ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی
(لیفٹیننٹ کرنل شاہد حسین (ریٹائرڈ)
گل بہادر کو سکیورٹی فورسز نے خودکش حملہ آور ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا تھا۔ اسے ایک انٹرویو کے لیے پیش کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ خودکش بمبار بننے کی طرف کیوں راغب ہوا۔
انٹرویو کے دوران، اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اس کا پورا جسم نامعلوم خوف سے کانپ رہا تھا۔ جب اس کی آنکھوں کی پٹی ہٹائی گئی تو انکشاف ہوا کہ وہ ایک نیلی آنکھوں والا صحت مند اور صاف رنگت کاپٹھان تھا۔
یہ منظر گل بہادر کی اندرونی کشمکش اور خوف کو ظاہر کر رہا تھا، جو اسے اس خطرناک راستے پر لے آیا تھا۔
گل بہادر کا تعلق ایک انتہائی غریب گھرانے سے تھا۔ اس کے والد موچی تھے اور ان کے پاس معاش کا کوئی مستحکم ذریعہ نہیں تھا۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور بچپن میں اس کا کوئی دوست نہیں تھا۔ وہ ایک ایسے گائوں میں پلا بڑھا جہاں نہ بجلی تھی، نہ کھیل کے میدان، نہ سکول اور جدید دنیا تک رسائی بہت کم تھی۔
گرفتاری کے وقت گل بہادر نے ایک گندی شلوار قمیض پہن رکھی تھی، اس کے بال بے ترتیب تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بہت عرصے سے نہ ان میں تیل لگایا گیا تھا اور نہ ہی کنگھی کی گئی تھی۔ اس نے پرانی، ٹوٹی ہوئی چپل پہن رکھی تھی اور نظربندی کی وجہ سے وہ نہا بھی نہیں سکا تھا جس کی وجہ سے اس کے جسم سے ناگوار بدبو آ رہی تھی۔
گل بہادر کا بچپن اکیلے پن میں گزرا اور جب وہ بڑا ہوا تو اس کا واحد لگائو مذہب سے تھا۔ وہ مسجد کا باقاعدہ رکن تھا اور اس کے قریبی تعلقات مقامی علماء سے تھے۔ ان علماء نے اسے مذہبی تعلیمات کے نام پر پھنسایا اور جہاد کے نام پر خودکش حملے کے لیے تیار کیا۔ وہ گھبراہٹ اور اعتماد کی کمی کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی، لیکن جو بات اس نے کہی وہ خوفناک تھی: “میں مسلمان ہوں، لیکن مقامی مولویوں نے مجھے دھوکے سے پھنسا لیا اور خودکش بمبار بنا دیا۔ مجھے یقین دلایا گیا کہ اگر میں شہید ہو جائوں تو سیدھا جنت میں جائوں گا”۔
یہ انکشاف کرتے ہوئے گل بہادر کی آنکھوں میں ندامت اور آنسو تھے۔ اس نے کہا، “میں نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اب میں جنت میں نہیں جانا چاہتا۔ اگر میں آزاد ہو گیا تو گائوں واپس جا کر اپنی ماں اور باپ کی خدمت کروں گا۔”
گل بہادر ایک معصوم نوجوان تھا جسے مذہبی شدت پسندوں نے گمراہ کر کے جہاد کے نام پر استعمال کیا۔ اس کی شخصیت مثبت اور منفی جذبات کا ایک مرکب تھی اور زندگی اور مذہب کے بارے میں اس کی سوچ الجھن کا شکار تھی۔
یہ کہانی صرف گل بہادر کی نہیں، بلکہ ان تمام نوجوانوں کی ہے جو غربت، جہالت، اور مذہبی انتہا پسندی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسے راستے پر چل نکلتے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو جاتی ہے۔