سمجھ سے بالاتر سیاست
(سرفراز راجا)
عمران خان کی سیاست کی سمجھ نہیں آتی اور عمران خان کو سیاست کی سمجھ نہیں دونوں باتوں میں جو ‘‘کی’’ اور ‘‘کا’’ کو فرق ہے وہی دراصل عمران خان کے حامیوں اور ان کے مخالفین کی ان کے بارے میں رائے کا فرق ہے۔ خاں صاحب کے حامی سمجھتے ہیں کہ وہ جو سیاست کرتے ہیں وہ کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا جبکہ مخالفین کہتے ہیں کہ عمران خان کو دراصل سیاست کی ہی سمجھ نہیں، دیکھا جائے تو اپنی اپنی جگہ دونوں باتیں ٹھیک ہی ہیں کیونکہ خاں صاحب نے جو کہا جس چیز کی مخالفت کی پھر اکثر وہی کیا بھی اور جو کیا بعد میں اکثر اس کی مخالفت کرتے رہے۔ خاں صاحب کا سیاسی کیرئیر جو اب تیسری دہائی مکمل کرنے کو ہے ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ان کے حامی اسے خان کا سرپرائز کہہ دیتے ہیں اور مخالفین یوٹرن لیکن پھر خاں صاحب نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی کہ یوٹرن لینا تو دراصل بڑے لیڈر کی نشانی ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے حالیہ مذاکرت کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے جس کے بعد خان صاحب کے حامی اسے سرپرائز کہہ سکتے ہیں لیکن دراصل یہ سب کیلئے سرپرائز ہی تھا۔ عمران خان کبھی موجودہ سیاسی جماعتوں کیساتھ بیٹھنے کے حامی نہیں رہے وہ تو اپنے دور حکومت میں اہم ترین مواقع پر جب قومی مفادات میں اپوزیشن کیساتھ بیٹھے کی ضرررت تھی تب بھی وہ ‘‘این آر او مانگ رہے ہیں، این آر او نہیں دونگا’’ جیسے بیانات دے کر کسی سیاسی مخالف کیساتھ بیٹھنے سے انکار کردیتے۔ حکومت جانے کے بعد تو وہ مخالف جماعتوں کے وجود کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے ان کا مرکز امید اسٹیبلشمنٹ ہی رہی اور وہ کھل کر اسٹیبلشمنٹ اور صرف اسٹیبلشمنٹ کیساتھ بات کرنے کا اعلان کرتے رہے۔ وہاں سے ‘‘ صاف ‘‘ جواب ملنے کے بعد بھی وہ اسی جانب آوازیں دیتے رہے۔ گزشتہ سال کے آخری مہینوں میں خود ہی پی ٹی آئی قیادت نے حکومت سے مذاکرات کی ہیشکشیں شروع کردیں نہ صرف پیشکشیں شروع کیں بلکہ مینڈیٹ واپسی نئے انتخابات جیسے مطالبات سے بھی پیچھے ہٹ گئے اور صرف نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن اور قیدیوں کی رہائی کے مطالبات ہی رکھے۔ اور پھر محض مزاکرات کے تین ادوار کے بعد خود ہی مذاکرت ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ مزاکرات کی روح یہ ہوتی ہے کہ دونوں فریق ایک ساتھ بیٹھتے ہیں ایک دوسرے کا نکتہ نظر سنتے ہیں اپنے اپنے مطالبات سامنے لاتے ہیں اور پھر دونوں جانب سے کچھ نکات پر متفق ہوا جاتا ہے اور پھر ان کو کوئی تحریری معاہدے کی شکل دیدی جاتی ہے۔ یہاں کیا ہوا تحریک انصاف نے مطالبات پیش کئے اور پھر ان کا جواب لینے ہی نہیں آئے اور وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ تحریک انصاف کی کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں ، عمران خان ہی کسی بات سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو کمیٹی کچھ نہیں کرسکتی یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ عمران خان سے ان اپنی پارٹی کے چیئرمین نے ملاقات کی اور پھر میڈیا کے سامنے مذاکرت ختم کرنے کا اعلان کردیا جس سے مذاکراتی کمیٹی کو علم ہوا مذاکرت ختم کردئیے گئے ہیں۔ اصولی طور پر تو اس اعلان کے چند روز بعد کمیٹی کی جو باضابطہ میٹنگ تھی وہاں یہ اعلان کیا جاسکتا تھا لیکن یہ تو حقیقت ہے تحریک انصاف نام ہی عمران خان کا ہے ان کی مرضی کیخلاف تو کچھ نہیں ہوسکتا۔ اب سوالات یہی ہیں کہ تحریک انصاف نے جتنی جلدی مذاکرت شروع کرنے میں دکھائی ختم کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کا مظاہرہ کیا۔ دراصل مذاکرت کا بڑا مقصد خان صاحب کی رہائی ہی تھا، جسے خان صاحب کی زبان میں این آر او کہا جاتا ہے لیکن کیا کیا جائے خان صاحب نے اپنے دور میں اتنی بار این آر او مانگنے اور نہ دینے کی باتیں کیں کہ انہیں خدشہ تھا کہ ان کے اس مطالبے کو بھی ایسا ہی رنگ دیا جائے گا اسے لئے تحریک انصاف نے مطالبات تحریری طور ہر دینے میں اتنی سوچ بچار کی اور پھر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا کہا جبکہ سب کو معلوم ہے کہ سیاسی قیدی سے ان کا مطلب عمران خان ہی تھا یہ اور بات ہے کہ عمران خان کی مخالف جماعتوں نے سیاسی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے مطالبے کو این آر او مانگنے کے پروپیگنڈے کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ جب تحریک انصاف نے سیاسی جماعتوں کیساتھ مذاکرت کی پیشکش شروع کی تو عمران خان سزا یافتہ نہیں بلکہ ایک گرفتار ملزم کی حیثیت سے جیل میں تھے ایسی صورت میں انہیں حکومت سے ریلیف ملنے کی امید تھی اور جب نہیں 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا ہوگئی تو وہ سزا یافتہ ہوگئے پھر ان کی رہائی حکومت کے ہاتھ میں نہ تھی تو پھر مذاکرات کا کیا فائدہ۔ اور یہی بات ظاہر کرتی ہے کہ مذاکرت کا مقصد کسی کمیشن کے قیام سے ز یادہ خان صاحب کی رہائی تھا۔ دیکھا جائے تو خان صاحب کی ساری سیاست انہی کے گرد گھومتی ہے وہ نہیں تو کچھ نہیں ،وہی نعرہ جو ان کے حامی لگاتے رہے۔ سیاست عوامی ہوتی ہے عوام کیلئے اور عوام کے زریعے۔ اور اگر سیاست کسی ایک شخصیت کیلئے ہو تو پھر یہ سیاست سمجھ بوجھ سے بالاتر ہی ہو گی۔ چاہے آپ کہہ دیں کہ ‘‘اس ‘‘کو سیاست کی سمجھ نہیں یا ‘‘اس ‘‘کی سیاست کی سمجھ نہیں آتی۔(بشکریہ نوائے وقت)