دفاع پاکستان

میجر حمزہ اسرارشہیداورسپاہی نعیم شہید کی داستانِ جرات

(لیفٹیننٹ کرنل مظفراحمد)

(نوٹ:مضمون نگار دونوں شہداء کے کمانڈنگ آفیسرتھے)

ہمارے ملک کی تاریخ افسروں اور جوانوں کی بہادری و قربانی کی بے مثال داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ پاک وطن کی حرمت کی خاطرکچھ کر گزرنے اور قربانی کے جذبے کے پیچھے ایک فلسفہ کارفرما ہے۔ یہ فلسفہ ہمارے پیغمبرکامل حضرت محمد ۖ، حضرت ابراہیم، امام حسین رضی اللہ عنہ کے ایثار و قربانی ، اللہ سے عقیدت اور ہمارے نشان ِحیدران اور دیگر تمام شہدا کی اپنے ملک کی سا لمیت کو یقینی بنانے کی جدوجہدسے عبارت ہے۔ اسی جذبے کے مدِ نظرپاک وطن کے بیٹے اپنی جان کی پروا کیے بغیر شہادت جیسے ابدی اعزاز کے حصول کے لیے اپنی جانیں دے دیتے ہیں۔ ان بہادروں میں میجر حمزہ اسرار شہیداور سپاہی محمد نعیم شہید بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے پیارے وطنِ پاکستان کو فتنہ خوارج سے محفوظ بنانے کی کوشش میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کی کہانی جرأت، حب الوطنی اور فرض کی ادائیگی کاایک بے مثال نمونہ ہے۔راقم کی ان دونوں بہادروں کے ساتھ پیشہ ورانہ وا بستگی ا وران کے والدین کے ساتھ رابطہ رہا۔ لہٰذا یہ تحر یر دل سے دل کے تعلق پر مبنی ہے۔اس مضمون میں ان شہدا کی نجی زندگی اور پیشہ ورانہ کارکردگیوں کا علیحدہ علیحدہ احاطہ کیا گیا ہے۔
میجر حمزہ اسرار شہید:
پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے گائوں توپ منکیالہ سے تعلق رکھنے والے میجر حمزہ اسرار 26 مارچ 1996 کوایک نہایت پرہیز گار اور متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اسرار احمد بھی فوج میں اپنی خدمات دے چکے ہیں اور سگنل بٹا لین سے بطور نائیک ریٹائر ہوئے۔ میجر حمزہ اسرار نے ابتدائی تعلیم ملحقہ گائوں ساگری پری کیڈٹ سکول سے حاصل کی۔اس کے بعد کیڈٹ کالج چکوال میں داخلہ لیا اور امتیازی سند کے ساتھ انٹرمیڈمیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اساتذہ اور ساتھی ہمیشہ میجر حمزہ اسرار کی ذہانت، چستی ، احساسِ ذمہ داری اورنظم و ضبط کے معترف نظرآئے ۔اس کے بعد پاک فوج میں شمولیت اختیار کرنے پر اپنی نظریں مرکوز کر لیں۔ آئی ایس ایس بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد 2013 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے133 لانگ کورس کے ساتھ اپنے ملٹری کیر یئر کا آغاز کیا۔
17 اکتوبر 2015 کو کامیابی سے تربیت مکمل کرنے کے بعد میجر حمزہ اسرار نے پاک فوج میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ ان کی پہلی تعیناتی چترال کے بارڈر پر ہوئی، جہاں وہ بے پناہ ہمت، لگن اور پیشہ ورانہ قابلیت کے ساتھ فتنہ خوارج کے خلاف نبرد آزما رہے۔پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں مزید بہتری کے لییانفنٹری سکول کوئٹہ سے بنیادی تربیت کے کورسز کیے اور ان میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔ واپسی پر یونٹ میں کیپٹن کے عہدہ پر ترقی پاتے ہی انہیں ایڈجوٹنٹ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔بعد ازاں ڈیڑھ سال کی مدت کے بعد انہیں کوارٹرماسٹر تعینات کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ یہ ذمہ داریاں ایسے افسروں کو تفویض کی جاتی ہے جو اعلیٰ درجے کے فیصلہ ساز ، غیر معمولی تجزیاتی و تزویراتی مہارت اور انتظام و انصرام کے ماہرہوتے ہیں۔انہوں نے آزاد کشمیرکے کیل سیکٹر ، سیالکوٹ کے چاروہ سیکٹر اور سیاچن کے گیوس سیکٹر میں بطور پلاٹون اور کمپنی کمانڈر اپنی ذمہ دارریاں سر انجام دیں۔اس کے ساتھ ساتھ میجر حمزہ اسرار اپنی رجمنٹ کے تربیتی اور کھیلوں کے مقابلوں میں پیش پیش رہتے تھے۔ پاکستان آرمی ٹیم سپرٹ، اور فائرنگ کے مقابلوں، فٹبال اور کرکٹ جیسے کھیلوں میں یونٹ کا نام بلند کیا۔ میجر حمزہ اسرار کے بارے میںایک خاص بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اپنی یونٹ کی سیاچن تعیناتی کے دوران انہوں نے بالتورو سیکٹر(22500 فٹ بلندی)پر ڈیوٹی سر انجام دینے کے لیے اپنے کمانڈنگ آفیسر کو درخواست کرتے ہوئے والنٹئیرکیا۔ اجازت ملنے پر انہوں نے بڑی استقامت و جواں مردی کے ساتھ سخت موسمی حالات میں اپنے جوانوں کو لیڈ کیا۔وہ ہمیشہ اپنے جوانوں کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھتے اور اپنے ان اوصاف کی بنا پر جوانوں کے دل میں گھر کر جاتے تھے۔مزید برآں ، راقم نے میجر حمزہ اسرار کو ہمیشہ نماز کا پابند پایا، ان کے چہرے پر کبھی غصہ نہ دیکھا،بلکہ ہمیشہ پر کشش مسکراہٹ کے ساتھ پایا۔ سیاچن میں ڈیوٹی کے بعدکوئٹہ سے انفنٹری مڈ کیرئیر کورس کیا اور جونیئرلیڈرز اکیڈمی شنکیاری میں بطور ا نسٹرکٹر تعینات ہوئے۔یہاں انہوں نے فوج کے نان کمیشنڈ افسروں کو تربیت دی اور اپنے طالب علموں میں اپنے مخصوص انداز تربیت اور خلوص کے باعث نہا یت مقبول رہے ۔
شمالی وزیرستان میں تعیناتی کے دوران جرأت مندانہ کارروائیاں اور شہادت:سال 2024 میں میجر حمزہ اسرار اپنی یونٹ فرنٹئیر فورس میں شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں بحیثیت کمپنی کمانڈر تعینات ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب دہشت گردی کی لہر دوبارہ سر اٹھا چکی تھی۔فتنہ خوارج کی کارروائیوں میں تیزی آ گئی تھی ۔ باغی خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کے جواب میں پاک فوج نے بھی انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کر دیں۔ان حالات میں میجر حمزہ، علاقہ میر علی(جو کہ دہشت گردوں کا ایک گڑھ جانا جاتا ہے)میں بحیثیت او سی پائیس اور کمپنی کمانڈر کے طور پر انتہائی حساس مشنز کی تکمیل کرتے رہے۔ جنہیں انہوں نے نہایت مہارت کے ساتھ انجام دیا۔ متعدد انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کیے اور کثیر تعداد میں خوارج کو جہنم واصل کیا۔
29 جنوری 2024ء کو میر علی کے علا قہ خدی میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلا ع پر ایک آپریشن شروع کیا گیا۔ میجر حمزہ اسرار اس وقت کاشف شہیدفورٹ میں قائم مقام سیکنڈ ان کمانڈ کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔ دہشت گردوں کے متعلق معلومات ملنے پر انہوں نے آپریشن کی نگرانی شروع کی۔فورٹ سے کچھ فاصلے پر موجود ان خوارج پرنہایت مہارت سے آرمڈ کواڈ کاپٹر کے ذریعے بارود پھینک کر انہیں نقصان پہنچایا۔اس کے بعد خوارج کی ممکنہ کمک کو انٹرسیپٹ کرنے کے لیے سمال ایکشن ٹیم تشکیل دی اور خود اس کی قیادت کرتے ہوئے اپنے ساتھی سپاہیوں کے ہمراہ روانہ ہوئے۔وہی ہوا جس کے لیے میجر حمزہ اسرارنے منصوبہ بندی کی تھی ۔ خوارج کی کمک آن پہنچی۔ میجر حمزہ اسرار کی ٹیم اور خوارج کے ما بین فائر کا تبا دلہ شروع ہوا۔یہ فائرنگ تقریباً ایک گھنٹے سے زائد دورانیے کے لیے جاری رہی۔ میجر حمزہ اسرار کی تمام ٹیم اور ان کے قریبی ساتھی سپاہی محمد نعیم اور سپاہی حفیظ نے نہایت بہادری سے خوارج کا مقابلہ کیا۔ اور اس دوران چھ خوارج کوجہنم واصل کیا۔تاہم، اسی اثنا میں میجر حمزہ اسرار ، سپاہی محمد نعیم اور سپاہی حفیظ کوبھی گولیاں لگیں اور یہ زخمی ہو گئے۔ فائرنگ کے شدید تبادلے کے دوران ساتھی جوانوں کی جانب سے آنے والی صدا پر میجر حمزہ نے شدید زخمی ہونے کے باوجود پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ اس دوران جیسے ہی اپنی یونٹ کی کمک آن پہنچی، انہوں نے میجر حمزہ کو خون میں لت پت پایا لیکن پھر بھی وہ غیرمتزلزل عزم کے ساتھ لڑ تے رہے۔ حتیٰ کہ میجر حمزہ اسرار اور سپاہی محمد نعیم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے ۔بالآخر اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر انہوں نے خوارج کو نیست و نابود کیا اور آپریشن کامیابی سے ہمکنارہوا۔
ہیرو کی گاوں واپسی۔
شہادت کی خبر پھیلتے ہی ان کے آبائی علاقے میں جہاں غم کی لہر دوڑ گئی، تو ساتھ ہی اس خبر نے لوگوں کو ایک نیا حوصلہ بھی دیا ۔ اگلی صبح، ان کی میت کو توپ منکیالہ پہنچایا گیا، جہاں ہزاروں افراد ان کے آخری دیدار کے لیے جمع تھے۔ سڑکیں سوگواروں سے بھری ہوئی تھیں۔ جیسے ہی تابوت گزرا تو ازراہ عقیدت اہلِ علاقہ نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ فضا “پاکستان زندہ باد”اور”میجر حمزہ شہید امر رہے!” کے نعروں سے گونج اٹھی۔ شام چار بجے ان کی نماز جنازہ پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی،گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور قوم نے اپنے اس بیٹے کوہمیشہ کے لیے دھرتی ماں کے سپرد کر دیا ۔
ازدواجی زندگی کی ایک دلخراش حقیقت:
دورانِ گفتگو ،میجر حمزہ اسرار کے والد اور والدہ جہاں ایک جانب اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر کرتے دکھائی دیے تو دوسری طرف ایک ماہ قبل 29 دسمبر 2024 کو ان کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ان کے خاندان کی یہ خوشی نہایت مختصر رہی۔ قہقہوں، موسیقی اور تقریبات سے بھر ے گھرکو کیا خبر تھی، کہ صرف سترہ دن کی خوشی کے بعد میجر حمزہ اپنا بیگ باندھے ایک ابدی راستے پر رواں دواں ہوں گے ۔ان کی نو بیاہتا زوجہ ، شفیق والد، محبوب والدہ،دو بھائی اور اقارب ، بلکہ تمام سے میجر حمزہ آخری ملاقات کر کے جا رہے تھے ۔
سپاہی محمد نعیم:
سندھ کے ضلع نوشیروفیروز کے گائوں پڈ عیدن سے تعلق رکھنے والے سپاہی محمد نعیم 15 نومبر1998ء کوایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدپہلے ہی فوت ہو چکے تھے جو کھیتی باڑی سے وابستہ تھے ۔ان کے اہل و عیال کے ساتھ گفتگو میں پتہ چلا کہ وہ بہت ہنس مکھ، ملنسار اور ہمدردانسان تھے۔ ابتدائی تعلیم ملحقہ گائوں میاں گوٹھ ولی محمد سے حاصل کی۔اس کے بعد مڈل تعلیم صوبہ بلوچستان کے ایک دیہات سے لی ۔بچپن سے فوج میں ملازمت کا شوق تھا۔ لہٰذا 2018ء میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔فرنٹیئر فورس رجمنٹل سینٹر میں ابتدائی تربیت مکمل کرنے کے بعد انہیں فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں پوسٹ کر دیا گیا جو سیا لکوٹ میں تعینات تھی۔وہ یونٹ کی ہر تربیتی سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔وہ یونٹ کے ساتھ سیاچن کے گیوس سیکٹر میں تعینات رہے اور بالتورو جیسے مشکل محاذ اور نا مساعدموسموں میں جوانمردی کے ساتھ ڈیوٹی انجام دیتے رہے۔اس کے بعد وہ بہاولنگر اور پھر شمالی وزیرستان میں یونٹ کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں بجا لاتے رہے۔ اس تمام دورانیہ میں ان کے چہرے پر کسی بالا کمانڈر نے کبھی کوئی شکن نہیں دیکھی۔ وہہمیشہ اپنی یونٹ و آرمی کی عزت و تکریم کو ملحوظِ خاطر رکھتے اور وطن کی آن کو قائم رکھنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
شہادت سے قبل وہسمال ایکشن ٹیم کے ساتھ کاشف شہید فورٹ خدی میں تعینات تھے۔ 29جنوری 2025ء کو انہوں نے اپنے تمام اوصاف کو دوبارہ صحیح ثابت کر دکھایا۔ انہوں نے خوارج سے لڑتے ہوئے اپنے با لا کمانڈر میجر حمزہ اسرار کا خوب ساتھ دیا اور بالآخر خوارج کی سر کوبی میں جامِ شہادت نوش کیا۔اُن کی والدہ، بہن بھائیوں اور گائوں کے لوگوں نے انکی شہادت پر فخر کا اظہار کیا اورملک کی سلامتی کے لیے مزید قربانیاں دینے کے عزم کا ا عادہ کیا۔ان کے بھائی محمد وسیم نے بتایا کہ سپاہی محمد نعیم نے اپنی بوڑھی ماں کوکو تسلی دے رکھی تھی کہ اس بار جب چھٹی آئوں گا تو ماں کو علاج کے لیے سی ایم ایچ لے جائوں گا۔بوڑھی ماں تو اپنے بیٹے کی راہ تکتی رہ گئی اور بیٹا آخرت کے سفر پر روانہ ہو گیا۔لیکن اس ماں کی خدمت کے لییپاکستان آرمی کا ہر ایک سپاہی حاضر ہے اور ان کا خیال رکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا۔
میجر حمزہ اسرار اور سپاہی محمد نعیم امر ہو گئے.
میجر حمزہ اسرار اور سپاہی محمد نعیم اگرچہ اب جسمانی طور پرہم میں موجود نہیں لیکن ان کی روح اور ان کی لازوال محبت لاکھوں دلوں میں زندہ ہے۔ وہ صرف سپاہی نہ تھے بلکہ بہادری، حب الوطنی اور بے لوث عقیدت کی علامت تھے۔ ان کی قربانیاںہمیں ہمیشہ یہ یاد دلاتی رہیں گی کہ سچے جنگجو کبھی نہیں مرتے ۔ان کی کہانی قرآن پاک کے الفاظ سے گونجتی رہے گی: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کے بارے میں یہ مت کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔(البقرہ 2:154)
میجر حمزہ اسرار اور سپاہی محمد نعیم کی میراث پاکستان کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہے گی کہ مادر وطن کا دفاع سب سے بڑا اعزاز ہے۔ پاک دھرتی کے دشمن اور ان کے آلہ کار خوارج اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جب تک اس کے بہادر جوان سیسہ پلائی دیوار کی طرح سامنے کھڑے ہیں۔ انشااللہ ان دشمنوں کو نیست ونابودکر دیا جا ئے گا۔ آمین!

متعلقہ خبریں۔

Back to top button