کے تاثر کے باوجود ابھی تک یہ نہیں ہوا کہ صدر نے اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کیا ہو اور عدالتوں نے اس پر آنکھیں بند کرلی ہوں‘ یا نظریۂ ضرورت کے تحت آئین سے بالاتر قسم کے کسی فیصلے پر عدالتی مہر لگا کر اسے قانونی حیثیت دی ہو۔ امریکہ میں پاکستان کے جسٹس منیر کے ایجاد کردہ اور پھر مسلسل جاری نظریۂ ضرورت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ میرا علم امریکی عدالتی فیصلوں کے بارے میں ایسا ہرگز نہیں کہ میں اس بارے میں کوئی دعویٰ کروں یا خود کو اس معاملے میں ماہر تصور کروںتاہم میرے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ امریکی عدالتوں نے کسی طاقتور یا زورآور شخصیت کی پسند یا ناپسند کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی خلافِ آئین فیصلہ کیا ہو۔ ہاں البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ امریکی اعلیٰ عدالتوں نے امریکہ کے ریاستی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے نظریۂ ضرورت کے تحت کوئی فیصلہ دیا ہو۔ امریکی سپریم کورٹ میں ریپبلکن ججوں کی اکثریت کے باوجود عدالت نے ٹرمپ کے گزشتہ دورِ صدارت میں اسکے جاری کردہ پانچ مسلم ممالک سے آنے والے مسافروں پر پابندی اور اس بار امریکہ میں پیدا ہونے والے تارکینِ وطن کے بچوں کو امریکہ میں پیدائش کی بنیاد پر حاصل حقِ شہریت ختم کرنے کا صدارتی ایگزیکٹو آرڈر غیر مؤثر قرار دے دیا۔ حالانکہ عدالتوں میں ریپبلکن ججوں کی تعداد زیادہ ہے مگر عدالتوں نے صدر کا وہ حکمنامہ‘ جو آئینی اختیارات سے متجاوز تھا‘ کالعدم قرار دے دیا۔
امریکی عدالتیں بظاہر جانبدار اور سیاسی طور پر کسی طرف جھکائو رکھنے کی شہرت رکھتی ہیں مگر ان کے وہ فیصلے جو ملک و قوم کیلئے کسی خاص اہمیت کے حامل ہوں‘ ہر قسم کی جانبداری یا سیاسی جھکائو کے اثر سے بالاتر ہو کر کیے گئے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کام بالکل الٹا ہے۔ ہماری عدلیہ بظاہر غیر جانبدار‘ غیر سیاسی اور آزاد ہے لیکن عملی طو پر معاملات اس کے بالکل الٹ ہیں۔ جسٹس منیر کا نظریۂ ضرورت عشرے گزرنے کے باوجود نہ صرف زندہ ہے بلکہ پھل پھول رہا ہے۔ ہماری آزاد عدالتوں نے آمروں کے پی سی اوز اور ایل ایف اوز کے تحت حلف بھی اٹھائے اور ان کو بغیر مانگے آئین میں ترمیم تک کا اختیار بھی تفویض کیا۔ پاناما لیکس کے کیس میں سینکڑوں لوگوں میں سے اپنی مرضی کا ایک ملزم پکڑا اور اسے سزا بھی دے دی۔ مجھے اس اکلوتی سزا سے اختلاف صرف اتنا ہے کہ یا تو باقی سینکڑوں ملوث ملزمان کو بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرکے سزا دی جاتی یا اس ملزم کو بھی وہی رعایت دی جاتی جو باقی شاملِ معاملہ ملزمان کو دی گئی تھی۔ انصاف اور برابری کے تقاضے پورے کیے بغیر عدل و انصاف کا سارا مفہوم اور مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔
ہمارے عدل و انصاف کا نظام مکڑی کے اس جالے سے مشابہت رکھتا ہے جس میں کمزور پھنس جاتے ہیں اور طاقتور اسے توڑ کر نکل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا غیر جانبدار اور آزاد عدل اس قدر سمجھدار ہے کہ صرف اپوزیشن پر اپنا زور استعمال کرتا ہے اور یہ کیسا حسین اتفاق ہے کہ اس کی زد میں کبھی بھی کوئی حکمران نہیں آیا۔ قطع نظر اس بات کے کہ حکمران فوجی آمر ہے یا سول جمہوری ہے‘ وہ جنرل ضیا الحق ہے یا جنرل پرویز مشرف‘ وہ بے نظیر بھٹو ہے یا میاں نواز شریف‘ وہ آصف علی زرداری ہے یا شاہد خاقان عباسی‘ وہ عمران خان ہے یا شہباز شریف ‘ ہر شخص صرف تبھی قانون کے شکنجے میں پھنسا ہے جب وہ اقتدار سے علیحدہ ہوا ہے۔ اس ملک میں جب تک کوئی شخص اقتدار میں رہتا ہے وہ پاک صاف بھی ہوتا ہے اور ہر قسم کے جرائم سے بالاتر بھی ہوتا ہے۔ جونہی وہ اقتدار سے اُتر کر اپوزیشن میں آتا ہے اس کے وہ سارے جرائم جو محض چند روز پہلے تک سارے ملک کو دکھائی دیتے ہیں عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نہ صرف پوشیدہ رہتے ہیں بلکہ ان کی جانب سے ان کومکمل تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔ جونہی وہ اقتدار سے فارغ ہوتا ہے سب اداروں اور عدالتوں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ قانون کی گرفت میں آ جاتا ہے۔
ہماری اور امریکی عدالتوں میں صرف ایک معمولی سا فرق ہے۔ امریکی عدالتیں ریاست کی جبکہ ہماری عدالتیں حکومت کی وفادار ‘ اور دونوں اپنی اپنی طے شدہ وفاداری نبھا رہی ہیں۔