آئیے بھارت کو پیچھے چھوڑیں
(حامد میر)
سنیل کمار گپتا دہلی کی تہاڑ جیل کا سابق جیلر ہے۔ گپتا نے 2019ء میں ایک صحافی سنیترا چوہدری کے ساتھ مل کر ’’بلیک وارنٹ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب ان قیدیوں کے بارے میں ہے جنہیں گپتا کی نگرانی میں تہاڑ جیل میں قید رکھا گیا اور پھر اسی جیل میں انہیں پھانسی دی گئی۔ اس کتاب پر ایک ڈرامہ سیریل بنائی گئی ہے جو آج کل نیٹ فلیکس پر بڑی پاپولر ہے۔ گپتاکی کتاب ’’بلیک وارنٹ‘‘ کو اصل شہرت مقبول بٹ کی وجہ سے ملی تھی لیکن نیٹ فلیکس پر نشر ہونے والی سیریل میں مقبول بٹ کا ذِکر برائے نام ہے۔ وجہ یہی نظر آتی ہے کہ گپتا نے اپنی کتاب میں مقبول بٹ کے ایام اسیری اور پھانسی کے متعلق جو حقائق بیان کئے ہیں انہیں ٹی وی اسکرین پر اجاگر کرنا بھارتی حکومت کو ناگوار گزر سکتا ہے لہٰذا نیٹ فلیکس پر سنیل کمار گپتا کی کتاب سنسر کر دی گئی۔ کتاب میں مقبول بٹ اور افضل گرو کے بارے میں دو علیحدہ علیحدہ ابواب موجود ہیں۔ دونوں کو پھانسی کے بعد تہاڑ جیل میں دفن کیا گیا۔ نیٹ فلیکس پر مقبول بٹ کی پھانسی تو دکھائی گئی ہے لیکن دیگر تفصیلات غائب کردی گئی ہیں جبکہ افضل گرو کا تو ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ اگر آپ نےسنیل کمار گپتا کی کتاب پڑھ رکھی ہے تو آپ کو نیٹ فلیکس پر ’’بلیک وارنٹ‘‘کے نام سے دکھائی جانے والی سیریل ایک مذاق نظر آئے گی۔ اس مذاق کی وجہ کارپوریٹ میڈیا کی مجبوریاں ہیں۔ جو سچائی ایک جیلر نے اپنی کتاب میں بیان کی اس سچائی کو ڈرامے کی صورت میں ٹی وی اسکرین پر دکھانا مشکل ہے۔ یہ مشکل کہاں نظر آ رہی ہے؟ جی ہاں! یہ مشکل دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں نظر آ رہی ہے۔ یہ مسئلہ صرف بھارت میں نہیں ہے۔ مقبول بٹ کے جیل سے لکھے گئے خطوط پر مشتمل کتاب ’’شعور ِفردا‘‘ پر پاکستان میں 1998ء سے پابندی ہے۔ اس کتاب میں شامل کوئی ایک خط بھی ریاست پاکستان کے خلاف نہیں ہے ان خطوط میں پاکستان کے حکمرانوں پر تنقید ہے لیکن پاکستانی عوام کو کشمیریوں کا اصل حامی اور دوست قرار دیاگیا۔ اس کے باوجود اس کتاب پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کتاب میں شامل خطوط محمد سعید اسعد نے کئی سال کی کوششوں سے تلاش کئے۔ یہ خطوط پاکستانی جیلوں سے بھی لکھے گئے اور بھارتی جیل سے بھی لکھے گئے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو یہ خطوط اس لئے ناگوار گزرے کہ مقبول بٹ صاحب نے بطور صحافی اور پھر بطور ایک سیاسی کارکن ان حکمرانوں کی منافقت کو بہت قریب سے دیکھا۔ مقبول بٹ 1958ء میں بی اے کے طالب علم تھے۔ زمانہ طالب علمی میں بھارتی حکومت کے خلاف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے جسکے باعث پولیس ان کو ڈھونڈتی رہتی تھی۔ بی اے کا امتحان دے کر وہ آزاد کشمیر آ گئے اور کے ایچ خورشید کے ہمراہ آزاد کشمیر کی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ 1961ء میں انہوں نے آزاد کشمیر میں اسسٹنٹ کمشنر کا امتحان پاس کیا لیکن سرکاری نوکری کرنے کی بجائے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا اور بی ڈی ممبر بن گئے۔ بعد ازاں 1965ء میں انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ محاذ رائے شماری قائم کیا اور مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس تنظیم نے اپنے عسکری ونگ کو نیشنل لبریشن فرنٹ کا نام دیا اور جون 1966ء میں مقبول بٹ واپس مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ وہاں کچھ عرصے کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا ۔ 1968ء میں انہیں موت کی سزا سنا دی گئی لیکن مقبول بٹ سرینگر جیل توڑ کر فرار ہوگئے۔ وہ دسمبر کی سخت سردی میں برفانی پہاڑوں کا سینہ چاک کرکے واپس آزاد کشمیر پہنچے تو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ مظفر آباد میں انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کے ایچ خورشید اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے ناقدین میں شمار ہوتے تھے اور کے ایچ خورشید کے ساتھ مقبول بٹ کا تعلق بھی ان کا جرم بن گیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں سرینگر جیل توڑ کر آزاد کشمیر پہنچنے والے مقبول بٹ کو بھارتی ایجنٹ قرار دے کر تشدد کیا گیا تو کشمیریوں میں بے چینی پھیل گئی۔ اس زمانے کی اپوزیشن پہلے ہی جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک چلا رہی تھی۔ کشمیریوں نے بھی مقبول بٹ کے حق میں مظاہرے شروع کردیئے لہٰذا کچھ عرصے کے بعد بٹ صاحب کو رہا کرنا پڑگیا۔ پاکستانی حکام کی حراست میں ہونے والے تشدد کے باوجود مقبول بٹ نے پاکستانی ریاست کے خلاف کبھی کوئی ایک لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالا۔ رہائی کے بعد انہوںنے دوبارہ سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں لیکن انہیں احساس تھا کہ مسئلہ کشمیر سیاسی سرگرمیوں سے حل نہیں ہوگا۔ وہ مسلح مزاحمت کو اپنا اخلاقی و قانونی حق سمجھتے تھے۔ دنیا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے انہوں نے ایک بھارتی طیارہ ہائی جیک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ منصوبے پر عمل درآمدمیں خاصی تاخیر ہوگئی تاہم 30 جنوری 1971ء کو سرینگر سے جموں جانے والے ایک فوکر جہاز کو اغوا کرلیا گیا۔ دو کشمیری ہائی جیکر ہاشم قریشی اور اشرف قریشی ایک کھلونا پستول کی مدد سے جہاز اغوا کرکے لاہور لے آئے۔ مقبول بٹ کا اصل مقصد صرف مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا تھا۔ انہوں نے جہاز کے مسافروں کوکو ئی نقصان پہنچائے بغیر رہا کردیا اور جہاز کو نذر آتش کردیا۔ اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان نے اس کارروائی کو بھارتی سازش قرار دے کر مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ مقبول بٹ، ہاشم قریشی، اشرف قریشی، جی ایم لون، میر عبدالقیوم، میر عبدالمنان، عبدالخالق انصاری اور پیرزادہ غلام مصطفی علوی پر لاہور کے شاہی قلعے میں جو ظلم و ستم ہوا اس کی تفصیل یہاں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔یہ وہ تشدد تھا جس نے مقبول بٹ کے لب و لہجے میں پاکستان کے حکمرانوں کے بارے میں وہ تلخی پیدا کی جو ان کے کچھ خطوط میں نظر آتی ہے۔ کیمپ جیل لاہور سے 1973ء میں لکھے گئے ایک خط میں مقبول بٹ نے عذرا میر کے نام لکھا کہ پاکستان کا حکمران ٹولہ ہمیں دشمن کا جاسوس کہتا ہے حالانکہ یہ غدار حکمران ٹولہ جاسوسوں سے بھی بدتر ہے جس نے اپنے ہی عوام پر گولیاں برسائیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس یعقوب علی خان اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس عبدالقادر شیخ پر مشتمل خصوصی عدالت بنائی جس میں مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں پر مقدمہ چلا۔ اس عدالت نے اپنے فیصلے میں محاذ رائے شماری اور کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ کو کشمیر کی آزادی کیلئے سرگرم تنظیمیں قرار دیا اور لکھا کہ یہ تنظیمیں بھارتی انٹیلی جنس نے نہیں بنائیں اور نہ ہی انہیں کوئی بیرونی امداد ملی۔ پاکستانی عدلیہ نے مقبول بٹ کو سرخرو کردیا لیکن گیارہ فروری 1984ء کو تہاڑ جیل میں پھانسی پانیوالا مقبول بٹ آج بھی پاکستان میں زیر عتاب ہے۔ سرینگر جیل سے 1968ء میں ان کے فرار کی کہانی پر بھی پاکستان میں پابندی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف سے گزارش ہے کہ کم از کم پاکستان میں مقبول بٹ کی کتابوں پر تو پابندی ختم کریں اور بھارت کو پیچھے چھوڑ دیں۔ جہاں سنیل کمار گپتا کی کتاب’’ بلیک وارنٹ‘‘ کو نیٹ فلیکس نے ایک مذاق بنا دیا ہے۔