برآمدات بڑھانے میں حائل مشکلات
(چوہدری سلامت علی)
پاکستان کی برآمدات کا دارومدار تاریخی طور پر بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی مشینری، خام مال اور کیمیکلز پر رہا ہے جسکی وجہ سے جیسے جیسے شرح نمو یا ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے درآمدات کی ادائیگی کیلئے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسکے نتیجے میں یا تو شرح نمو کو کم کرنے کیلئے درآمدات پر پابندیاں لگانی پڑتی ہیں یا عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے تاکہ بیرونی ادائیگیوں کاتوازن برقرار رکھا جا سکے۔ اس کے علاوہ زرمبادلہ کے حصول کا ایک اور اہم ذریعہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہے۔ تاہم اس کیلئے بھی سرمایہ کاری کرنیوالی غیر ملکی کمپنیوں یا ممالک کو پرکشش مراعات اور ترغیبات دینا ہماری مجبوری ہے کیونکہ مجموعی طور پر خطے کی صورتحال اور ہمارے سیاسی حالات کی وجہ سے پاکستان براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ترجیحی فہرست میں بہت نیچے ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کی خاطر ہماری حکومتیں جو وعدے کرتی ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل درآمد کرنا ممکن نہیں رہتا ہے۔ ایسے میں بیرونی سرمایہ کار بھی اپنے منافع کو جلد از جلد پاکستان سے باہر منتقل کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں جسکی وجہ سے زرمبادلہ کے حصول کا یہ ذریعہ بھی ہمارے لئے معاشی استحکام کا باعث نہیں بن سکا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں برآمدات بڑھانے کیلئے جو پانچ سالہ منصوبہ پیش کیا ہے اس میں ان چیلنجز کو مدنظر رکھ کر ترقی کے ماڈل کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ برآمدات بڑھانےکیلئے درآمدات پر انحصار کم کیا جائے اور بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی اشیاء یا مصنوعات کے مقامی متبادل تیار کرنے پر توجہ دی جائے۔ اس طرح صنعتی خام مال اور ویلیو چین میں بھی مقامی پیداوار پر انحصار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح نہ صرف مقامی انڈسٹری کو فروغ ملے گا بلکہ روزگار کے مواقع بڑھانے کے ساتھ ساتھ مقامی منڈیوں کی ضروریات پوری کر کے قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جا سکے گا۔ اس سلسلے میں زرعی مشینری کی تیاری، تصدیق شدہ بیجوں کی دستیابی اور کیمیائی کھادوں اور زرعی ادویات کے بیجا استعمال کو روکنے کیلئے قدرتی کھاد کے استعمال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ درآمدات کے حوالے سے پالیسی میں یہ تبدیلی ایک مستحکم میکرو اکنامک ماحول فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی جس کے نتیجے میں برآمدات بڑھانے کیلئے درکار جدید ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے ہمیں زرمبادلہ کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں اس سے بیرونی سرمایہ کاری کیلئے بھی ملک میں موزوں ماحول کی تشکیل میں مدد ملے گی۔ گزشتہ چند دہائیوں میں گلوبلائزیشن کی وجہ سے مینو فیکچرنگ کا عمل تیزی سے ترقی پذیر ممالک میں منتقل ہوا ہے جس کی وجہ سے متعدد ممالک عالمی سپلائی اور ویلیو چینز میں شامل ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ ایسے ممالک کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنی مسابقت کس طرح برقرار رکھ پاتے ہیں کیونکہ جیسے جیسے کسی ملک میں صنعتی ترقی کا عمل آگے بڑھتا ہے وہاں ہنر مند افرادی قوت کی مانگ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے میں سپلائی اور ویلیو چین میں بین الاقوامی انضمام کو برقرار رکھنے اور مزید بہتر بنانےکیلئے، معیار، اختراع اور علم کی تخلیق کے ساتھ ساتھ پیداواری صلاحیت میں اضافہ ضروری ہو جاتا ہے تاکہ پیداواری لاگت کو کم سے کم رکھ کر مضبوط مسابقتی فوائد حاصل کئے جا سکیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان کی برآمدات ایک مخصوص حد سے اوپر نہیں جا سکی ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارے خطے کے دیگر ممالک کی برآمدات میں اس عرصے کے دوران نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں علاقائی حریفوں انڈیا، بنگلہ دیش اور ویت نام کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات مجموعی قومی پیداوار میں اپنا تناسب بڑھانے میں ناکام رہی ہیں۔ ایسے میں برآمدات بڑھانے کیلئے موثر کارکردگی دکھائے بغیر ملک کی معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ہر شعبے میں پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جائے۔ اس حوالے سے ہونیوالی ایک عالمی تحقیق کے مطابق 60فیصد ممالک جنکی مجموعی پیداواری صلاحیت میں اضافے کی شرح تین سے آٹھ فیصد یا اس سے زیادہ تھی وہ معاشی استحکام کی منزل حاصل کر چکے ہیں جبکہ دوسری طرف جن ممالک کی مجموعی پیداواری صلاحیت میں اضافے کی شرح تین فیصد سے کم تھی وہ تاحال معاشی بحران کا شکار ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کی اوسط شرح نمو ڈیڑھ یا دو فیصد سے زیادہ نہیں بنتی۔ چنانچہ برآمدات کو بڑھانے کیلئے پیداواری صلاحیت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور ہنرمند افرادی قوت کی تیاری کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے معیشت میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں صنعتی اداروں کا زیادہ تر سرمایہ ریفنڈ کی مد میں یا تو حکومت کے پاس جمع ہے یا پھر وہ مہنگی توانائی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے وسائل شمسی توانائی کے حصول پر خرچ کرنے کیلئے مجبور ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے تناسب میں بھی کمی آئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کاروبار کرنا ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور اب تو یہ نوبت آ چکی ہے کہ ملک کے بڑے صنعتی ادارے اپنے سرمائے کو تحفظ دینے اور دیگر معاشی فوائد کے حصول کی خاطر بیرون ملک سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف مقامی سطح پر انڈسٹری کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی محدود ہو رہے ہیں۔