خطوط کا سلسلہ اور صدر نکسن کا مشورہ
(کنوردلشاد)
عمران خان کی جانب سے آرمی چیف اور چیف جسٹس کو خطوط ایک خاص حکمت عملی کے تحت لکھے گئے ہیں۔ خان صاحب ان خطوط کے ذریعے ریلیف حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں مگر اس حکمت عملی میں ناکامی کے بعد انہوں نے لائحہ عمل بدل لیا ہے۔ قومی اداروں سے کسی ریلیف کی توقع نہ پا کر اب خان صاحب عالمی رہنماؤں اور عالمی اداروں کی توجہ حاصل کر کے انہیں پاکستان کے امور میں مداخلت کی دعوت دینا چاہتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف میں اندرونی تقسیم خاصی بڑھ چکی ہے۔ وکلا اور سیاسی ورکروں میں اختلافات کے بعد گرینڈ اپوزیشن الائنس بنتا بھی نظر نہیں آ رہا۔ اسی لیے اب عمران خان اداروں کے حوالے سے تنقیدی خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کے نام پر ایک ایسی شخصیت خط لکھ رہی ہے جس کا تعلق ایک این جی او سے ہے۔ سکیورٹی کے نام پر اس این جی او کو کثیر فنڈز حاصل ہوتے رہے ہیں۔ کئی حلقے اس امر پر حیرانی کا اظہار بھی کر رہے کہ چیف جسٹس کے نام ساڑھے تین سو صفحات کا خط لکھنے کا کیا مقصد ہے‘ کیا اس طرح وہ ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا کرنا چاہتے ہیں؟سنا ہے کہ یہ خط لکھے لکھائے آتے ہیں اور عمران خان اس پر تصدیقی مہر لگاتے ہیں کہ یہ میرا خط ہے۔ دراصل وزن صرف ایک ہی خط کا ہوتا ہے‘ بار بار خطوط لکھنے سے ان کی اہمیت اور چاشنی ختم ہو جاتی ہے۔
اگر ہم ملکی تاریخ میں خط لکھنے کی روایت کا سراغ تلاش کریں تو سب سے معروف خط ایئر مارشل (ر) اصغر خان مرحوم کا ہے جو انہوں نے جون 1977ء میں عوامی تحریک کے نتیجے میں اُس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیا الحق کو لکھ کر انہیں سیاسی معاملات میں مداخلت کی دعوت دی تھی۔ جنرل ضیا الحق نے یہ خط راولپنڈی کے کور کمانڈر جنرل فیض علی چشتی کو بھجوا دیا اور اس کا معنی خیز نتیجہ 5 جولائی 1977ء کو نکلا۔ اقتدار میں آنے کے بعد جنرل ضیا الحق نے اصغر خان کو ایبٹ آباد میں ان کی رہائشگاہ پر نظربند کر دیا تھا۔ اس سے قبل جب مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن شروع ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو جنرل یحییٰ خان سے مایوس ہو گئے کہ وہ اقتدار ان کو دینے سے گریزاں تھے۔ اس پر مسٹر بھٹو نے شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کو خط لکھ کر ان سے مداخلت کی اپیل کی۔ شاہِ ایران مدبر سیاستدان تھے‘ انہوں نے بھٹو کی تجویز پر عمل کرنا مناسب نہ سمجھا۔پاکستان کے نامور صحافی پروفیسر مرغوب صدیقی کے امریکی صدر نکسن کیساتھ گہرے ذاتی تعلقات تھے۔ جب 1970ء کے اوائل میں صدر نکسن نے پاکستان کا دورہ کیا تو لاہور میں مرغوب صدیقی سے ان کی رہائش گاہ پر‘ جو مال روڈ پر گنگارام بلڈنگ کے چوتھے فلور پر تھی‘ دو گھنٹے طویل ملاقات کی تھی۔ صدر نکسن نے مرغوب صدیقی کو باور کرایا کہ مشرقی پاکستان کے حالات اور شیخ مجیب الرحمن کے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے خفیہ مذاکرات کی وجہ سے انتخابات کو دو سال تک کیلئے مؤخر کر دیا جائے‘ یہ حالات پاکستان میں عام انتخابات کیلئے سازگار نہیں ہیں۔ بعد ازاں پروفیسر مرغوب صدیقی نے صدر یحییٰ خان کو ایک طویل خط کے ذریعے صدر نکسن کے خدشات سے آگاہ کیا۔ مرغوب صدیقی نے یہ خط اُس وقت کے وزیر قانون اے کے بروہی کے ذریعے بھجوایا تھا۔ میرے زمانہ طالبعلمی ہی سے پروفیسر مرغوب صدیقی سے ذاتی تعلقات تھے‘ اور یہ واقعات خو داُن کے ذریعے میرے علم میں آئے۔ صدر نکسن نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا‘ اسی طرح کے خدشات عوامی جمہوریہ چین کے اُس وقت کے وزیراعظم چو این لائی نے بھی ظاہر کیے تھے لیکن یحییٰ خان اپنے چار کے ٹولے میں گھرے ہوئے تھے اور کسی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انہوں نے 7 دسمبر 1970ء کو الیکشن کرا دیے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
اب عمران خان نے جو خط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اس پر مخصوص حلقوں میں طوفان اٹھایا جا رہا اور گورننس پر سوالات کیے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی پارٹی پر عمران خان کی گرفت کمزور ہو چکی ہے۔ اب انہیں نظر آ رہا ہے کہ انہیں 2029ء تک انتظار کرنا پڑے گا جب ملک میں نئے انتخابات ہوں گے۔ اس وقت بظاہر حکومت پر کوئی دبائو نہیں۔ مقتدر حلقے پوری کوششوں سے پاکستان کو شاہراہ ٔترقی پر گامزن کر رہے ہیں اور 26 نومبر کے واقعات کے بعد کسی پارٹی میں اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے کی سٹریٹ پاور نہیں رہی۔ عوام کو بھی اب نچلی سطح پر ریلیف مل رہا ہے‘ تاہم اکثریت موروثی سیاسی پارٹیوں سے تنگ ہے اور کسی متبادل قیادت کو اُبھرتا دیکھنا چاہتی ہے۔ البتہ ملک کے مغربی علاقوں میں سکیورٹی کے حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں حالات صوبائی حکومت کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں اور خیبر پختونخوا کے مخصوص اضلاع میں بھی حالات مخدوش ہیں۔ دونوں صوبوں کے وزرائے اعلی حالات کو کنٹرول کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ سکیورٹی کے نام پر وفاق سے فنڈز حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ پنجاب میں حالات باقی صوبوں سے بہتر ہیں۔ مہنگائی پر بھی کنٹرول ہے لیکن اس کے باوجود اب تک پی ٹی آئی کا بیانیہ کمزور نہیں ہوا ۔ پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور عالمی تبدیلیوں سے متنبہ کر رہے ہیں۔ امریکی کانگرس کے ارکان خطے میں امن وامان چاہتے ہیں مگر صدر ٹرمپ کے عزائم سے مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سمیت پوری دنیا کا جغرافیائی نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کو شاید یہ ادراک ہو چکا ہے کہ امریکہ کی بیشتر ریاستیں اب فیڈریشن سے علیحدگی چاہتی ہیں اور امریکہ تقسیم کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اسی وجہ سے صدر ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ کو سلگائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر مشرق وسطیٰ کی امریکی پالیسی ناکام ہو جاتی ہے تو خود امریکہ کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور 1974ء کے اوائل میں ایک نجی محفل کے دوران سابق صدر ایوب خان نے مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے 1960ء میں اپنے دورۂ امریکہ کے دوران راز ونیاز کی محفل میں صدر کینیڈی کو بتا دیا تھا کہ وہ اپنے عسکری اور دوسری عالمی جنگ کے تجربات سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سوویت یونین 30 سال بعد بکھر جائے گا اور پھر امریکی سالمیت کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے۔ سوویت یونین سے متعلق ان کی پیشگوئی ٹھیک تیس سال بعد 1990ء میں پوری ہو گئی تھی۔
اگر مقامی حالات کی بات کریں تو عوامی رائے عامہ 8 فروری کے الیکشن نتائج کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بین الاقوامی اداروں نے بھی الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے۔ پاکستان ان حالات میں الگ تھلگ نظر آ رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں کے سربراہوں کے دورے سے پاکستان بین الاقوامی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ یورپی اور مغربی ممالک پاکستان سے الگ تھلگ ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں عمران خان کے خطوط کا مقصد بین الاقوامی برادری اور اداروں کو متوجہ کرنا ہے۔ لہٰذا مقتدر حلقے آگے بڑھیں اور قانونی ماہرین سے مشاورت کے بعد پاکستان کے حالات کا پائیدار حل تلاش کریں۔ یہ جو ایک دو سال تک الیکشن کی تجویز ہے‘ سراسر ناقابلِ عمل ہے۔ موجودہ حالات میں عام انتخابات فیڈریشن کیلئے موزوں نہیں۔ لہٰذا آئین کے مطابق درمیانی راستہ نکال کر عبوری انتظامات کے تحت نئی حکومت تشکیل دینی چاہیے اور احتسابی اداروں کو مکمل اختیارات دے کر کرپشن کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرنی چاہیے۔ پرانی سیاسی قیادت سے جان چھرا کر نئی قیادت اور نئی سیاسی سوچ کو آگے لانا ہو گا‘ اسی طریقے سے فیڈریشن مضبوط ہو سکتی ہے۔مصدقہ ذرائع کے مطابق ریاستی ادارے ملک میں نئے صوبے بنانے کے حوالے سے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ ملک میں نئے صوبوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ قومی اہمیت کے حامل اس موضوع پر آئندہ کالم میں تفصیلاً لکھا جائے گا۔(بشکریہ دنیا)