کالم

گیدڑ یا لگڑبگڑے؟

(عبداللہ طارق سہیل)

ایک معاشرتی روایت یا سماجی پرم پرا کچھ یوں ہے کہ خاندان کا کوئی بزرگ بیمار ہو اور اس دوران، خدانخواستہ کوئی چھوٹا بڑا سانحہ ہو جائے تو بیمار بزرگ کو اس کی خبر نہیں دی جاتی تاکہ اسے صدمے سے محفوظ رکھا جا سکے لیکن لگتا ہے کہ ایک بڑے خاندان کے ’’بیمار بزرگ‘‘ کے باب میں جو بدقسمتی سے ان دنوں قید بھی ہیں، اس روایت کا خیال نہیں رکھا گیا۔ بیمار بزرگ مذکورہ کا نام نہیں بتائوں گا، فرضی نام ’’بزرگان خاں‘‘ سمجھ لیں۔ ان کے لواحقین نے اندر جا کر، ملاقات کے موقع پر، اس عظیم المیے کی خبر انہیں دے دی کہ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں کمی کے بجائے اْلٹا اضافہ ہو گیا ہے۔ 
اطلاع ہے کہ عوارض نفسیاتی بلکہ روحونیاتی میں عرصہ سے مبتلا ’’بزرگوں‘‘ کے جذبات کو اس جانکاہ خبر سے شدید ’’مجروحیت‘‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے اعصاب پر لرزہ، احساسات پر رعشہ طاری ہوا۔ پھر بزرگوں نے یہ دیکھا کہ ان کے ملاقاتیوں پر رقت طاری ہو گئی ہے تو انہیں حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا کہ گھبرائو مت، ہاتھ کی انگلی اْوپر اْٹھائی اور کہا، اْوپر ٹرمپ ہے ناں، ٹرمپ سب دیکھ رہا ہے، ٹرمپ پر بھروسہ رکھو، ٹرمپ ہمارے ساتھ تو خوف کیسا، ٹرمپ سب ٹھیک کر دے گا، 
بزرگوں کے تسلّی دینے پر ملاقاتیوں کے حوصلے بلند ہوئے اور بیک آواز نعرہ زن ہوئے کہ ٹرمپ سب سے بڑا ہے، ہم ٹرمپ پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں، ٹرمپ سب سے اچھا مددگار، سب سے اچھا وکیل ہے۔ 
بزرگوں نے پھر ملاقاتیوں سے پوچھا، وہ مجھے ’’ہائوس اریسٹ‘‘ کرنے کی درخواست کا کیا بنا، حکومت مانی کہ نہیں۔ ملاقاتیوں نے بتایا کہ فسطائی حکومت نے آپ کو ہائوس اریسٹ کرنے کی درخواست ایک بار پھر مسترد کر دی ہے۔ بزرگوں کے چہرے پر چھائی ہوئی مایوسی کی جھلّی اور گھنی ہو گئی ، ماتھے کی سلوٹیں ضرب کھا گئیں۔ کچھ لمحے مراقبے کی صورت گزرے پھر فرمایا، باہر جا کر پریس والوں سے کہہ دینا، بزرگوں کو ایک بار پھر باعزّت ہائوس اریسٹ کی پیشکش ہوئی ہے لیکن بزرگوں نے بڑی حقارت سے فسطائی حکومت کی پیشکش ایک بار پھر مسترد کر دی ہے اور فرمایا ہے کہ ساڑھے پانچ ہزار سال جیل میں رہ لوں گا لیکن فسطائی حکومت کے آگے نہیں جھکوں گا۔ 
____
یہ گزرے نومبر کے شروع کی بات ہے جب ’’بزرگِ بیمار‘‘ نے اپنے اوورسیز کلٹ کو حکم دیا تھا کہ ترسیلات زر بند کر دو، بند نہیں کرتے تو کم کر دو۔ وسط نومبر میں یہ ہدایت دہرائی گئی اور 26 نومبر کی رات (جب ڈی چوک میں ’’ہزاروں‘‘ افراد کا قتل عام ہوا) یہ ہدایت تہرائی گئی یعنی تیسری بار دی گئی۔ اس کے بعد کلٹ کے سوشل میڈیا نے فرط مسرّت سے بے قابو ہو کر یہ اطلاع دی کہ اب دیکھنا، مزہ تو اب آئے گا، ترسیلات بند ہوں گی، پاکستان کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ 
نتیجہ جنوری کے شروع میں آنا تھا سو آ گیا۔ سٹیٹ بنک نے بتایا کہ اس دسمبر میں، گزشتہ دسمبر کے مقابلے میں، ترسیلات زر میں ساڑھے 29 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ 
کمر تو ٹوٹی، لیکن پاکستان کی نہیں، کسی اور کی، شاید بزرگوں کی۔ 
____
صرف یہی نہیں، بزرگوں کی کمر پر کچھ اور وار بھی ہوئے۔ مثلاً _ ملک دیوالیہ ہونے کے بجائے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں دس سال بعد یہ تبدیلی آئی کہ معاملہ -730 ملین ڈالر سرپلس ہو گیا، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر -16 ارب ڈالر ہو گئے۔ روشن اکائونٹس میں سرمایہ کاری، گزشتہ سال کے -7 ارب ڈالر سے بڑھ کر -9 ارب ڈالر ہو گئی۔ 
اور اب تازہ ترین یہ ’’دردناک خبر‘‘ آگئی کہ عالمی بنک پاکستان کو -20 ارب ڈالر دینے پر تیار ہو گیا ہے۔ 
____
بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کا بت کیا مسمار ہوا، ملک کا اسلامی اور ملّی رنگ اچانک سے نکھر گیا۔ 52 سال سے جمی گرد صاف ہو گئی۔ مجیب کا بت ہی نہیں، کالی مائی یعنی حسینہ واجد کی مورتی بھی چور چور ہو گئی۔ 
مودی سرکار اور بھارت کی روایتی اسٹیبلشمنٹ کو کئی دن تک اس کا کایا پلٹ کا یقین ہی نہیں آیا۔ ابھی اس صدمے سے سنبھلنے کی نوبت نہیں آئی تھی کہ صدمات مسلسل کی ایک اور لہر آئی۔ بنگلہ دیش نے پاکستان سے رابطے بڑھا دئیے۔ پہلے فوجی تعاون کی بات ہوئی، پھر پاکستانیوں کیلئے ویزا آسان بنا دیا، اس کے بعد تجارتی وفد پاکستان آیا اور تجارت بڑھانے کے فیصلے ہوئے۔ اب فوجی وفد آیا جس نے حافظ عاصم منیر، آرمی چیف سے ملاقات کی۔ راز و نیاز کی باتیں ہوئیں، عہد و پیمان جوڑے گئے۔ 
زمانے کے اتفاقات کبھی کمالات میں بدل جاتے ہیں۔ جو ہوا، کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اِدھر واہگہ پار سوگ کی مرگ چھالا بچھی ہے تو اْدھر اڈیالہ پار بھی سسکیوں کی سی آواز گونجتی ہے۔ 
پاکستان سے چاول بنگلہ دیش جائے گا، بنگلہ دیش سے چائے یہاں آئے گی۔ وہی چائے جو میری نسل کے لوگوں نے اپنے بچپن میں ہی، تب وہ مشرقی پاکستان کی چائے ہوا کرتی تھی۔ اس کے بدلے میں ہمیں کینیا اور سری لنکا کی چائے پینا پڑی جو چائے تو ہے لیکن چائے سے ذرا کم ہے۔
یہ مشرقی افق کی بات تھی، مغرب میں ملّا ہیبت رام نے مودی کی آشیرباد سے جو بازار جفا گرم کرنے کی سازباز کی، اسے حافظ صاحب نے تاجکستان سے دوستی کر کے غتربود کر دیا۔ تاجکستان اور شمالی اتحاد ملّا ہیبت رام کیلئے ڈرائونا خواب ہیں۔ ہیبت رام باز نہ آیا تو یہ ڈرائونا خواب ملّا جی کو جاگتی آنکھوں سے دیکھنا پڑے گا۔ 
رہی ہماری حکومت تو وہ ان سب معاملات سے بے تعلق، دہی سے روٹی کھانے میں جتی ہے۔ اس سے تو اتنا بھی نہ ہوا کہ 55 سال کے بعد آزاد ہونے والے شام سے ہی سفارتی رابطہ کر لیتی۔ شاید حکومت کا خیال ہے کہ بشارالاسد پھر سے نہ آ جائے۔ 
شام میں بشار واپس ہو گا نہ بنگلہ دیش میں کالی مائی پھر سے لوٹے گی۔ کاش کوئی یہ بات حکومت کو بتا سکے۔ 
____
پی ٹی آئی کے معتوب رہنما شیرافضل مروت نے کہا ہے مجھے گیدڑ کی آواز نکال کر احتجاج کرنا بالکل پسند نہیں لیکن قیادت کا حکم ہوا تو یہ بھی کر گزروں گا۔ 
ان کااشارہ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے تازہ احتجاج کی طرف تھا۔ اس احتجاج کی شکل یہ تھی کہ تمام پی ٹی آئی ارکان مسلسل اپنے منہ سے او، او، ھْو، ھو، دْو ووْ کی آوازیں نکال رہے تھے۔ انہوں نے اتنی دیر تک او او کیا کہ ان کے ہونٹ بعدازاں بھی انگریزی حرف او (o) کی شکل بنے رہے۔ بڑی مشکل سے، ہاتھوں کی مدد سے انہیں اصل شکل میں بحال کیا گیا۔ 
شیر مروت نے اسے گیدڑوں کا احتجاج قرار دیا لیکن یہ معاملہ تحقیق طلب ہے۔ ماہرین حیوانیات، سے معلوم کرنا ہو گا کہ یہ اْو اْو کی آوازیں گیدڑوں کی تھیں یا لکڑ بکڑوں کی جن کو پنجابی میں لگڑ بگڑیو اور انگریزی میں ’’ھائے۔ ناں‘‘ کہا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button