کالم

بدقسمت معاشرے

(ایاز امیر)
خوش فہمی کا کوئی علاج نہیں اور اسی وجہ سے خوش فہمی کے مارے یار دوست پوچھتے رہتے ہیں کہ کسی خوشخبری کی امید ہے۔ مراد اُن کی ملکی سیاست کے حوالے سے ہوتی ہے کہ اس میں کسی تبدیلی کا امکان ہے۔ حقیقت البتہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں جب تک کوئی بڑا حادثہ رونما نہ ہو تو چیزیں ایسے ہی چلتی رہتی ہیں۔ لاکھ تنقید کے نشتر برسائے جائیں‘ تجزیے کیے جائیں‘ کچھ ہونے کا امکان پیدا نہیں ہوتا جب تک کوئی ناگہانی چیز نہ ہو جائے۔ ہماری تاریخ کا بھی یہی سبق ہے کہ کچھ حادثہ پیش آتا ہے اور تبدیلی کے پہیے تب ہی چلنے لگتے ہیں۔
اگست 1988ء میں طیارے والا حادثہ نہ ہوتا تو جنرل ضیا الحق نے اس ملک کی جان چھوڑنی تھی؟ جونیجو والی اسمبلی برخاست کر چکے تھے‘ یعنی اپنا شروع کیا ہوا سیاسی تجربہ ناکام ہو چکا تھا لیکن اقتدار کو چھوڑنے کیلئے تیار نہ تھے۔ آئینی تقاضا تھا کہ اسمبلی کی برخاستگی کے بعد نوے دن میں انتخاب کرائے جائیں۔ وہ نہ کرائے گئے اور جنرل صاحب کو کوئی پروا نہ تھی کہ آئین کیا کہتا ہے اور کیا نہیں۔ ویسے بھی اُن کی نظروں میں آئین کی وہ قدر ومنزلت تھی جو اُن کے اُس تبصرے سے ظاہر ہوتی ہے جو اُنہوں نے اپنے اقتدار کے شروع میں ادا کیا تھاکہ چند صفحات کا ڈاکیومنٹ ہے‘ جب چاہوں پھاڑ کے رکھ دوں۔ آسمانوں کو کچھ اور منظور تھا اور اُن کے طیارے کو حادثہ ہو گیا اور تب ہی جا کے یہ ممکن ہوا کہ انتخابات کرائے جائیں اور ایک منتخب حکومت اقتدار کی باگیں اپنے ہاتھوں میں لے۔ یہ اور بات ہے کہ بینظیر بھٹو کی جو نئی حکومت آئی اُسے رسیوں میں جکڑ کر اقتدار کی مسند پر بٹھایا گیا۔ پیپلز پارٹی والے بھی بادشاہ لوگ تھے‘ اسٹیبلشمنٹ کی تمام شرائط مانیں لیکن جن میدانوں میں اپنے گھوڑے دوڑا سکتے تھے ایسا کیا اور اپنے کھاتے خوب چمکائے۔
1990ء میں نواز شریف وزیراعظم بنے لیکن یہ تبھی ممکن ہوا جب بینظیر بھٹو کی حکومت صدر غلام اسحق اور جنرل اسلم بیگ نے مل کر ختم کی۔ برخاستگی نہ ہوتی تو بینظیر بھٹو پانچ سال تک وزیراعظم رہتیں اور اس دوران قیاس کیا جا سکتا ہے کہ (ن) لیگ کی آدھی چربی پگھل گئی ہوتی۔ جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو جھٹکے سے آئے۔ 12اکتوبر 1999ء کو نواز شریف اُن کی چھٹی کرنے چلے تھے اور پاکستان کی حاکمیت کے کرشمات ایسے ہیں کہ شام سے پہلے خود نواز شریف کی چھٹی ہو گئی۔ آٹھ سال تک مشرف سیاہ و سفیدکے مالک رہے لیکن مارچ 2007ء میں اچانک اُن کے خلاف وکلا تحریک برپا ہو گئی۔ اس کے بارے میں بھی اب کہا جاتا ہے کہ پیچھے خفیہ ہاتھ تھے جو چاہتے تو وکلا تحریک کو کچل دیتے لیکن اُنہوں نے ایسا نہ کیا۔ وکلا تحریک چلی اور عدالتی فیصلے جنرل مشرف کے خلاف گئے جس کے نتیجے میں اُن کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی گئی۔ جاتے جاتے یہ نہ سمجھ سکے کہ فوج میں اپنا جانشین کس کو مقرر کریں۔ دوڑ میں دو جرنیل تھے اور مشرف نے فیصلہ اشفاق پرویز کیانی کے حق میں کیا جن کے بارے میں بعد میں کہتے رہے کہ مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی۔
دیگر واقعات چھوڑیے‘ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال دیے گئے‘ جنرل نیازی نے اپنا پستول جنرل اَروڑہ کے حوالے کر دیا لیکن اس عظیم سانحہ کے بعد بھی جنرل یحییٰ خان اور اُن کے قریب تر ساتھی جنرل حمید اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار نہ تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سکیورٹی کونسل میں دھواں دار تقریر کی اور پولینڈ کی قرارداد‘ جو بہت حد تک پاکستان کے حق میں تھی‘ اُسے ڈرامائی انداز میں پھاڑ کر سکیورٹی کونسل سے واک آؤٹ کر گئے تھے۔ ایک دو دن بعد نیویارک سے روم پہنچے اور وہاں ٹھہر گئے۔ مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل گیا تھا اور بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان ہو گیا تھا۔ مغربی پاکستان میں اکثریتی لیڈر بھٹو تھے لیکن پھر بھی راولپنڈی سے بغیر خبر آئے وہ پاکستان جانے کیلئے تیار نہ تھے۔ اور جنرل یحییٰ خان کا جیسے عرض کیا‘ کوئی ارادہ نہ تھا کہ اقتدارچھوڑیں۔
یہ تو سیالکوٹ چھاؤنی میں ایک عدد فارمیشن میں بغاوت کی بو اُٹھی اور یہ خبر جی ایچ کیو پہنچی تو جنرل گل حسن جو کہ چیف آف جنرل سٹاف تھے‘ میں ہمت آئی اور اُنہوں نے اپنے ہمنواؤں سے بات کی۔ اس نئی صورتحال کے پیشِ نظر جب جنرل یحییٰ اور جنرل حمید نے چاہا کہ موجود افسران سے خطاب کریں تو وہاں اُن کے خلاف آوازیں اُٹھیں اور لوگ سراپا احتجاج ہو گئے۔ تب جاکر جنرل یحییٰ اور حمید کو احساس ہوا کہ وہ اقتدار پر قبضہ قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس ساری صورتحال میں کلیدی بات سیالکوٹ میں ہلچل تھی اور اُس کے حوالے سے سب سے اہم رول بریگیڈیئر ایف بی علی کا تھا۔ اگر یوٹیوب پر جائیں تو ایف بی علی کے نام سے یہ سارا واقعہ سامنے آ جاتا ہے۔
یحییٰ خان کے سامنے ہنگامہ ہوا اور وہ اقتدار چھوڑنے کیلئے رضامند ہوئے تو اطلاع بھٹو کو روم میں دی گئی۔ اُن کیلئے جہاز بھی بھیجا گیا اور تبھی وہ پاکستان واپس آنے کیلئے تیار ہوئے۔ جس دن پہنچے اُسی شام یعنی 20دسمبر 1971ء کو قوم سے فی البدیہ خطاب کیا‘ اور کیا کمال کا خطاب تھا‘ جس میں اُنہوں نے یحییٰ خان اور اُن کے تین چار قریبی ساتھیوں کو فارغ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ The long dark night is over‘ یعنی طویل اندھیری رات ختم ہو گئی ہے۔ یہ سن کر مجھ بیس اکیس سالہ نوجوان پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی کیونکہ میں نے سمجھا کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے ہیں اور پاکستان سے آمریت کے سائے ہمیشہ کیلئے ختم ہو رہے ہیں۔ اب وہ لمحہ ذہن سے گزرتا ہے تو اپنی کیا‘ اس ملک کی قسمت پر رونا آتا ہے۔ کیا خواب تھے ہمارے اور کس تلخ حقیقت کو جا پہنچے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد ہی بریگیڈیئر ایف بی علی اور اُن کے کچھ ساتھیوں کی چھٹی کرا دی گئی۔ اقتدار کا کھیل بے رحم ہوتا ہے اور اقتدار کے اپنے ہی تقاضے ہوتے ہیں۔
ان واقعات کے بیان کرنے کا مطلب یہ کہ ہمارے جیسے بدنصیب معاشروں میں آئینی اور قانونی تقاضوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ طاقتور حلقے اپنی مرضی کرتے ہیں اور جب تک حالات اجازت دیں‘ ماورائے آئین سلسلے چلتے رہتے ہیں۔ چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو بولنے کی ہمت رکھتے ہیں‘ نہیں تو اکثریت اسی میں عافیت سمجھتی ہے کہ حالات سے سمجھوتا کیا جائے اور وقت گزارا جائے۔ ایسے حالات میں جہاں کہیں زبانیں کھلتی ہیں تو جبر وزیادتی کا بازار گرم ہوتا ہے۔ یہاں کے پرانے ادوار اچھے تھے کہ جہاں کچھ زیادتی ہوتی تھی وہاں فیض احمد فیض اور حبیب جالب جیسے بھی ہوتے تھے۔ انقلابی شاعری سے انقلاب تو نہیں آتا تھا لیکن دل کی بھڑاس تو نکل جاتی تھی۔ دل بہلانے کیلئے کچھ ایسے اشعار پڑھ لیے جاتے تھے کہ
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
عمریں بیت گئیں اور ہم دیکھتے ہی رہے‘ کچھ ہوا تو نہیں اور جو ہوا بھی مزید خرابی کی طرف لے گیا۔ لیکن وقتی جوش آنے سے دل میں خلش کچھ کم ہو جاتی۔ اور پھر اُن بیتے ہوئے زمانوں میں شاموں کی اپنی نوعیت ہوتی تھی۔ شاعری کے دور کے ساتھ کچھ اور بھی چل جاتا تھا۔ کہیں دور انقلاب کا سراب نظرآنے لگتا تھا۔

متعلقہ خبریں۔

Check Also
Close
Back to top button