کالم

مجھےمیرٹ چاہئے !

(عبدالغفار قیصرانی)

وطن عزیز میں میرٹ کی خواہش کرناقابل تعزیر جرم بن چکا ہے۔ میرٹ کیلئےصاحبان منصب و اقتدار کے دروازے پر زنجیر عدل ہلانے جاؤ تو دربان الٹا فریادی کو کاٹنے کیلئے دوڑتے ہیں۔ ایسے ظلم پراب نہ تو زمین پھٹتی ہے اور نہ آسمان گرتا ہے۔ پہلے صرف سنتے تھے اب اپنے ساتھ بیتی ہے تو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے اوپر ظلم ڈھانے والا کوئی غیر نہیں ہمارا اپنا بھائی تھا۔ بھائی سمجھ کر کافی عرصہ برداشت کیا مگر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق آخر ایک دن ہم نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹانےکا فیصلہ کر لیا۔ پہلےکئی دفتروں میں نہ صرف عرضیاں بھیجیں بلکہ ان کی کاپیاں صدر مملکت، وزیر اعظم، چیف جسٹس، وزیراعلیٰ، وفاقی اور صوبائی محتسب اور آئی جی تک کو ارسال کیں مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے۔ اتفاق سے جب ایک دن کسی نے بتایا کہ قریبی تحصیل ہیڈکوارٹر میں ضلع کا پولیس کپتان کھلی کچہری لگانے آرہا ہےتو ہم نے بھی شنوائی کی امید پر وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا۔
کھلی کچہری والے دن پہلے ہم عرضی نویس کے پاس پہنچے تاکہ ایک اچھی سی درخواست لکھوائی جا سکے۔ عرضی نویس کو بتایاکہ مشترکہ موٹر سائیکل کی فروخت سے حاصل ہونی والی رقم میں سےہمارا کچھ حصہ بڑے بھائی نے ہڑپ کر لیا ہے اور مطالبہ کرنے پرالٹا سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ بھلا ہو عرضی نویس کا اس نے ہمیں یاد کرایا کہ بھائی نے نہ صرف سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں بلکہ اپنے چار دوستوں کے ساتھ اسلحہ سے لیس ہوکر ہمارے اوپر حملہ آور ہو ا اور جاتے ہوئے ہماری جیب سے موبائل نوکیا تینتیس دس اور دو ہزار روپے بھی نکال کے لے گیا ہے۔ درخواست کو فائل کور میں رکھ کر ہم کھلی کچہری کے مقام پر پہنچ گئے۔ سچ پوچھیں تو جاتے ہوئے ہم کچھ گھبراہٹ کا شکار تھے کہ آخر پولیس کے پاس جا رہے تھے مگر وہاں میلے کاسا سماں دیکھ کرہمیں نہ صرف ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوا بلکہ ہمارے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا۔ پولیس کپتان کے پہنچنے میں ابھی کچھ وقت تھا مگر شہریوں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچ چکی تھی۔ کچھ لوگوں نے پھولوں کے ہار اٹھائے ہوئے تھے اور کچھ کے ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں سے بھرے شاپنگ بیگز تھے۔دو ڈھول بجانے والےپنڈال کے داخلی راستے پر موجود تھےجو ہر تھوڑی دیر بعد ڈھول بجا کے ماحول کو گرما رہے تھے۔ ایک دو منچلوں نےتو ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالنا شروع کر دی تھی۔منچلوں کا قصور نہیں تھا ڈھول بجانے والے ایسا رنگ جما رہے تھے کہ ایک دفعہ تو ہمارا من بھی دھمال کے لئے اچھلا مگر ہم نے اسے یاد دلایا میاں تم یہاں فریادی بن کے آئے ہو۔ صحافیوں اور ٹک ٹاکرز کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے اپنے اپنے موبائل کیمرے اسٹیج کے سامنے سیٹ کر رکھے تھے۔چند ایک صحافیوں نے فیس بک پر لائیو پروگرام بھی شروع کر دیا تھا۔ ایک دفعہ تو ہمیں شک گزرا کہ شائد ہم کسی غلط جگہ پر آ گئے ہیں مگربعد میں ایک پولیس والے نے تصدیق کی کہ آپ ٹھیک جگہ پہنچے ہیں۔ ہم پہلی لائن میں ایک خالی کرسی پر بیٹھ گئے۔ کافی دیر انتظار کے بعد لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہواکہ کپتان صاحب تشریف لا چکے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں آپ کے سامنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی وردی کی آستینیں چڑھا کر کالاچشمہ لگائے اور گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے ڈھول کی تھاپ پر کپتان صاحب پنڈال کے اندر داخل ہوئے۔ پنڈال میں موجود تمام لوگوں نے کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے ہوئے استقبال کیا۔ کپتان نے اسٹیج پر پہنچ کر دونوں ہاتھ ہوا میں لہرا کر لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔
خدا خدا کر کےتقاریر کا مرحلہ اختتام کو پہنچا تو سائلین کو اجازت دی گئی وہ باری باری اپنی عرض معروض کپتان کے حضور پیش کر سکتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو میلے ٹھیلے جیسے ماحول میں گزرے پچھلے چند گھنٹوں کی وجہ سے ہمارا اعتماد کسی بے وقوف کے اعتماد کی طرح ساتویں آسمان پر تھااس لئے چھلانگ مار کے سب سے پہلے اسٹیج پر پہنچے اور اپنی فائل کپتان کے سامنے رکھ دی۔ ’’بھائی اور اس کے چار دوستوں نے اتشیں اسلحہ سے لیس ہو کر تم پر حملہ کیا پھر تم بچ کیسے گئے؟‘‘ درخواست کے سرسری مطالعہ کے بعد کپتان نے پوچھا۔ ہم نے کہاحضور زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، بس آپ میرٹ کر دیں۔ ’’اچھا تمہارا نوکیا موبائل اور دو ہزار روپے بھی چوری کر لئے انہوں نے؟۔ یار خداکا خوف کر و کچھ ، موبائل تو کوئی اور لکھوا دیتے۔ نوکیا تینتیس دس تو اب مارکیٹ میں بھی نہیں ملتا۔ حد ہے ویسے‘‘ دوسرے سوال کا جواب بھی ہم یہی دے پائےکہ حضورہمیں بس میرٹ چاہئے۔ اب میرے ماتھے پر پسینے کے ہلکے ہلکے قطروں کے ساتھ ساتھ پنڈال میں موجود لوگوں کے دبے دبے قہقہےبھی میرے کانوں تک پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ ’’چلیں آپ دور سے آئے ہیں، اگرآپ کے بھائی سے آپ کی رقم وصول کرا دیں تو پھر ٹھیک ہے۔؟‘‘ درخواست پردوبارہ سرسری نگاہ ڈالنےکے بعد کپتان میری طرف مڑے۔ ہم نےکچھ بولنے کی کوشش کی مگر ہونٹ اتنے خشک ہو چکے تھے کہ آواز باہر نہ نکل سکی۔ پھڑ پھڑاتے ہونٹوں سے کپتان نے ٹھیک اندازہ لگایا کہ ہم نےایک بار پھر میرٹ ہی کا تقاضا کیا تھا۔ ’’او بھائی میرٹ کوئی فریج میں پڑا ہوا دودھ کا ڈبہ ہے جو اٹھا کے تمہیں دے دوں۔ آخر تم چاہتے کیا ہو؟‘‘ کپتان صاحب اونچی آواز میں دھاڑے۔سچ پوچھیں تو اب ہمارا صبر اور اعتماد دونوں جواب دے چکے تھے۔ ہمیں اب یقین ہو گیا تھا کہ اس ملک میں میرٹ مانگنا قابل تعزیر جرم بن چکا ہے۔ حالات بگڑتے دیکھ کر ہم نے جلدی سے اپنی فائل اٹھائی اور اسٹیج سے نیچےاتر آئے۔ ’’اصل میرٹ تو یہ ہے کہ ایسی جھوٹی درخواستیں دینے والوں کو گرفتار کر کے جیل بھیجنا چاہئے۔‘‘ پنڈال سے باہر بھاگتے ہوئے پولیس کپتان کے الفاظ میرے کانوں سے ٹکرائے۔

متعلقہ خبریں۔

Check Also
Close
Back to top button