گمراہ کن پروپیگنڈے اور جعلی خبروں کی روک تھام
(خالد بیگ)
آج کے جدید مواصلاتی نظام سے نا بلد ماضی کے توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی ریاستیں کس طرح افواہوں اور جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے کو جنگی ہتھیار کے طور پر کس قدر کامیابی کے ساتھ اپنے ہمسایہ ملکوں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے انھیں زیر کیا کرتی تھیں جنگی تاریخ کی کتابیں اس طرح کے حوالوں سے بھری پڑی ہیں۔ ایسے واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں کہ جب عسکری طور پر مضبوط ریاستوں میں افواہوں کے ذریعے عوام الناس کو حاکموں کے خلاف بھڑکا کر ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔ افواہ گھڑنے اور اسے دشمن ملک میں مؤثر طریقے سے پھیلانے کے لیے باقاعدہ ادارے تشکیل دیے جاتے جس میں انسانی نفسیات کے ماہرین ہدف شدہ ملک کے اندر عوام کے رجحانات ان کے روزمرہ کے مسائل، محرومیوں اور باہمی نظریاتی اختلافات کو جانچتے، ان کا تجزیہ کرتے اور اس کے مطابق دشمن ملک میں انتشار برپا کرنے کے لیے منظم اندازے جھوٹے پروپیگنڈے اور افواہوں کو پھیلاتے۔ اس حوالے سے اگر آج کے جدید دور میں اپنے ملک کی داخلی صورتحال پر نظر ڈالیں تو سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ پاکستان دشمن ملک خصوصاً بھارت ہمیشہ اس کوشش میں رہے ہیں کہ لسانیت، فرقہ واریت اور صوبائیت جیسے فتنوں کو ہوا دیتے ہوئے وطن عزیز میں افراتفری، فسادات اور بد امنی کو ہوا دے کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے جائیں، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس فرق کے ساتھ کے آج جدید ٹیکنالوجی کے حامل سوشل میڈیا نے جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے، افواہوں اور جعلی خبروں کو ماضی کے سست رفتار طریقہ کار سے نکال کر اسے ہزار گنا زیادہ مؤثر اور تیز رفتار بنا دیا ہے جس نے ملک میں ہر شخص کے ہاتھ میں موجود جدید موبائل فون کے ذریعے ریاستی اقدار پر حملوں کے ساتھ ساتھ عوامی رویوں اور اخلاقیات کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں جب سے انٹرنیٹ کو فروغ ملا ہے اکثریتی لوگ شکایت کرتے پائے گئے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی پوسٹیں زیادہ تر جھوٹی خبروں اور افواہوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لیکن خود کو باخبر ثابت کرنے کے لیے جھوٹی خبروں کو ‘فارورڈ’ کرتے ہوئے نہ تو خبروں کی سچائی جاننے کی کوشش کی جاتی ہے نہ ہی یہ سوچنے کی زحمت کہ ان جعلی خبروں کے کس قدر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ بعض اخلاق سے گری ہوئی پروپیگنڈا پر مبنی خبروں کو آگے بھیجتے وقت یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ اس طرح کی پوسٹ دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے اور عزت و احترام پر داغ لگانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ملک میں جھوٹ اور بہتان تراشی کے ذریعے کسی کی عزت اور شہرت پر حملہ کرتے وقت ملک میں موجود کمزور قوانین اور عدالتی نظام کی بدولت لوگوں کو یہ ڈر بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی اس گھناؤنی حرکت پر قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ اس بے خوفی نے لوگوں کو مزید اکسایا ہے کہ وہ اپنے مخالفین پر سوشل میڈیا کے ذریعے کیچڑ اچھالتے رہیں۔ بدقسمتی سے اب نہ صرف ریاست بلکہ ملک کی سلامتی کی ضمانت سمجھنے والے ادارے بھی سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والی جعلی خبروں اور پروپیگنڈے کی زد میں ہیں۔
اس سلسلے کو روکنے کے لیے 2016ء میں حکومت پاکستان نے ملک میں پیکا ایکٹ کا نفاذ کیا لیکن تیزی سے ٹیکنالوجی میں آنے والی جدت اور سوشل میڈیا کے ذریعے فیس بک، واٹس ایپ اور انٹرنیٹ کی دیگر ایپس کے ذریعے جعلی خبروں، بلیک میلنگ اور مالیاتی فراڈ جیسے جرائم کے سیلاب کو روکنے میں پیکا ایکٹ 2016ء غیر مؤثر ثابت ہوا تو اس میں تبدیلی اور ایکٹ کو جدید ضروریات کے مطابق مؤثر بنانے کے لیے اس میں تبدیلی ناگزیر ہوگئی۔ حیران کن طور پر قومی اسمبلی و سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر پاکستان نے تجدید شدہ پیکا ایکٹ کی دستاویز پر دستخط کیے تو اس کے خلاف ملک میں احتجاج کا طوفان برپا ہو گیا جس میں ہمارے صحافی بھائی بھی شامل ہوگئے۔ احتجاج میں پیش پیش کچھ صحافی بھائیوں سے جب سوال کیا کہ کیا انھوں نے تجدید شدہ پیکا ایکٹ پڑھا یا اس کا جائزہ لیا ہے تو سب نے سنی سنائی کو اپنی معلومات کا ذریعہ بتایا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے کیے گئے اعلان کے مطابق ابھی نئے ایکٹ کے رولز بننے باقی ہیں جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اس لا کے رولز پر تمام حلقوں سے بات چیت اور مشاورت کی جائے گی، ساتھ ہی صحافتی اداروں کی مشاورت سے سوشل میڈیا کی ریگولیشن کے معاملے پر آگے بڑھا جائے گا۔ ہمیں حکومت کے اس موقف پر یقین کرنا چاہیے کہ اس قانون کا مقصد سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہے نہ کہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو کیونکہ وہ پہلے ہی پیمرا قانون کے تحت چلتا ہے اس پر پیکا لاگو نہیں ہوتا۔ ملک میں عوام الناس کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے کہ ملک میں سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی فیک نیوز اور پروپیگنڈا کا خاتمہ ہو اور مین سٹریم میڈیا کی طرح سوشل میڈیا کو بھی ریگولیٹ کیا جائے جس میں نیا پیکا ایکٹ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی پیکا ایکٹ پر زیادہ شور سوشل میڈیا کے وہ لوگ مچا رہا ہے جو فیک نیوز اور جھوٹ سے پیسہ بنانے میں مصروف ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا پاکستان کی اہم ضرورت ہے جس پر ہر پاکستانی کا اتفاق ہے۔ پیکا ایکٹ کا جائزہ لیا جائے تو یہ مین سٹریم میڈیا اور مین سٹریم صحافیوں کو مضبوط کرتا ہے جس میں قانون کے مطابق ڈیجیٹل میڈیا اتھارٹی، کونسل آف کمپلینٹ اور ٹربیونل میں زیادہ تر صحافی اور پرائیویٹ لوگ شامل ہیں جس سے اس قانون کی شفافیت کا پتا چلتا ہے۔
یقیناً پیکا ایکٹ ترامیم اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیلنے والی فیک نیوز کو قانون کی عمل داری سے روکا جاسکے۔ اس ایکٹ میں سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (ایس ایم پی آر اے) کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کرے گی اور ان پر قواتین کے نفاذ کو یقینی بنائے گی۔ یہ اتھارٹی غیر قانونی مواد کی شناخت کر کے سوشل میڈیا سے جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈے کی روک تھام اور ایسا مواد ہٹانے کے لیے اہم اقدامات کرے گی تاکہ عوام کو گمراہ کرنے والی معلومات کا پھیلاؤ روکا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپلیمنٹ کونسل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے تاکہ جھوٹ پر مبنی مواد کے خلاف درج شکایات کا ازالہ کیا جاسکے۔ اس ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل بھی قائم کیا گیا ہے جو سائبر کرائم سے متعلق اہم مقدمات کا فیصلہ کرے گا اور فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا جو وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کی جگہ لے گی۔ این سی سی آئی اے کو وسیع تفتیشی اختیارت دیے جائیں گے تاکہ وہ سائبر کرائم کی مؤثر تحقیقات کرسکے اور مجرموں کو سزا دلوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوری طریقے سے پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو ہمارے ملک کی اپوزیشن جماعتیں بھی جمہوری اصولوں کے مطابق تسلیم کریں اور عوام الناس کے وسیع تر مفادات کے تحفظ کے لیے کیے گئے اس اقدام کی حمایت کریں۔(بشکریہ نوائے وقت)