کالم

قرآن کریم اور ڈیپ سیک

(امیر حمزہ)

اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ایک مشین انسانوں کی بات چیت اور تحریروں وغیرہ سے معلومات کو سامنے رکھے اور پھر جواب میں انسانوں ہی کی رہنما بن کر سامنے آئے تو اسے مصنوعی ذہانت (AI)کہا جاتا ہے۔ اس میدان میں امریکہ سرفہرست تھا۔ چیٹ یعنی بات چیت کہ جس کا نام ” جی ٹی پی‘‘ رکھا گیا‘ یعنی Generative Pre-trained Transformer‘ اس نے دنیا میں امریکی ٹیکنالوجی کی دھوم مچا دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے برسراقتدار آتے ہی اس ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں کو اپنی کابینہ میں اہم عہدے دے دیے۔ مذکورہ ٹیکنالوجی میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کردیا۔ دنیا کہنے لگ گئی کہ امریکہ بہت بڑی سپر پاور بننے جا رہا ہے۔ مقابلے کی خاموش سپر پاور چین نے ”ڈیپ سیک‘‘کی ٹیکنالوجی میدان میں اُتار دی۔ یہ انتہائی سستی بھی ہے‘آسان بھی ہے‘سادہ بھی ہے‘ فرینڈلی بھی اورلچک دار بھی۔ یہ جونہی مارکیٹ میں آئی‘ وال سٹریٹ میں دنیا نے دیکھا کہ امریکی کمپنیاں ایک ٹریلین کے قریب یعنی ایک ہزار ارب ڈالر کے خسارے میں چلی گئیں۔ اب امریکہ کو پریشانی یہ ہے کہ دنیا ” ڈیپ سیک‘‘ پر چلی گئی تو دنیا بھر کی انسانی مہارتوں کا ڈیٹا چین کے پاس چلا جائے گا۔ ڈیپ سیک چوکڑیاں بھرتی آگے ہی آگے کو بڑھتی چلی جائے گی تو ہمارا کیا بنے گا۔ ہمارے سائنسدان‘ تاجر‘ سیاستدان وغیرہ اسے استعمال کریں گے‘ سب کا ڈیٹا ان کے پاس ہوگا تو یہ صورتحال ہمیں مزید کمزور کرے گی۔ یہ ٹیکنالوجی چین کو اوپر اٹھا دے گی لہٰذا ہاتھ پائوں مارنے شروع کر دیے گئے۔
حضور ختم المرسلینﷺ پر نازل ہونے والے آخری الہام قرآنِ مجید کی عظمتوں کو سلام کہ اس نے مندرجہ بالا ٹیکنالوجی سے کس طرح انسانیت کو آگاہ فرمایا! ملاحظہ ہو۔” پیارے حبیبﷺ! دنیا بھر کو آگاہ کر دو۔ جس طرح یہ لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں‘ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ عرش والے اللہ کی طرف ضرور بر ضرور راستہ نکالتے۔وہ ایسی باتوں سے پاک ہے اور بہت بلند ہے جو یہ لوگ کرتے پھرتے ہیں‘ وہ بہت بڑی انتہائوں تک بلند ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ مخلوقات جو آسمانوں اور زمینوں میں موجود ہیں‘ بھی اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ (الغرض! کوئی ایسی شے ‘ایٹم‘ ذیلی ایٹمی ذرات اور کوارکس وغیرہ نہیں جو حمد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان نہ کرے) مگر حقیقت یہ ہے (اے انسانو!) تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے وہ حلیم (حوصلے والا) بھی ہے اور بخشنے والا بھی ہے‘‘(بنی اسرائیل:42تا 44)
قارئین کرام!مندرجہ بالا آیت میں تفقھون کا لفظ آیا ہے جو فقہ سے ماخوذ ہے۔ ”فقہ‘‘ کے لفظ کو آپ جانتے ہی ہیں یعنی گہری سوچ بچار اور ریسرچ کے بعد جو مؤقف اپنایا جاتا ہے اسے ”فقہ‘‘ کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے فرقے ‘فقہی مکاتبِ فکر‘ ہیں۔ اسلامی قانون کی تشریح کا نام بھی فقہ ہے۔ سائنسی امور میں غورو فکر بھی ‘فقہ‘ ہے۔ قرآنِ مجید نے اسی لیے ”تفقھون‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کی اساس ”فقہ‘‘ کا لفظ ہے۔ یعنی کائنات کا ذرہ ذرہ جس طرح اپنے خالق کی عظمت کو پہچان کر اللہ کی پاکیزگی اور تعریف کرتا ہے تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ اللہ اللہ! یہ نہیں فرمایا کہ تم اسے سُن نہیں سکتے۔ فرمایا! تم اسے سمجھ نہیں سکتے۔ تم اس کی فقاہت حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری یہ کائنات انتہائی باشعور ہے۔ لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ انسان نے جب اربوں انسانوں کا علمی ڈیٹا سائنسی اور ٹیکنالوجیکل انداز میں مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی کے سامنے رکھا تو یہ سائنسی مشین اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرنے لگ گئی۔ جی ہاں! ڈیٹا کس نے فراہم کیا؟ انسان نے فراہم کیا اور اب یہ انسان خود ہی ڈر بھی رہا ہے‘ خوف سے کانپ بھی رہا ہے کہ یہ مشین انسان سے آگے بڑھ جائے گی۔ انسانی ہاتھوں سے بنی ہوئی مشین ہی انسان کی آقا بن جائے گی۔ ملازمتیں ختم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ وہی ملازمتیں برقرار رہیں گی اور نئی جابز سامنے آئیں گی جو اے آئی کی مہارتوں سے متعلق ہوں گی۔ آگے چل کر اے آئی کے روبوٹس نے فیصلے خود لینا شروع کردیے تو انسان ان کے ہاتھوں مارے بھی جا سکتے ہیں۔ انسان اس ٹیکنالوجی کو آگے بھی بڑھا رہا ہے اور اپنے ہی بنائے ہوئے اس ہتھیار سے خوف بھی کھائے چلا جا رہا ہے۔
یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ ہی سب کا خالق و مالک ہے۔ اس کی پیدا کی ہوئی اشیا کو استعمال کرکے انسان موجد بنا ہوا ہے۔ یہ خالق نہیں ہے‘ موجد ہے۔ ساری انسانیت مل کر ایک کوارک (Quark) تک نہیں بنا سکتی‘ جو ایٹم کا ایک ذیلی ذرہ ہے۔ بنے ہوئے کوارکس سے‘کوارک کے اَپ اور ڈائون جوڑے سے‘ اور پھر ایٹم اور مالیکیول وغیرہ سے انسان بہت ساری ایجادات ضرور کر سکتا ہے۔ یہ موجد ہی رہے گا‘ خالق نہیں بن سکتا۔ اور یہ موجد بھی اپنی ہی ایجاد سے ڈرا اور سہما ہوا بھی ہے۔ اللہ کی قسم! کمال اور انتہائی پُرجمال ہے اللہ کا قرآن کہ ایسے موجد اور سائنسی انسان کو اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتے ہوئے خبردار کرتے ہیں! فرمایا ” تم لوگ کسی بھی طرح (اُس کو) نہ زمین میں عاجز کر سکتے ہو اور نہ ہی آسمان میں عاجز کر سکتے ہو اور خدا کے سوا تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مددگار‘‘ (العنکبوت: 22)
یعنی تم جو بھی کر لو‘ تم ہمہ وقت ہماری گرفت میں ہو۔ ہم سے بچ کر تم کہیں نہیں جا سکتے ہو۔ کائنات کا ہر ذرہ اور اس ذرے کے اندرکے ذیلی ذرات‘ سب ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ اوپر سے اوپر چلتے چلے جائو۔ خلا میں ”ویوز‘‘ (Waves) ملیں گی‘ ان کے اوپر بس ہمارا ہی آرڈر ہے جو چل رہا ہے۔ وہیں سے معلومات (Information) آ رہی ہیں۔ وہیں سے ڈیٹا آ رہا ہے۔ ذرہ ذرہ شعور ہے اور اپنے خالق کی حمدوثناء کے گن گاتا ہے۔
چین نے Deep seek جو نام رکھا ہے‘ بہت ہی اچھا نام رکھا ہے۔ چینی بھائیوں کی خدمت میں گزارش ہے‘ ڈیپ سیک کے بانی محترم لیانگ وین فینگ (Liang Wenfeng)کی خدمت میں عرض ہے‘ آپ تلاش کرتے کرتے زیادہ گہرائی میں چلے گئے تو آپ نے ایسا کام کر لیا۔ 2003ء سے 2007ء تک کی صورتحال یہ تھی کہ مذکورہ ٹیکنالوجی کے 64 شعبوں میں سے امریکہ 60 میں آگے تھا۔ آج چین کی صورتحال یہ ہے کہ وہ ٹیکنالوجی جو 64 شعبوں میں دنیا کو لیڈ کر رہی ہے اور جس میں چین تب صرف تین میں آگے تھا‘ آج 57 میں آگے آ چکا ہے۔ یعنی لیڈنگ پاور میں چین نمبر ون بن گیا ہے۔ آپ مزید گہرائی میں جائیں گے تو آپ کو اپنے خالق کی پہچان ملتی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم کی آخری بات عرض کرکے کالم کا اختتام کرنے والا ہوں۔ فرمایا: ”واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض‘‘۔ ترجمہ: ”جو چیز (علم و ٹیکنالوجی) لوگوں کو فائدہ دے‘ اللہ زمین میں اس کو ٹھہرا دیتا ہے‘ (اس کی جڑیں مضبوط کر دیتا ہے)‘‘ (الرعد: 17)۔ پاک چین دوستی زندہ باد!

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button