کالم

قرض لو اور جشن مناؤ

(بیرسٹر حمید باشانی)

پاکستان میں جب بھی کوئی حکومت آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک سے قرضہ حاصل کرتی ہے تو وہ اس پر خوشی کا اظہار کرتی اور جشن مناتی ہے۔ حکومت کی طرف سے جشن منانے کے عمل کو ملک کے وسیع تر سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی تناظر میں کسی حد تک جائز سمجھا جا سکتا ہے‘ لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب عوام بھی اس عمل میں شریک ہو جاتے ہیں‘ یا ان کو شریک کر لیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس قرض کا حصول ایک بڑی قومی کامیابی ہے۔ تیسری دنیا کے کسی بھی ملک میں قائم ہونے والی نئی حکومت کا فوری مسئلہ قرض کی ادائیگی ہوتا ہے۔ قرض لینے کا مطلب اکثر ادائیگیوں کے توازن کے بحران یا ڈیفالٹ سے بچنا ہوتا ہے۔ ایندھن‘ خوراک اور مشینری جیسی ضروری اشیا کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرنے والے کسی بھی ملک کے لیے قرض معیشت کو برقرار رکھنے اور زرِمبادلہ کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
تیسری دنیا کے کمزور معیشت کے حامل ملکوں کے لیے یہ قرضے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے لائف لائن کا کام کرتے ہیں۔ یہ افراطِ زر میں اضافے‘ کرنسی کی قدر میں کمی یا سپلائی چین میں رکاوٹوں کے فوری خطرات کو کم کرتے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے قرض کی منظوری کا مطلب ان اداروں کی طرف سے قرض لینے والے ملک کی اقتصادی پالیسیوں کی منظوری سمجھا جاتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے ملنے والے قرض کے بعد سرمایہ کاروں اور تجارتی شراکت داروں میں اعتماد بحال ہوتا ہے۔ اسی لیے حکومتیں ان قرض معاہدوں کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرتی ہیں اور اس سے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان قرضوں کو حکومتیں سبسڈیز دینے‘ سرکاری اداروں کی تنخواہوں اور سماجی بہبود کے پروگراموں کی فنڈنگ جاری رکھنے کے لیے خرچ کرتی ہیں۔ اس لیے حکومت کے لیے یہ قرض پروگرام عوامی حمایت کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
مستقبل کے لیے پُرامید بہت سے لوگ قرضوں کو معیشت کی بحالی اور عوام کے حالاتِ زندگی کو بہتر بنانے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہیں یہ توقع ہوتی ہے کہ یہ قرض بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں‘ ملازمتوں کی تخلیق یا قرض کی تنظیم نو کے لیے استعمال ہوں گے۔ عوام اگر قرض لینے پر منائے جانے والے حکومتی جشن میں شامل ہوں تو اس کا ایک مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ ان قرضوں کی شرائط سے لاعلم ہیں‘ کیونکہ یہ قرض اکثر عوامی مفادات سے متصادم ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بہت سے عام شہری ان قرضوں سے منسلک سخت شرائط‘ جیسے کفایت شعاری کے اقدامات‘ ٹیکسوں میں اضافے یا سبسڈی میں کٹوتیوں سے لاعلم ہوتے ہیں۔ وہ فوری رقوم کی آمد اور ممکنہ فوائد پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے دیے جانے والے قرضوں کی شرائط میں اکثر و بیشتر کفایت شعاری کے اقدامات شامل ہوتے ہیں جو بیروزگاری کی شرح میں اضافے‘ اشیائے ضروریہ اور خدمات کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس سے ملکی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے جن کی ادائیگی ایک بڑا چیلنج بن جاتی ہے‘ جس سے ترقیاتی اخراجات کے لیے بہت کم گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ بیرونی قرضوں پر انحصار اکثر معاشی خود مختاری کے نقصان کا باعث بنتا ہے کیونکہ قرض دینے والے عالمی مالیاتی ادارے قرض دہندہ ملک کی معاشی پالیسیوں کو اپنے مطالبات کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کو قرضوں کے حصول پر جشن منانے کے بجائے اپنی اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف قرضوں پر تکیہ کرنے کے بجائے حکومتوں کو برآمدات کو فروغ دینے‘ ٹیکس وصولی میں اضافے‘ کرپشن میں کمی اور پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ قرضوں پر انحصار کم کیا جا سکے۔ اسی طرح قرضوں کا مؤثر اور شفاف استعمال یقینی بنانے سے عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے جس سے طویل مدتی معاشی فوائد پیدا ہو سکتے ہیں۔
ترقی پذیر دنیا میں مالیاتی بحرانوں سے نمٹنے میں عالمی بینک اور آئی ایم ایف کا کردار اکثر موضوعِ بحث رہا ہے۔ ناقدین کا استدلال ہے کہ یہ ادارے‘ ممکن ہے کہ واقعتاً معیشتوں کو مستحکم اور غربت کو کم کرنا چاہتے ہوں‘ لیکن یہ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو عدم مساوات کو بڑھاتی اور خود مختاری کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اکثر سخت شرائط کے ساتھ قرض فراہم کرتے ہیں‘ جسے عام طور پر سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کہا جاتا ہے۔ جہاں تک متبادل بندوبست کی بات ہے تو حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوامی اخراجات میں اضافہ کریں‘ بالخصوص تعلیم‘ صحت اور بنیادی ڈھانچے جیسی ضروری خدمات پر کھل کر خرچ کریں۔ حکومتیں اکثر قومی اثاثے غیرملکی کارپوریشنوں کو کم قیمتوں پر فروخت کر دیتی ہیں جس سے اہم صنعتوں پر مقامی کنٹرول کم ہو جاتا ہے‘ اس مسئلے کا متبادل حل تلاش کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
قرض دینے والے مالیاتی ادارے اپنی سخت شرائط سے قرض دہندہ ملک کی معاشی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں‘ جس سے قومی فیصلہ سازی میں اس ملک کی خود مختاری کم ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں سماجی بے چینی اور غیرملکی امداد پر طویل مدتی انحصار بڑھ جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک مالیاتی بحرانوں سے نکلنے کے لیے اکثر قرضہ لیتے ہیں لیکن سود کی بلند شرح اور واپسی کی سخت شرائط کی وجہ سے وہ قرض کی بروقت ادائیگی سے قاصر رہتے ہیں‘ جس سے قرضوں کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر شروع ہو جاتا ہے‘ جس کے بعد تمام تر وسائل کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔ ان اداروں کی طرف سے تجویز کردہ اقتصادی اصلاحات ملٹی نیشنل کارپوریشنز اور اشرافیہ کی حمایت کرتی ہیں جس سے غریب مزید غریب ہو جاتے ہیں۔ قرضوں پر انحصار کرنے والے ممالک کے صنعتی اور زرعی شعبے‘ ترقی یافتہ ممالک کے صنعتی اور زرعی شعبوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں جس سے بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان ممالک کے مالیاتی بحران‘ عالمی مالیاتی اداروں کو ان ملکوں کی اقتصادی پالیسیوں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔1990ء کی دہائی کے آخر میں‘ جب اکثر ایشیائی ممالک مالیاتی بحرانوں کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنے وسائل عوام کی بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرنے پر مجبور ہو گئے تھے‘ تو ان ممالک کی طرف سے آئی ایم ایف کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو بڑی حد تک درست تھا۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے اکثر ممالک کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ناقدین ان مسائل کے حل کے لیے کئی اقدامات تجویز کرتے ہیں جن میں قرضوں کی شرائط پر نظرثانی‘ قرضوں کے قلیل مدتی مالی اہداف پر طویل مدتی ترقی اور غربت میں کمی کو ترجیح دینا شامل ہے۔ اس کے علاوہ قرضوں کی معافی کے جامع پروگرام میں شمولیت قوموں کو پائیدار ترقی میں سرمایہ کاری کی اجازت دے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسی پالیسیوں کی حوصلہ افزائی بھی لازم ہے جو مقامی کاروباروں کو با اختیار بنائیں اور عدم مساوات کو کم کریں۔ بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک میں ادارہ جاتی صلاحیت پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے کمزور معیشتوں کو مستحکم کرنے اور فنڈز فراہم کرنے کے حوالے سے کچھ کردار ادا کیا ہے‘ لیکن ان کی مداخلتوں کی قرض دینے والے ممالک کے سماجی اور معاشی نظام کو بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومتیں عوام کو جھوٹی تسلیاں دیں اور قرضوں کے حصول پر جشن منائیں‘ ایک منصفانہ نقطۂ نظر میں غربت کے خاتمے کے لیے شراکتی فیصلہ سازی اور حقیقی عزم شامل ہونا بہت ضروری ہے۔بشکریہ دنیا۔

متعلقہ خبریں۔

Back to top button