کیا اردو کا کوئی رسم الخط نہیں؟
(خورشید ندیم)
محمد حسین آزاد نے میر تقی میر کے حوالے سے ایک قصہ روایت کیا ہے۔ خبرِ واحد ہے‘ اس لیے صحت کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ یہ بھاری پتھر وہی اٹھائے جو روایات پر اندھے اعتبار کے نتائج سے واقف نہ ہو۔ اس خدشے کے باوصف‘ اگر میں یہ روایت بیان کر رہا ہوں تو اس کے دو اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے کوئی عقیدہ ثابت کرنا مطلوب نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس سے میرے مقدمے کی تائید ہوتی ہے اور اس مقصد کے لیے روایات سے مدد لی جا سکتی ہے۔
روایت کچھ یوں ہے کہ میر صاحب لکھنؤ کے لیے محوِ سفر تھے… لیکن یہاں توقف کیجیے! یہ قصہ بہتر ہے کہ آزاد ہی کے الفاظ میں بیان کروں کہ ان کی نثر بھی میرے اُس مقدمے کا اثبات کر رہی ہے جو میں نے آج کے کالم میں پیش کرنا ہے۔ آزاد لکھتے ہیں: ”میر تقی میر جب لکھنؤ چلے تو ساری گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہو گئے تو دلّی کو خدا حافظ کہا۔ تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی۔ یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے۔ کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی۔ میر صاحب چیں بجبیں ہو کر بولے کہ صاحبِ قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے‘ بے شک گاڑی میں بیٹھیے‘ مگر باتوں سے کیا تعلق! اس نے کہا: حضرت کیا مضائقہ ہے۔ راہ کا شغل ہے‘ باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر صاحب بگڑ کر بولے کہ خیر آپ کا شغل ہے‘ میری زبان خراب ہوتی ہے‘۔
میر صاحب کی تنک مزاجی معروف ہے۔ اس لیے ظنِ غالب ہے کہ یہ قصہ سچا ہے۔ یہ اپنے لہجے کے بارے میں اس شخص کی حساسیت تھی جسے ‘خدائے سخن‘ تسلیم کیا گیا۔ جب تک یہ حساسیت موجود رہی‘ اردو کے دامن میں میر کے بہتر نشتر تھے۔ دیوانِ غالب تھا۔ ‘نسخہ ہائے وفا‘ تو ہمارے عہد کا واقعہ ہے۔ محمد حسین آزاد کی نثر کا نمونہ آپ نے اسی کالم میں دیکھ لیا۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب کی ‘آبِ گم‘ کی اشاعت تو ابھی کل کی بات ہے۔ 1989ء میں اس کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا۔ میر کے دیوان اور نسخہ ہائے وفا کے درمیان ڈیڑھ سو سال کا فاصلہ ہے۔ کچھ اتنی ہی دوری آبِ حیات‘ اور ‘آبِ گم‘ کے مابین بھی ہو گی۔ اردو نے یہ سفر جس شان سے طے کیا‘ اس کا اندازہ اس راہ کے سنگ ہائے میل سے کیا جا سکتا ہے جن میں اقبال بھی ہیں اور ابوالکلام بھی۔
اس زبان کے یہ شاہکار اس وقت وجود میں آئے جب اس کے سر پر کوئی سائبان نہ تھا۔ یہ سفر اس نے آبلہ پا ئی کے ساتھ خار زاروں میں طے کیا۔ وہ ایک ایسی قوم کی زبان سمجھی گئی جو غلام تھی۔ سید مودودی نے غالب کے بارے میں لکھا: ”میں ان کو ہند وپاکستان ہی کے نہیں‘ دنیا کے شعراء کی صفِ اوّل کا شاعر سمجھتا ہوں۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے اندر ایسا بے نظیر سخن ور پیدا ہوا‘ اور یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ ایک پسماندہ قوم کے بھی انتہائی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوا جس کی وجہ سے دنیا نے شعر وادب کی تاریخ میں آج تک اس کو وہ مقام بھی نہ دیا جو اس سے بہت فرو تر درجے کے شعراء کو صرف اس لیے مل گیا کہ وہ ایک جان دار قوم میں پیدا ہوئے تھے‘‘۔
پاکستان بنا تو اردو کو اپنا گھر مل گیا۔ اب یہ غلام قوم کی زبان نہیں تھی۔ اب اس کے سر پر سائبان تھا۔ گمان تھا کہ اب یہ سر اٹھا کر چلے گی۔ عالمی سطح پر غالب واقبال کی تحسین ہو گی۔ افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ اقبال کو تو کسی حد تک تسلیم کیا گیا مگر اردو کے حوالے سے نہیں‘ ان کے فکر وفلسفے کی وجہ سے۔ اردو پر یہ دردناک حادثہ بیت گیا کہ اسے اپنے ہی گھر میں اجنبی بنا دیا گیا۔ اسے ریاست نے اس قابل نہ سمجھا کہ اپنا وسیلۂ اظہار بنائے۔ اُس نے انگریزی کی چاکری کو اپنے لیے اعزاز جانا۔ آج بھی سرکاری خطوط اور احکام اردو میں نہیں لکھے جاتے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت حکم دے چکی لیکن ریاست کا ہر ادارہ دن میں کئی بار توہینِ عدالت کا ارتکاب کرتا ہے۔
یہ بات اگرچہ ظاہر وباہر ہے لیکن کل مجھے ایک عزیز دوست نے اس کے ایک پہلو کی طرف بطورِ خاص متوجہ کیا۔ یہ رسم الخط کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابلاغِ عامہ کے سرکاری ادارے کے ساتھ جب مراسلت ہوئی تو ان کے اردو پیغامات‘ رومن میں لکھے ہوئے تھے۔ انہیں جب اس جانب توجہ دلائی گئی کہ اردو کا پیغام اردو ہجوں اور رسم الخط کے ساتھ کیوں نہیں لکھا جاتا تو جواباً ان کا کہنا تھا: ہماری پالیسی یہی ہے۔ اس جواب میں کتنی معقولیت ہے‘ ہر معقول آدمی اسے جان سکتا ہے۔ اگر بات اردو میں ہو رہی ہے تو وہ اردو رسم الخط میں بیان ہونی چاہیے۔ اردو کی تاریخ‘ پس منظر‘ سب گواہ ہیں کہ اس کا فطری تعلق عربی اور فارسی کے ساتھ ہے جو سامی زبانیں ہیں۔ یہ انگریزی سمیت دیگر زبانوں کے انہی الفاظ کو قبول کرتی ہے جو اس کے مزاج سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس کے لیے یہی رسم الخط موزوں ہے۔ اس سے اردو کو محروم کرنے کا مطلب‘ تاریخ سے اس کا ناتا توڑنا ہے۔
یہی صورتِ حال ہم اشتہارات میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان میں بھی اردو کے جملے رومن میں لکھے جا رہے ہیں۔ اگر اردو کے ساتھ یہ بے اعتنائی اسی طرح جاری رہی تو اس کی اجنبیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ ہمارے تہذیبی احساسِ کمتری کا یہ عالم ہے کہ انگریزی سے بے خبری کو جہالت سمجھا گیا اور اردو سے لاعلمی کو باعثِ اعزاز۔ اس پس منظر میں اگر اردو کے جملے بھی اردو رسم الخط کے ساتھ نہیں لکھے جائیں گے تو یہ اردو زبان ہی کو متروک بنا دیں گے۔
اس باب میں قانون سازی اب لازم ہو گئی ہے کہ ا ردو میں کہی جانے والی بات اردو رسم الخط ہی میں لکھی جائے۔ تعلیمی اداروں میں اس کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ اس کے ساتھ ذرائع ابلاغ پر بھی اس کے لیے مہم اٹھانی چاہیے کہ عوام اس معاملے میں متنبہ رہیں اور اردو کے حسن وجمال کی حفاظت ہو۔ رسم الخط سے محرومی معمولی بات نہیں۔ اس کا تجربہ ترکوں کو ہو چکا۔ ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ایک محرومی تو خطاطی کے فن کی ہے جو ہمارے تہذیبی امتیازات میں سے ہے۔ اقبال وغالب سے محرومی بھی معمولی حادثہ نہیں۔
زبان تہذیب کا دروازہ ہے۔ اگر ہم اپنی تہذیب کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اردو کے بارے میں حساس ہونا ہو گا۔ یہ حساسیت میر صاحب کے درجے کی ہو تو کیا کہنے کہ ہم اپنے لہجے تک کی حفاظت کریں۔ اگر ہمیں اس کی توفیق نہیں تو کم از کم ہم قومی سطح پر تو اس کو اختیار کریں۔ تمام سرکاری خط وکتابت اسی زبان اور رسم الخط میں ہو۔ ابتدائی تعلیم میں اس کو لازماً شامل کیا جائے۔ مسلمانوں کو تو بہرحال اردو کے ہجوں کو سیکھنا ہوگا اگر وہ قرآن مجید کے ساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔ عربی کے سب ہجے اردو میں موجود ہیں۔ قرآن مجید سے تعلق کے بغیر اسلام سے تعلق ممکن ہی نہیں۔
آج ہم نے طے کرنا ہے کہ اردو کس کی زبان ہے؟ غلاموں کی یا ایک آزاد قوم کی؟