اسلام آباد مر رہا ہے!
(روف کلاسرا)
میری اکثر ایک بیورو کریٹ دوست سے تلخی کی حد تک بحث ہو جاتی ہے کہ اس ملک کے حالات اس نہج تک لانے میں بیورو کریسی کا بڑا ہاتھ ہے۔ وہ اس بات سے انکاری ہو جاتے ہیں اور اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔ صاف ظاہر ہے‘ کوئی بھی اپنے شعبے پر تنقید برداشت نہیں کرتا اور ہر انسان کے پاس اپنی اپنی وجوہات ہوتی ہیں۔ اس دوست کے پاس بھی اپنے دلائل ہیں۔ وہ اُلٹا میرے شعبۂ صحافت پر سوالات اٹھا دیتے ہیں کہ آپ لوگ کون سا کام سیدھا ہونے دیتے ہیں۔ میں اور میرا دوست اکثر راولپنڈی میں رات گئے کسی نہ کسی ڈھابے پر چائے پینے جاتے ہیں مگر ہر طرف پھیلی گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر دیکھ کر میرا دل کڑھنے لگتا ہے کہ یہاں سے کوئی افسرنہیں گزرتا کہ اسے احساس ہو کہ اس کی تھوڑی سی توجہ سے یہ شہر کتنا خوبصورت ہو سکتا ہے۔ یہ بیورو کریٹس آخر اتنے بے حس کیوں ہیں۔ کیا انہیں صرف بلدیہ‘ جس کے وہ ایڈمنسٹریٹر لگے ہیں‘ کی مراعات‘ کئی کئی گاڑیاں اور گھر پر کام کرنے والے ملازم ہی اچھے لگتے ہیں اور جس کام کے لیے وہ تعینات کیے گئے ہیں کہ شہر کو صاف ستھرا رکھیں‘ وہ انہیں برا لگتا ہے؟
میرا دوست کہتا ہے کہ اگر وہ کل کو تجاوزات ہٹانا شروع کر دے تو سب سے پہلے آپ میڈیا کے لوگ کیمرے لے کر پہنچ جائیں گے۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں شور مچ جائے گا کہ غریب کی روزی روٹی چھین لی۔ یوں بیورو کریسی کو ایک خوفناک عفریت بنا کر پیش کیا جائے گا جس کا کام غریبوں کے چھابے اُلٹانا اور ان کا روزگار چھیننا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ شہروں کی بدصورتی کا بڑا تعلق ان تجاوزات سے ہے جن پر کوئی بھی ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کرتا۔ جو جرأت کرے گا وہ اگلے دن ٹرانسفر ہو جائے گا کیونکہ تاجروں کی تنظیمیں جلوس نکالتی ہیں‘ وہی میڈیا جو ایک روز پہلے تجاوزات کے خلاف پروگرام کررہا ہوتا ہے‘ وہ ان تاجروں کیساتھ کھڑا ہو کر بلدیہ اور دیگر اداروں کے افسران اور اہلکاروں کو وِلن بنا کر پیش کرنے لگتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر شہروں کو صاف ستھرا رکھنا ہے تو اس کیلئے Political will درکار ہو گی۔ اس ایشو کی ایک سیاسی قیمت ہو گی جو آپ کا سیاستدان اپنے ووٹوں کی خاطر ادا کرنے کو تیار نہیں اور یوں شہر گندے ہی رہیں گے‘ شہروں میں کچی آبادیاں بڑھتی رہیں گی اور جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
ان کی جانب سے سیاستدانوں اور میڈیا کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے باوجود میں ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملا پاتا۔ میں اکثر انہیں کہتا ہوں کہ اگر میں کسی ضلع میں ہوتا تو میں کچھ بھی نہ کرتا‘ صرف دو کاموں پر توجہ دیتا تو پورا ضلع بدلا جا سکتا۔ اس طرح پورا ملک بدلا جا سکتا ہے۔ وہ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ وہ دو کون سے ایسے کام ہیں؟ میرا جواب ہوتا ہے کہ ایک تو شہر بھر کی صبح سویرے صفائی اور دوسرے وہاں ٹریفک کا منظم نظام۔ اگر لوگ صبح سویرے اٹھیں اور انہیں اپنے اردگرد صفائی نظر آئے تو یقین کریں ان کا سارا دن اچھا گزرے گا۔ میں شہر کو سبزے سے بھر دیتا‘ درخت اور پھول ہی پھول۔ اس کا انسانی مزاج پر اچھا تاثر پڑتا ہے۔ شہر بھی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں اور اگر ان کی صفائی کا خیال رکھا جائے تو وہ دیکھنے میں بھی خوبصورت لگتے ہیں۔ یہی حال ٹریفک کا ہے۔ جب آپ ہر طرف ہڑبونگ دیکھتے ہیں‘ کوئی بھی اشارے پر رکنے کو تیار نہیں ہوتا‘ ایک دوسرے کو کٹ مار رہے ہوتے ہیں اور بقول ہمارے ملتانی دوست ناصر شیخ‘ 80فیصد ٹریفک حادثات موٹر سائیکل سواروں کی وجہ سے ہو رہے ہیں تو پھر اس شہر کی کیا حالت ہو گی؟ آپ گھر سے نکلیں تو ہر طرف گندگی آپ کا استقبال کرے اور سڑکوں پر آپ گاڑی نہ چلا سکیں تو پھر سارا دن آپ کا مزاج کیسا رہے گا؟ کام کا معیار کیا ہو گا اور سڑکوں پر لڑائیاں‘ پھڈے اور حادثے کیوں نہیں ہوں گے؟ انسانی مزاج کا صفائی اور سڑکوں پر ڈسپلن سے بڑا گہرا تعلق ہے۔لیکن کیا کریں‘ بھارت ہو یا پاکستان‘ یہاں ہمیں گند اور گندگی میں رہنے کی اتنی عادت ہو چکی ہے کہ صاف ستھرا ماحول ہمیں صرف بیرونِ ملک ہی اچھا لگتا ہے‘ اپنے ملک میں نہیں۔ ہم ایک صاف ستھرا معاشرہ دیکھنے کے لیے بیرونِ ملک کا سفر کرتے ہیں اور رشک کرتے ہیں۔ یہ سب سیاسی حکمران‘ بیورو کریٹس اور عوام بیرونِ ملک جاتے ہیں تو وہاں کی صاف ستھری گلیاں اور سڑکیں انہیں اچھی لگتی ہیں لیکن یہ کام وہ اپنے ملک میں کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
میری ایکس (ٹویٹر) پر کسی سے بحث ہو رہی تھی کہ باقی ملک کو چھوڑیں‘ آپ صرف اسلام آباد کو ہی دیکھ لیں جو کبھی بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا۔ یہاں اب مارکیٹوں میں ہر طرف گندگی کا راج ہے‘ ہر طرف اندھا دھند پارکنگ‘ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کا سنگین دباؤ‘ شدید بدنظمی اور اوپر سے بائیک رائیڈرز‘ ڈِلیوری بوائز اور دیگر بائیکرز کی طرف سے ریڈ سگنل توڑنے کے مقابلے‘ جس سے یہ شہر اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ خصوصاً رات کو شہر کی مارکیٹوں میں چلے جائیں اور وہاں ہر طرف پھیلی گندگی دیکھیں‘ آپ کو لگے گا کہ آپ کسی ڈمپنگ گراؤنڈ میں پھر رہے ہیں۔ کسی کو اس شہر کی پروا نہیں کیونکہ اس شہر پر راج کرنے کے لیے سیاسی حکمران‘ سینیٹرز‘ ایم این ایز اور بیورو کریٹس دوسرے شہروں سے آتے ہیں‘ جنہیں اس شہر سے کوئی غرض‘ دلچسپی‘ محبت یا اُنسیت نہیں ہے۔ نہ وہ اس شہر میں پیدا ہوئے‘ نہ یہاں پلے بڑھے کہ یہ شہر ان کی یادوں میں بسا ہو یا ناسٹلجیا میں ہو‘ جسے انہوں نے محفوظ رکھنا ہے۔ مار دھاڑ ہی اکثر حکمرانوں کا مشن ہوتا ہے۔ ایک مقابلہ جاری ہے کہ وہ سب اس شہر سے کتنا نچوڑ سکتے ہیں۔ اکثر سیاسی حکمران‘ بیورو کریٹس دوسرے شہروں سے آتے ہیں اور چند دن اس پر حکمرانی کی اور پھر نئی پوسٹنگ اور نئے مشن پر نکل گئے۔ یقین نہیں آتا تو اسلام آباد کی مارکیٹوں اور مرکز پر جا کر دیکھ لیں کہ وہاں کیا گندگی اور تباہی مچی ہوئی ہے۔ سیکٹرز کو ہی دیکھ لیں۔ ہر طرف گند ہی گند ہے اور گاڑیوں کی پارکنگ کے مسائل الگ۔
سی ڈی اے نے ایک ہی پلازے یا ایک ہی جگہ پر کئی کئی کیفے اور ریسٹورنٹس کھولنے کی اجازت دے کر سب مراکز میں اب گاڑی چھوڑیں‘ انہیں پیدل چلنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ سڑکوں پر ڈبل ٹرپل پارکنگ ہو رہی ہے۔ سب فٹ پاتھ گاڑیوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اور تو اور اب اسلام آباد کے درخت اور جنگل تک بے رحمی سے کٹ رہے ہیں۔ جتنی تیزی سے اس شہر کا حسن تباہ ہو رہا ہے‘ سبزہ اور درخت ختم ہو رہے ہیں‘ شہر میں گندگی اور بدنظمی پھیل رہی ہے‘ بہت جلد یہ شہر بھی کنکریٹ اور سیمنٹ سریے کے جنگل میں تبدیل ہو جائے گا۔
کیا وزیراعظم شہباز شریف نے کبھی زحمت کی کہ وہ اسلام آباد کی مارکیٹوں میں دن یا رات کے وقت چلے جائیں اور دیکھیں کہ شہر کی کیا بدترین حالت ہو چکی ہے یا وہ اپنے شیش محل میں خوش ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہونے کی وجہ سے انہیں بلندی سے سب اچھا نظر آتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے راتوں کو شہر کی گلیوں میں گشت کرنے اور خاموشی سے اپنی رعایا کے حالات جاننے کی باتیں ہمیں سب حاکم سناتے ہیں لیکن کوئی بھی ان کی طرح رات کو گلیوں میں نہیں نکلتا کہ دیکھے اسلام آباد کیسے لاوارث ہو کر اپنی موت آپ مر رہا ہے اور اس کے باسی کس گھٹن کا شکار ہیں کہ اب دن کے وقت شہر میں نکلنا ایک بہت بڑی زحمت بن چکا ہے۔ شہر اچانک نہیں‘ دھیرے دھیرے مرتے ہیں اور اسلام آباد مر رہا ہے۔ یہ طے ہے کہ ہمارے سیاسی اور بیورو کریٹ حکمرانوں نے باقی ملک کے بڑے شہر برباد کرنے کے بعد اب اسلام آباد کا رخ کر لیا ہے۔
دیکھتے ہیں اپنی خوبصورتی کے دشمنوں کے خلاف یہ لاوارث شہر اپنی مزاحمت کب تک جاری رکھ سکے گا‘ یا بہت جلد ہتھیار ڈال دے گا۔