قذافی سٹیڈیم کی بروقت تکمیل،مزدوروں، ہنرمندوں کو سلام
(نسیم شاہد)
ستمبر 2024ء میں بیناگوئندی نے پلاک قذافی سٹیڈیم لاہور میں اپنی اور میری کتابوں کی مشترکہ تقریب رونمائی رکھی تو میں وقت سے پہلے وہاں پہنچا۔ دیکھا تو ہر طرف کھدوائی اور ملبے کے ڈھیر لگے ہیں۔ راستہ ہی نہیں مل رہا تھا۔ فیروزپور روڈ سے ایک راستے کا بتایا گیا تو وہاں سے گزر کر پلاک میں داخل ہو سکے۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا قذافی سٹیڈیم کی از سر نو تزئین و آرائش کا آغاز ہوا ہے اور نقش کہن مٹا کر اسٹیڈیم جدید انداز میں تعمیر کیا جا رہا ہے جو مناظر اس وقت نظر آئے ان سے تو یہی لگتا تھا اب کئی برسوں تک قذافی سٹیڈیم اسی طرح ملبے کا ڈھیر بنا رہے گا، کیونکہ پاکستان میں سرکاری ٹھیکیدار جب کام شروع کرتے ہیں تو ختم ان کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اس وقت یہ خیال بھی آیا قذافی سٹیڈیم ملک کا سب سے بہترین سٹیڈیم تھا پھر اس پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ زیادہ سے زیادہ کرسیوں پر بیٹھنے کی سیڑھیوں کو بہتر بنانا کافی تھا لیکن دو دن پہلے اس نو تعمیر و تزئین شدہ اسٹیڈیم کی افتتاحی تقریب دیکھ کر اندازہ ہوا اچھے سے اچھے ترکی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ کرکٹ کے شائقین کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ اگر قذافی سٹیڈیم وقت پر تیار نہ ہوا تو چیمپئن ٹرافی کی میزبانی چھن سکتی ہے کیونکہ چیمپئن ٹرافی کے سب سے زیادہ میچوں کا شیڈول قذافی سٹیڈیم کو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا۔ ادھر بھارت کا میڈیا پچھلے دو ماہ سے یہی پروپیگنڈہ کررہا تھا قذافی سٹیڈیم مکمل نہیں ہوگا، آئی سی سی کو چیمپئن ٹرافی کہیں اور منتقل کرنی چاہیے۔ دوسری طرف پاکستانی مزدوروں، ہنرمندوں، انجینئروں اور ماہرین تعمیرات کا جنون اپنے عروج پر تھا۔ اڑھائی ہزار مزدوروں نے دن رات ایک کرکے یہ معجزہ کر دکھایا۔ کریڈٹ صرف محسن نقوی کو نہیں جاتا بلکہ اس پراجیکٹ پر کام کرنے والا ایک ایک مزدور، ہنر مند اورورکر پوری قوم کی طرف سے داد و تحسین کا مستحق ہے۔ قذافی سٹیڈیم کا شمار پہلے بھی دنیا کے بڑے کرکٹ اسٹیڈیمز میں ہوتا تھا تاہم اب بلاشبہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہو گیا ہے، جہاں جدید سہولتوں سے آراستہ ایک جدید ترین کرکٹ سٹیڈیم موجود ہے۔ اس پر لاگت کا تخمینہ کیا رہا، اس کی تفصیلات تو جاری نہیں کی گئیں البتہ اطمینان بخش بات یہ ہے پراجیکٹ بروقت اور احسن طریقے سے مکمل ہو گیا ہے۔اب پوری دنیا چیمپئن ٹرافی کے میچوں کو اس جدید اور ٹیکنالوجی کے کرشمات سے آراستہ سٹیڈیم میں دیکھے گی اور پاکستان کا ایک روشن، ترقی یافتہ اور پرامن چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا۔
قذافی سٹیڈیم کی افتتاحی تقریب ہوئی تو بتایا گیا اسے ریکارڈ 117دنوں میں مکمل کیا گیا ہے اتنی کم مدت میں تو ورکروں کا مکان نہیں بنتا کہ مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اب ہمیں اندازہ ہوا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت وغیرہ میں سربکف عمارتیں ہمارے یہ مزدور اور مستری کیسے تعمیر کرتے رہے ہیں، کیوں خلیج ممالک میں ان کی اتنی مانگ ہے۔ حالانکہ انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان کے مزدور بھی وہاں موجود ہیں مگر جو جاں فشانی، مہارت اور محنت پاکستانیوں کا طرۂ امتیاز ہے وہ دوسری میں نظر نہیں آتی، اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دبئی میں ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن منصوبے کے لئے لاکھوں مستری مزدور درکار ہوں گے اور پاکستانیوں کی مانگ 90کی دہائی جتنی بڑھ جائے گی۔ میری کل مستری اکرم سے ملاقات ہوئی۔ وہ تین ماہ سے قذافی سٹیڈیم میں کام کرنے گیا ہوا تھا۔ چند دن پہلے ہی اس کی واپسی ہوئی۔ اس نے بتایا ہم لوگوں نے وہاں جی بھر کے محنت بھی کی اور کمایا بھی بہت۔ اوورٹائم بہت لگتا تھا اور اس کا معاوضہ بھی پورا ملتا تھا۔ صرف دوچار گھنٹے نیند کے بعد سب دوبارہ اپنے کام میں لگ جاتے۔ کھانے کا انتظام بھی وہیں تھا اور رہائش بھی دی گئی تھی۔ ہم سب قومی جذبے سے کام کررہے تھے کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا اسے بروقت مکمل نہ کیا گیا تو بھارت ہمارا مذاق اڑائے گا اور کرکٹ ٹورنامنٹ بھی ہم سے واپس لے لیا جائے گا۔ میں نے پوچھا جلدی میں تو کام بھی معیاری نہیں ہوتا، کیا وہاں بھی ایسا ہوا۔ اس نے کہا نہیں صاحب جی، بہت شاندار کام ہوا ہے اور ایک آنے کی کمی نہیں چھوڑی گئی۔ ہربندہ اپنے کام میں پرفیکٹ تھا۔ حتیٰ کہ رنگ و روغن کرنے والے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے وگرنہ عام طور پر جلد بازی میں صرف رنگ پھیرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے، پائیداری اور صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ہر شعبے کے ماہرین پراجیکٹ کی نگرانی کررہے تھے اور غیر معیاری کام کی کوئی گنجائش باقی ہی نہیں رہنے دیتے تھے۔ اس کی یہ باتیں میرے لئے حیران کن تھیں، میں اسے پچھلے تیس برسوں سے جانتا ہوں، اپنے کام کا ماہر ہے، کئی سرکاری منصوبوں میں بھی شامل رہا ہے۔ ماضی میں وہ مجھے خود بتاتا رہا ہے کہ سرکاری منصوبوں میں کس طرح دونمبری ہوتی ہے اور غیر معیاری کام کرکے ٹھیکیدار پیسے بچا لیتے ہیں، مگر قذافی سٹیڈیم کے بارے میں ایسی کوئی بات کرنے کی بجائے اس کی تعریف کررہا تھا جس سے مجھے اندازہ ہوا معجزہ ہونے پر آئے تو پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے۔وزیرداخلہ اور پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی ایک پریس کانفرنس میں بتا رہے تھے اس کے لئے سارا انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کا سامان چین سے منگوایا گیا ہے۔ سٹیڈیم میں لگائی جانے والی کرسیاں بھی چین سے آئی ہیں، جو بیس سال تک خراب نہیں ہوں گی اسی طرح سکور بورڈ، سٹیڈیم کا لائٹ سسٹم، بارش سے بچانے اور پانی کی گراؤنڈ سے نکاسی جیسے اہم کام بھی جدید بنا دیئے گئے ہیں۔ سٹیڈیم میں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ گراؤنڈ کے چاروں طرف تماشائیوں اور گراؤنڈ کی باؤنڈری کے درمیان ایک خندق کھودی گئی ہے جسے جالی لگا کر بند کیا گیا ہے۔ اب کسی کے لئے یہ ممکن نہیں ہوگا وہ باڑ پھلانگ کر گراؤنڈ میں داخل ہواور کھلاڑیوں تک پہنچ سکے۔ قومی اثاثے سب کی ملکیت ہوتے ہیں انہیں جو بھی بنائے، اس کی تعریف ہونی چاہیے۔ ہمارا یہ المیہ بھی رہا ہے اربوں روپے خرچ تو ہو جاتے ہیں، منصوبوں کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ کاغذوں میں منصوبے مکمل کرنے کی ایک تاریخ ہمارا ورثہ ہے۔ لاہور کے اپنے بہت سے حوالے ہیں، بہت سی تاریخی و ثقافتی خوبیاں اس کی پہچان ہیں۔ اب عالمی معیار کا ایک کرکٹ سٹیڈیم بھی اس کی جھولی میں آ گرا ہے۔ افتتاحی تقریب میں اس سٹیڈیم کی جو شان و شوکت اور خوبصورتی کے مظاہر سامنے آئے ہیں، اسے یقینا دنیا بھر کے کرکٹ شائقین نے تعجب و تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہوگا۔ چیمپئن کرکٹ ٹرافی ایک عالمی ایونٹ ہے جس میں دنیا بھر کی ٹیمیں حصہ لیں گی۔ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ اس نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کیا ہے۔ یہ اس کی ہٹ دھرمی اور تعصب ہے۔لاہور جیسے تاریخی شہر کے ایک جدید ترین سٹیڈیم میں پاک بھارت ٹاکرہ ہوتا تو اس کا رنگ ہی جدا ہونا تھا کیونکہ زندہ دلان لاہور کی سٹیڈیم میں موجودگی ایک ایسا سماں باندھ دیتی ہے، جس میں زندہ دلی، سپورٹس مین سپرٹ اور مہما ن نوازی کی مٹھاس شامل ہوتی ہے۔