کالم

پاک امریکہ تعلقات: ترجیحات

(محمد مہدی)

سر دست یہ طے شدہ امر ہے کہ امریکہ دنیا کے ہر ملک کا ہمسایہ ہے اور طاقت ور ہونے کی وجہ سے اپنی من مانی کرتا پھرتا ہے۔ اس لئے جب بھی ادھر کوئی سیاسی تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے تو اس کے اثرات لا محالہ پاکستان پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ٹرمپ کا امریکی منصب صدارت پر دوبارہ سے فائز ہونا اس اعتبار سے مناسب ہے کہ دنیا ان سے اور وہ دنیا سے نبرد آزما ہو چکے ہیں اور پھر ایک صدارتی مدت کے بعد وہ دوبارہ صاحبِ اقتدار بن چکے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ گزشتہ چند عشروں سے پاک امریکہ تعلقات میں ایک بہت ہی اہم حصہ افغانستان کے حالات ہیں اور یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ ٹرمپ اپنی سابقہ مدت میں پاکستان سے خوش نہیں تھے۔ اول اول تو ان کا رویہ بہت سرد تھا اور اسی سرد رویےکی وجہ سے وہ اس میں کامیاب ہو گئے تھے کہ عمران خان حکومت نے بغیر کوئی قومی مفاد حاصل کئے افغان طالبان سے امریکہ کا معاہدہ کروا دیا تھا اور پاکستان اس کے نتائج بڑی بری طرح سےبھگت بھی رہا ہے۔ ٹرمپ کے تجربہ کار ہونے کی وجہ سے یہ تو تصور نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس خطے کے حالات سے واقف نہیں ہونگے۔ ابھی حلف برداری کی تقریب سے قبل انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں جو خطاب کیا ہے۔ اس میں افغانستان کا ذکر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انکے حوالے سے یہ تصور بہت مضبوط ہے کہ بائیڈن دور حکومت میں جس انداز میں امریکہ نے افغانستان سے انخلا کیا اور ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ جس کی ماليت کم و بیش سات ارب ڈالر تھی وہیں پر چھوڑ دیا۔ ٹرمپ اس طریقہ کار کے سخت ناقد ہیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں یہ واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان کو جو مالی مدد ميسر آتی ہے اس کو اس سے مشروط کیا جائے کہ وہاں سے امریکی ہتھیاروں کو بر آمد کر کے واپس امریکہ کے حوالے کیا جائے کیو نکہ یہ ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا ہے اور اس میں دلچسپ ترین امر یہ ہے کہ اس معاملہ کے حوالے سے پاکستان کا بھی یہی مؤقف ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک فوجی ورکشاپ کا حصہ تھا تو مجھے اس ورکشاپ میں شریک ایک فوجی نے بتایا کہ دہشت گردوں کے پاس اتنا جدید اسلحہ موجود ہے جو پاکستان کے کسی ادارے کے پاس موجود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر نائٹ ویژن آلات سے لے کر ایم فور رائفل تک کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ابھی جو ایک امریکی خاتون کی سربراہی میں پاکستان میں وفد آیا ہوا تھا۔ خبر ہے کہ پاکستان نے اسکے سامنے اپنا وہی مؤقف ہتھیاروں کے حوالے سے رکھا ہے جو خود صدر ٹرمپ کا بھی ہے۔ پھر صدر ٹرمپ کی آمد پر چاہے کہیں بھی خوشیاں منائی جائیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ لمحہ موجود تک یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی حکومت قائم ہے ابھی کچھ عرصہ قبل بھی امریکہ میں جو واقعہ پیش آیا تھا اس میں بھی افغانی ملوث تھے اور اس نوعیت کے واقعات رائے کو پختہ کرنے میں بہت کلیدی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
ٹرمپ کےاس مؤقف کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ ہمیں اگر معاملات کو بہتر کرنا ہے تو اسی نوعیت کے مشترکات کو تلاش کرنا بلکہ بہت بار تو تخلیق کرنا ہو گا۔ جذباتی گفتگو اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سال بھی تنہا امریکہ کو ہی پاکستان کی ایکسپورٹس 12ارب ڈالر تھیں جبکہ امریکی اتحادی ممالک کو ایکسپورٹس 10ارب ڈالر تھیں۔ یہ کل ملا کر 22 ارب ڈالر کی کثیر رقم بنتی ہے۔ پھر ہم معاشی بحالی کیلئے آئی ٹی سیکٹر کو کلیدی اہمیت دے رہے ہیں تو ان پراڈکٹس کی سب سے بڑی منڈی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ہی ہیں۔ صرف اس حقیقت کو بھی سامنے رکھا جائے تو امریکہ میں چاہے کسی کی بھی حکومت ہو ہمیں اس سے بہتر تعلقات قائم رکھنا چاہئیں۔ حالانکہ اب پاکستان کی عسکری ضروریات ان ممالک کی جانب سے پوری نہیں کی جاتی ہیں اور پاکستان بجا طور پر اس شعبے میں چین اور روس سے راہ و رسم بڑھا رہا ہے اور چین سے تو متعدد دفاعی شعبوں میں بھی بھر پور تعاون ہو رہا ہے۔ امریکہ کی اس خطے میں اور پاکستان کے حوالے سے کیا ترجیحات ہونگی اس کو سمجھنے کیلئے اس وقت تک کا انتظار کرنا ہو گا جب تک کہ نئے امریکی سفیر اسلام آباد میں متعین نہیں کر دیے جائیں ۔ امریکی سفیر تبدیل ہو چکے ہیں اور اگر اس بار کسی کیریئر ڈپلومیٹ کو سفیر بنا کر بھیجا گیا تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ امریکہ فی الحال اس خطے اور پاکستان کے حوالے سے کوئی بڑے عزائم نہیں رکھتا ہےتاہم اگر امریکہ نے کسی ایسے شخص کو سفیر نامزد کیا یا کوئی خصوصی نمائندہ اس خطے کیلئے نامزد کردیا جو کیریئر ڈپلومیٹ نہ ہوا اور اس کا اس خطے اور پاکستان امریکہ تعلقات کے حوالے سے کوئی خاص نقطہ نظر ہوا تو اس کی سوچ کے اثرات لا محالہ ضرور مرتب ہونگے اور پاکستان میں پالیسی سازوں کو اس پر بہت گہری نظر رکھنا ہو گی۔ کیونکہ پاکستان سے تعلقات میں چین بھی آتا ہے اور پاکستان انڈیا کشمکش سے صرف نظر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ٹرمپ کے حوالے سے یہ کہنا کہ وہ انڈیا کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں در حقیقت یہ تسلیم کر لینا ہے کہ ہم میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ ہم امریکی پالیسی سازوں کو اپنی بات سمجھا سکیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان یہ صلاحیت آج بھی رکھتا ہے کہ وہ امریکی پالیسی کو یک طرفہ ہونے سے روک دے۔بشکریہ جنگ۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button