تقریبِ تکمیل صحیح البخاری
(علامہ ابتسام الٰہی ظہیر)
ہر سال ماہِ شعبان میں مدارس کے طلبہ اپنے تعلیمی سال کو مکمل کرتے ہیں اور اس موقع پر آخری سال میں کامیاب ہونے والے طلبہ دیگر کتب کے ساتھ ساتھ صحیح بخاری کو بھی اساتذہ کی زیر نگرانی مکمل کرتے ہیں۔ اس موقع پر جہاں تقریبِ تقسیم اسناد کا انعقاد کیا جاتا ہے وہیں صحیح بخاری کی تکمیل کے حوالے سے بھی پروگرام منعقد کیا جاتا ہے‘ جس میں بڑے بڑے مدارس اور درسگاہوں میں ملک بھر سے جید علمائے کرام پہنچتے اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شخصیت اور صحیح بخاری کے حوالے سے اپنے ارشاداتِ عالیہ کو طلبہ کے سامنے رکھتے اور ان کو امام بخاریؒ کے اس عظیم کارنامے سے روشناس کراتے ہیں۔ ہر سال شعبان المعظم میں مرکز قرآن وسنہ میں بھی تقریبِ تکمیل صحیح بخاری کا انعقاد کیا جاتا ہے‘ اسی طرح جامع القدس میں بھی اس حوالے سے کامیاب تقریب منعقد ہوتی ہے۔ جامعۃ الدعوۃ الاسلامیہ مریدکے بھی علم دین کے حوالے سے ایک اہم مرکز ہے‘ اور وہاں بھی طلبہ کی رہنمائی کرنے والے قابل اساتذہ موجود ہیں۔ عظیم محدث حافظ عبدالسلام بھٹویؒ کی وابستگی بھی اس ممتاز درسگاہ کے ساتھ رہی اور آپ برسہا برس تک طلبہ کو زیورِ علم سے آراستہ وپیوستہ کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ 30 جنوری کو جامعۃ الدعوۃ الاسلامیہ میں ایک پُروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا‘ جس میں شیخ الحدیث مولانا محمد امین محمدی‘ حافظ عبدالغفار اعوان‘ مفتی عبدالرحمن عابد‘ مولانا سیف اللہ قصوری‘ حافظ طلحہ سعید اور دیگر بہت سی نمایاں شخصیات کو خطاب کیلئے مدعو کیا گیا۔ مجھے بھی اس تقریب سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ جب میں مریدکے پہنچا تو استقبال کیلئے دیرینہ دوست عبدالوحید شاہ موجود تھے‘ انہوں نے میری سٹیج کی طرف رہنمائی کی‘ جہاں ممتاز عالم دین مفتی عبدالرحمن عابد نے بڑے پُرتپاک اور پُرجوش انداز میں استقبال کیا۔ بہت سے علما اپنے اپنے انداز سے دینی علم اہمیت کو اجاگر کرتے رہے‘ مجھے بھی اپنی گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا‘ جن کو کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ میں یہاں بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے پایاں ہیں‘ اگر انسان ان کا شمار کرنا چاہے تو ان کو شمار بھی نہیں کر سکتا لیکن ان تمام نعمتوں میں سے نعمتِ ہدایت یقینا سب سے اہم اور بڑی نعمت ہے جس کے بغیر زندگی کی تمام نعمتیں بے کیف ہیں اور جس کی موجودگی میں تمام نعمتیں معنی خیز ہو جاتی ہیں۔ فرعون حکمران تھا‘ قارون سرمایہ دار تھا‘ ہامان صاحبِ عہدہ اور شداد جاگیردار تھا۔ ابولہب کا تعلق بہت بڑے کنبے اور قبیلے سے تھا لیکن یہ تمام لوگ اس لیے ناکام ونامراد ٹھہرے کیونکہ یہ نعمتِ ہدایت سے محروم تھے۔ اس کے برعکس دنیا میں بہت سے ضعیف‘ کمزور‘ ناتواں اور مالی تنگی کے ساتھ زندگی گزارنے والے لوگ اس لیے کامیاب اور کامران ٹھہرے کہ ان کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت اور خشیت تھی اور وہ نعمتِ ایمان سے بہرہ ور تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایمان کی آبیاری کیلئے مختلف زمانوں میں انبیاء کرام و رسل عظام کو مبعوث فرمایا اور ان پر اپنی کتابیں اور صحیفے نازل کیے۔ ان کتابوں اور صحیفوں میں عقائد‘ عبادات اور معاملاتِ حیات سے متعلق رہنمائی موجود تھی اور ان پر عمل پیرا ہو کر ہر دور میں بہت سے لوگ کامیابی اور فلاح کے راستے کے راہی رہے۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ احکاماتِ الٰہی سے انحراف کی وجہ سے ذلیل و رسوا ہو گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ پر نبوت ورسالت کو تما م کر دیا اور آپﷺ کو جمیع انسانیت کا قائد‘ مقتدیٰ اور پیشوا بنایا۔
نبی کریمﷺ کے قلبِ اطہر پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کا نزول فرمایا اور آپﷺ کو اس کتاب کے کامل مفہوم اور اس پر عمل کرنے کے تمام طریقہ ہائے کار سے بھی آراستہ فرما دیا۔ نبی کریمﷺ تمام عمر صحابہ کرامؓ کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے اور ان کا تزکیہ فرماتے رہے اور آپﷺ نے زندگی گزارنے کے بہترین طریقہ کار سے انسانیت کو آگاہ فرما دیا۔ اب اگر کوئی شخص ہدایت کے راستے پر چلنا چاہتا ہے تو اس کو کتاب وسنت کی تعلیمات سے وابستگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
بعض لوگ تنہا قرآنِ مجید کو اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی توضیح‘ تشریح اور تفسیر کی ذمہ داری اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو تفویض فرمائی تھی؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النحل کی آیت: 43 میں ارشاد فرماتے ہیں ”ہم نے آپ پہ ذکر (کلام اللہ) کو نازل کیا تاکہ آپ بیان کریں لوگوں کے لیے جو نازل کیا گیا ان کی طرف‘‘۔ اسی طرح سورۃ الاحزاب کی آیت: 21 میں ارشاد ہوا ”بلاشبہ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی حیاتِ طیبہ میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت: 80 میں ارشاد فرماتے ہیں ”جو اطاعت کرے گا اللہ کے رسول کی تو وہ درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ کی‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران میں یہ بات بھی واضح فرمائی کہ جو لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت کے طلبگار ہیں انہیں رسول اللہﷺ کی اتباع کرنی چاہیے۔ سورۂ آلِ عمران کی آیت: 31 میں ارشاد ہوا ”آپ کہہ دیں کہ اگر تم محبت کرتے ہو اللہ سے‘ تو میری پیروی کرو‘ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کو بھی واضح فرما دیا کہ جو لوگ حضرت رسول اللہﷺ کے ارشاداتِ عالیہ کو اپنے تنازعات کے حل کے لیے تسلیم نہیں کرتے‘ اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کی قسم اٹھاتے ہیں کہ وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام مصحف کی دو جلدوں کے درمیان ”الحمد سے لے کر والناس‘‘ تک ہمارے درمیان موجود ہے جبکہ نبی کریمﷺ کے ثابت شدہ احکامات کو جمع کرنے کیلئے محدثین نے اپنی زندگیوں کو وقف کیے رکھا۔ حضرت اما م بخاریؒ اس اعتبار سے ایک عظیم ہستی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوحدیث کی خدمت کی بے پناہ توفیق عطا فرمائی اور وہ اپنی ساری زندگی نبی کریمﷺ کے فرموداتِ مبارک کو جمع کرنے میں مشغول ومصروف رہے۔ امام بخاری نے چھ لاکھ روایات میں سے 7563 صحیح السند احادیث کو جمع کر کے اپنی کتاب ”صحیح البخاری‘‘ میں جمع کیا۔ صحیح بخاری کی پہلی حدیث کا تعلق نیت کی اہمیت کے ساتھ جبکہ آخری حدیث کا تعلق میزان کو وزنی کرنے والے اعمال کے ساتھ ہے۔ کسی بھی مومن ومسلم کیلئے اصل اہمیت اسی بات کی ہے کہ انسان اپنی نیت کی اصلاح کرے اور اعمال صالح کو اس نیت سے بہتر سے بہتر بنائے کہ اس کے نتیجے میں اخروی کامیابی حاصل ہو گی۔ امام بخاریؒ کی کتاب 99 کتابوں (ابواب) پر مشتمل ہے اور اس میں زندگی گزارنے کے جملہ امور کے بارے میں مکمل رہنمائی کی گئی ہے۔ اب اگر کوئی شخص براہِ راست نبی کریمﷺ کے فرمودات سے روشناس ہونا چاہتا ہے اور وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے اگر توسق اختیار کرتا ہے تو یقینا نبی کریمﷺ کے فرمودات پر عمل کر رہا ہوتا ہے اور اس مسئلے میں کسی قسم کے شک اور شبہ میں مبتلا ہوئے بغیر ان کتابوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کسی کی مخلصانہ کاوشوں کو رد نہیں فرماتے چنانچہ امام بخاریؒ کی کاوشوں کو بھی قبول ومنظور فرمایا اور ان کے کام کو رہتی دنیا تک اس انداز سے قبولیت عطا فرمائی کہ ان کی کتاب اور ان کا کام حدیث کی دنیا میں آج بھی ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں باقی تمام مسلمانوں کیلئے بھی ایک تحریک ہے کہ ان کو بھی اپنی زندگیاں بڑے مقاصد کیلئے وقف کرنی چاہئیں۔ اگر ہم بھی اپنی زندگیوں کو بڑے مقاصد کیلئے وقف کیے رکھیں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری کاوشوں کو بھی قبول و منظور فرمائے گا اور دنیا وآخرت میں سربلندی کی راہیں ہمارے لیے ہموار فرما دے گا ان شاء اللہ۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں امام بخاریؒ کی طرح اپنی زندگی کو قرآن و حدیث اور سنت سے وابستہ رکھنے کی توفیق دے‘ آمین!