مہمان کرکٹ ٹیموں کا حق ہم ادا ہی نہیں کر رہے!
(محمد اظہارالحق)
نوجوان غصے میں تھا۔ نوجوان مشتعل تھا۔ نوجوان بر افروختہ تھا۔ نوجوان دُکھی تھا۔
میں وفاقی دارالحکومت کے قدیم ترین اور سب سے بڑے بازار آب پارہ‘ میں پھر رہا تھا۔ جیسا کہ میں نے اپنے پڑھنے والوں کو بتایا تھا‘ میں کبھی کبھی اس بازار کا چکر لگاتا ہوں۔ یہاں اصل پاکستان دیکھنے کو ملتا ہے۔ واکنگ سٹک پکڑے‘ سر پر ٹوپی اوڑھے‘ کئی موسموں اور کئی برسوں سے گزری ہوئی جیکٹ پہنے‘ جب اس گنجان بازار کا چکر لگاتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اپنے ملک سے اور اپنے لوگوں سے بغل گیر ہو رہا ہوں۔ ادھیڑ عمر شخص‘ جو مشین سامنے رکھے چھریاں اور قینچیاں تیز کر رہا ہے۔ پھلوں کا رس بیچنے والا‘ جو گاہکوں کی بھیڑ سے نمٹ رہا ہے۔ ٹوکرے میں کچھ پھل رکھے بوڑھا‘ جو گزرتے گاہکوں کو دیکھے جا رہا ہے۔ قصاب جو بکرے لٹکائے‘ خریداروں سے بحث کر رہے ہیں۔ ریستوران سے باہر بیٹھا لڑکا جو آلو چھیلے جا رہا ہے۔ کباڑیا جو دکان میں پرانے لوہے کے مال واسباب میں گھرا‘ ردی تول رہا ہے۔ تنگ سی گلی کی چھوٹی چھوٹی ڈربہ نما دکانوں میں‘ قطار اندر قطار بیٹھے درزی جو سر جھکائے سلائی مشینیں چلائے جا رہے ہیں۔ فریموں کی دکان کے اندر‘ تصویروں کو شیشوں کے نیچے فِٹ کرتا نوجوان۔ اے ٹی ایم کے سامنے لائن میں لگے لوگ۔ کھولتے پانی والی کڑاہی میں دوپٹوں کو بھگوتا رنگ ساز۔ خشک میووں کی دکان میں کھڑا بَلتی۔ مخصوص قینچی نما اوزار سے گنڈیریاں کاٹتا ریڑھی بان۔ کونے میں جوتے گانٹھتا موچی‘ بوٹ پالش کرتا سرخ رخساروں والا خوبصورت پیارا سا معصوم بچہ۔ چاٹ کی دکان پر چاٹ اڑاتی لڑکیاں۔ سبزی خریدتے‘ کوٹ پتلون میں ملبوس دفتری بابو۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کے دم سے پاکستان آباد ہے۔ کوئلوں پر مرغیوں کے ٹکڑے رکھے ہیں۔ سڑک کنارے کرسیوں پر بیٹھے لوگ کھانا کھا رہے ہیں! سموسوں اور پکوڑوں کے سٹالوں پر خوب رش ہے۔ میں آگے بڑھا۔ گھر والوں کے لیے کچھ سموسے خریدے۔ ایک نوجوان جو سموسہ پلیٹ پکڑے کھڑا تھا‘ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے سلام کیا اور پوچھا ”آپ ہی ہیں نا تلخ نوائی لکھنے والے؟‘‘ نوجوان غصے میں تھا۔ کہنے لگا ”کیا آپ کو معلوم ہے اس شہر کے لوگ کس عذاب سے گزر رہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا ”کیا ہوا بیٹے؟ تم کیوں پریشان ہو؟‘‘ جواب میں اس نے اپنا کلیجہ باہر نکال کے رکھ دیا۔ کہنے لگا ”یہ جو کرکٹ ٹیمیں اس بدبخت شہر میں قیام پذیر ہیں‘ ان کی وجہ سے شہری ایک ایسا عذاب سہہ رہے ہیں جو کسی مہذب‘ ترقی یافتہ ملک میں ممکن نہیں۔ راستے بند ہیں۔ ٹریفک معطل ہے۔ عوام کے ساتھ بدترین مذاق کیا جا رہا ہے۔ کبھی ایک شاہراہ بند کی جاتی ہے‘ کبھی دوسری‘ کبھی تیسری! جنازے رک جاتے ہیں۔ دودھ پیتے بچے ہلکان ہو جاتے ہیں۔بوڑھے بے جان ہوتے ہیں۔ عورتیں گاڑیوں‘ بسوں‘ ویگنوں میں بیٹھی بیٹھی رو پڑتی ہیں۔ حاملہ عورتیں جان سے جا سکتی ہیں۔ مریض بلکتے اور سسکتے ہیں۔ جہاں جانے میں دس منٹ لگنے چاہئیں‘ وہاں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان غیر ملکی ٹیموں کو معروف ترین ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا ہے جو شہر کے وسط میں واقع ہے‘ اور پھر بار بار ٹریفک روک کر ساری دنیا کو اطلاع دی جاتی ہے کہ دیکھو! یہ ہے وہ جگہ جہاں ہمارے حساس مہمان قیام پذیر ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے ایک بے وقوف نے بینک کے لاکر سے زیورات نکالے۔ تھیلے میں ڈالے اور بینک سے باہر نکلا۔ بجائے اس کے کہ وہ نارمل انداز سے چلتا‘ اس نے پہلے تو تھیلے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سینے سے لگایا‘ پھر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اس کے پاس تھیلے میں کوئی قیمتی شے ہے‘ کرنسی یا سونا‘ جس کی وجہ سے وہ ڈر رہا ہے‘ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے۔ خوف زدہ ہے کہ کوئی چھین نہ لے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سڑک کے کنارے دو اوباش قسم کے نوجوان بیٹھے تھے۔ وہ اس کے پیچھے لگ گئے۔ جیسے ہی ایک سنسان جگہ آئی‘ انہوں نے اچانک اس پر حملہ کیا اور تھیلا لے کر فرار ہو گئے۔ سکیورٹی کا تقاضا تو یہ ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو کہ غیر ملکی ٹیمیں کہاں ٹھہری ہیں۔ غضب خدا کا! شاہراہوں پر ٹریفک روک کر ساری دنیا کو خبر دی جا رہی ہے کہ دیکھ لو اور جان لو کہ ہماری غیر ملکی ٹیمیں یہاں‘ اس ہوٹل میں قیام پذیر ہیں! یعنی کچھ کر لو نوجوانو!! اٹھتی جوانیاں ہیں! ہونا یہ چاہیے کہ ان کی قیام گاہ کو ٹاپ سیکرٹ رکھا جائے۔ ایجنسیوں کے پاس سیف ہاؤسز ہیں۔ وہاں انہیں کیوں نہیں ٹھہرایا جاتا؟ عسکری میس محفوظ ترین مقامات ہیں۔ جتنا زر کثیر حکومت ہوٹلوں کو دے رہی ہے اس سے کم خرچ پر یہ کام عساکر کے میسوں سے لیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں فضائیہ اور نیوی کے میس‘ فائیو سٹار ہوٹلوں سے کئی گنا بہتر اور محفوظ ہیں۔ یہاں ٹھہرانے سے پبلک پر بھی عذاب کا کوڑا نہیں برسے گا!‘‘۔
میں خاموشی اور صبر کے ساتھ نوجوان کی گفتگو سنتا رہا۔ اردگرد سے لوگ بھی اکٹھے ہو گئے تھے۔ ان میں سے اکثر اس کی تائید میں سر ہلا رہے تھے۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ نوجوان لوگوں کے جذبات سے کھیل رہا ہے جو غلط بات ہے۔ اسے خاموش کرایا اور سمجھایا کہ دو باتیں اہم ہیں‘ جو اسے ذہن میں رکھنی چاہئیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کرکٹ ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر بھارت کے مقابلے میں! بھارت ہم سے ہر شعبے میں آگے نکل گیا ہے۔ معیشت‘ زراعت‘ صنعت‘ سیاحت‘ آئی ٹی‘ خلا بازی‘ فارن ریزرو‘ ریلوے‘ زیر زمین ریلوے‘ ایئر لائنز‘ برآمدات‘ حتیٰ کہ جمہوریت میں بھی مگر پاکستان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے لیے یہ سب بے معنی ہے۔ ہم ان شعبوں میں ترقی کرنے کے بجائے آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک‘ ایشیائی بینک اور دیگر قرض دہندگان سے اپنی ضروریات آسانی کے ساتھ پوری کر سکتے ہیں۔ اگر مودی نے کہہ بھی دیا ہے کہ پاکستانیوں نے ہاتھ میں کٹورا ( کشکول) پکڑا ہوا ہے تو کیا ہوا! اصل مقابلہ کرکٹ میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دوسرے ملکوں سے آئی ہوئی کرکٹ ٹیمیں ہماری مہمان ہیں۔ انہیں ایسے ہوٹل میں ٹھہرانا ضروری ہے جو شہر کے بالکل درمیان میں ہو۔ اگر ان مہمانوں کے لیے راستے بند کیے جاتے ہیں اور مریض مر جاتے ہیں یا حاملہ عورتیں اذیت میں ہوتی ہیں یا بچے سسکتے‘ بلکتے اور روتے ہیں یا بوڑھے نیم جان ہو جاتے ہیں تو یہ کوئی ایسی بڑی قربانی نہیں! یہ سب مہمان نوازی کا تقاضا ہے۔ ان کرکٹ ٹیموں کے مقابلے میں ہمارے عوام کی حیثیت ہی کیا ہے! یہ تو کیڑے مکوڑے ہیں! سچی بات یہ ہے کہ ہم ان مہمانوں کا حق ادا ہی نہیں کر رہے۔ راستے بند کر دینا کوئی مہمان نوازی نہیں! ہمیں تو چاہیے کہ جتنے دن یہ غیر ملکی کرکٹ ٹیمیں ہمارے ہاں قیام فرما ہیں‘ پورے ملک کی ٹریفک‘ بازار‘ سکول کالج‘ یونیورسٹیاں‘ ہوائی اڈے‘ ریستوران‘ ریل‘ بسیں سب کچھ بند کر دینا چاہیے۔ دہشت گرد کسی بھی بس‘ کسی بھی ٹرین اور کسی بھی ہوائی جہاز میں سوار ہو کر آ سکتا ہے! اگر ریستوران کھلے ہوئے تو دہشت گرد کسی بھی ریستوران سے کھانا کھا سکتا ہے! خاص طور پر جس شہر میں یہ ٹیمیں مقیم ہوں‘ اس میں تو کرفیو نافذ کر دینا چاہیے! بجائے اس کے کہ ہم راستے بند کر کے عوام کو اذیت دے دے کر ماریں‘ گولی سے مارنا بہتر ہوگا کیونکہ اس میں تکلیف کم ہوتی ہے۔ جس ہوٹل میں یہ ٹیمیں قیام کر رہی ہوں‘ اس ہوٹل کے گرد توپیں نصب کرنی چاہئیں‘ چاروں طرف اسلحہ بردار گوریلے کھڑے ہوں جن کے ہاتھوں میں‘ دیگر اسلحہ کے علاوہ‘ ننگی تلواریں بھی ہوں! صرف راستہ بند کر دینے سے مہمان کرکٹ ٹیموں کا حق نہیں ادا کیا جا سکتا!